وائرس، معیشت اور سیاست
ہم نئے سال میں داخل ہوگئے ہیں، یہ سال نئی امیدیں لے کر آیا ہے۔ دنیا نے پچھلے دو برسوں کے دوران بڑی اذیت اور پریشانی جھیلی ہے۔ کورونا کے باعث لاکھوں لوگ زندگی سے محروم ہوئے اور کروڑوں نے اس تکلیف دہ بیماری کا عذاب سہا۔ شاید ہی کسی گھر یا گھرانے نے اپنے کسی پیارے کو ہمیشہ کے لیے نہ کھویا ہوگا، یہ دو سال معاشی بحرانوں کے سال تھے۔
کورونا کی وجہ سے ہر طرح کا کاروبار رک چکا تھا۔ سفری پابندیوں کے باعث لوگ سیاحت یا کاروبار کے لیے کسی ملک کا سفر نہیں کرسکتے تھے اور امریکا، چین، برطانیہ، فرانس، جاپان اور جرمنی جیسی طاقت ور معیشتوں کو کورونا کے ایک نظر نہ آنے والے وائرس نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی درآمدات اور برآمدات کا انحصار بھی ترقی یافتہ ملکوں پر ہوتا ہے۔
امیر ملکوں نے مشکل وقت اس لیے برداشت کرلیا کہ وہاں کی حکومتیں امیر تھیں۔ انھوں نے اپنے شہریوں اور کاروبارکو نقصان سے بچانے کے لیے مالی مدد فراہم کی۔ ترقی پذیر ملک یہ نہ کرسکے جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ اپنے روزگار اور کاروبار سے محروم ہوگئے۔
اب دنیا ایک نئے طرزکے وائرس کا سامنا کر رہی ہے، جسے اومی کرون کا نام دیا گیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ وائرس غیر معمولی تیزی سے پھیلتا ہے لیکن بہت زیادہ مہلک نہیں ہے۔ یہ وائرس یورپ، امریکا، افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے دیگر ملکوں میں جس برق رفتاری سے پھیل رہا ہے اس کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی فرد شاید اب اس وائرس سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔
ہمارے ملک میں کروڑوں لوگوں کو ویکسین کی ایک خوراک لگائی جاچکی ہے لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی دوسری خوراک اب تک نہیں لگوائی ہے۔ بوسٹر خوراک لگوانے والوں کی تعداد بھی بہت حوصلہ افزا نہیں ہے، دیگر غریب ممالک کی طرح ہمارا بھی یہی مسئلہ ہے کہ کاروبار کو زیادہ دیر تک بند رکھنا ممکن نہیں۔ حکومت پہلے ہی کافی مقروض ہے، اس کے اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اسے دستیاب آمدنی سے پورا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
لہٰذا لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اس وائرس سے بچنے کے لیے وہ اقدامات ضرورکریں جو انھیں بار بار بتائے اور یاد دلائے جاتے ہیں۔ ویکسین نہیں لگوائی تو لگوائی جائے، دو خوراک مکمل کی جائے۔ بوسٹر خوراک بھی لگوائیں، ماسک پہننے کی عادت ڈالیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں اور ہاتھوں کو صابن سے صاف کرتے رہیں۔ میں نے یہ باتیں اس لیے دہرائی ہیں کہ ایک کالم نگار کے طور پر میرا فرض ہے کہ اس موذی اور مہلک وائرس سے بچائو کے حوالے سے شعور اور آگہی کو زیادہ سے زیادہ عام کرتی رہوں۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری معیشت کورونا کی وبا کے آنے سے پہلے بھی مشکلات کا شکار تھی۔ اس عالمی وبا کی وجہ سے دنیا میں جو معاشی کساد بازاری اور سست روی پیدا ہوئی اس نے ہماری معیشت میں ایک خطرناک بحران پیدا کردیا۔ اب حکومت اس بحران سے باہر نکلنے کی سر توڑ کوشش کررہی ہے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے رجوع کرنا اس کی ضرورت اور مجبوری دونوں ہے۔ آمدنی کم اور اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ خسارہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اسے پورا کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
اب تک ہم اپنی کل داخلی پیداوار کے مساوی قرض لے چکے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے زر مبادلہ درکار ہوتا ہے۔ یہ کہاں سے آئے گا؟ اس کی دو ہی صورتیں ہیں، یا قومی آمدنی بڑھائی جائے یا مزید قرض لے کر پرانے قرض اتارے جائیں اور اگلے سال کے لیے قرضوں کا مجموعی بوجھ مزید بڑھا لیا جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے کا تعاون حاصل نہیں ہوگا تو دنیا کا کوئی بینک، مالیاتی یا کاروباری ادارہ ہمارے ساتھ تعاون پر آمادہ نہیں ہوگا۔ اسے یہ خوف لاحق رہے گا کہ کہیں اس کا سرمایہ ڈوب نہ جائے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ضرورت اس لیے ہے کہ عالمی مالیاتی منڈی میں ہماری ساکھ برقرار رہ سکے، اگر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے والا ملک نسبتاً مستحکم ہوتا ہے تو اس ادارے کی شرائط زیادہ سخت نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر کوئی ملک معاشی بحران میں مبتلا ہونے کے بعد ان مالیاتی اداروں کے پاس جاتا ہے تو انھیں انتہائی کڑی شرائط منظور کرنی پڑتی ہیں۔ بحران میں گھرا کوئی ملک اگر ان کی مشکل شرائط نہ مانے تو یہ اس کا استحقاق اور اختیار ہوتا ہے اس پر کوئی جبر نہیں کیا جاتا۔
ہم اپنی مجبوری کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں، اس نے ہمیں خود نہیں بلایا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ ہم اپنے اخراجات کم کریں اور اس دوران اپنی آمدنی بھی بڑھائیں۔ یہ دونوں کام اگرکیے جائیں گے تو عبوری دور کے لیے آئی ایم ایف ہماری مالی مدد کرے گا جو دراصل دنیا کے لیے یہ پیغام ہوگا کہ پاکستان سے کاروباری لین دین کے لیے فضا اب سازگار ہوچکی ہے۔
مشکل یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اصلاحات کا ایک پیکیج دیا ہے اور شرط عائد کی ہے کہ اسے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے تاکہ یہ قانونی شکل اختیار کر لے اور موجودہ یا آنے والی کوئی دوسری حکومت اسے ختم یا تبدیل نہ کرسکے۔
معیشت دانوں کا ایک بڑا حلقہ کہتا ہے کہ یہ پیکیج دراصل ایک منی بجٹ ہے جس سے مہنگائی اور افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ جب کہ کئی معاشی ماہرین کا موقف ہے کہ ایسا کرنا مجبوری ہے، آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانی گئیں تو اس کے نتائج بہت خراب ہوں گے اور عالمی سطح پر نادہندہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ اس دلیل میں وزن ہے لہٰذا اسے آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا۔
اب سوال یہ نہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا جائے یا نہیں؟ عمل تو بہرحال کرنا ہی ہوگا، لیکن اسی لمحے ایک دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بار بار عالمی مالیاتی اداروں کی طرف کیوں جانا پڑتا ہے؟
اس میں قصور ان اداروں کا ہے جو مشکل شرطیں عائد کرتے ہیں یا کوتاہی ہماری ہے کہ ہم بحران کے عارضی طور پر ٹل جانے کے بعد اپنی پرانی روش پر آجاتے ہیں لہٰذا چند برسوں بعد ہمیں دوبارہ معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہم پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آگے ہاتھ پھیلانے لگتے ہیں نتیجتاً یہ ادارے پہلے سے زیادہ مشکل شرائط مسلط کرکے ہمیں وقتی طور پر مشکل سے نکال دیتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ اسی طرح چلا آرہا ہے۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے، اس کے پیکیج قبول کرنے یا نہ کرنے کی بحث اب فضول ہوچکی ہے۔ اب ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کہ بار بار ان اداروں کے پاس جانے کا سلسلہ کبھی ختم ہوگا یا نہیں؟ اس سوال کو سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہیے۔ بات کورونا اور دنیا پر اس کے نئے وائرس کے حملے سے شروع ہوئی تھی۔
اس وقت جو عالمی صورتحال ہے اس کے تناظر میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ نیا سال ہمارے لیے نئی مشکلات کا سال بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم سیاسی سطح پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کو اولین ترجیح دیں تاکہ تمام فریقین اور اسٹیک ہولڈر مل کر ایک میثاق معیشت پر اتفاق کرسکیں تاکہ معاشی بحرانوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے آگے کوئی بند باندھا جاسکے۔ یاد رہے کہ معیشت بچے گی تو سب بچے گا۔