اردو افسانے کا سفر (آخری حصہ)
"انگارے" سے کیا انگریز سرکار اور کیا قدامت پسند مسلمان طبقہ دونوں کے ہی ہوش اڑے ہوئے تھے۔ سوویت یونین میں انقلاب عظیم برپا ہو چکا تھا اور اس انقلاب کی لہریں دور دور تک پھیل رہی تھیں۔ برطانوی راج و تاج اس کے اثرات سے لرزہ براندام تھا۔ مسلمان جاگیردار، تعلقہ دار اور مسجد و منبرکا کلید بردار خوفزدہ تھا کہ اگر عورت اور نچلا طبقہ اس کی گرفت سے نکل گیا تو کیا ہو گا۔ ایسے میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام اور ڈاکٹر رشید جہاں کی شعلہ بیانی مستزاد تھی۔
وہاں سے اردو افسانے کا شاندار سفر شروع ہوا۔ اس میں پاک محبت اور ہوس کے پھندوں کے ساتھ ہی غریب بیوہ کی جوانی، پہلی جنگ عظیم میں مجروح و مضروب ہونے والے نوجوانوں کی محرومیاں، دوسری جنگِ عظیم کے بجتے ہوئے طبل، شہر اور دیہات میں مسائل سے الجھتی ہوئی عورت، کارخانوں میں کام کرنے والوں کے آلام، برطانوی سامراج کی سیاست کے پیچ و خم۔
یہ وہ تمام معاملات تھے جو اردو افسانے میں در آئے۔ منشی پریم چند اورسدرشن سے کرشن چندر تک موضوعات کا ایک سیلاب بلا تھا جو لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو بہائے لیے جا رہا تھا۔ منشی پریم چند کا "حج اکبر" اور کرشن چندر کا "آدھے گھنٹے کا خدا" اور "کچرا بابا" پڑھنے والوں کو ایک نئی دنیا سے دوچار کر رہے تھے۔ کرشن چندرکے ساتھ ہی منٹو، خواجہ احمد عباس، بلونت سنگھ ایسے ادیبوں کا ظہور ہوا۔ اردو افسانوں نے اس مذہبی جنون کا احاطہ کیا جس نے اپنے دھار دار ہتھیار سے مسلمان اور ہندو عورت کو بے رحمی سے ذبح کیا۔
منٹو نے اس عظیم انسانی المیے اور پدرسری خاندان کی منافقتوں کے علاوہ "جنس، شہوانیت، ظلم، ایذا دہی، قتل وخون، تیز ہیجانی جذبات، غیر معمولی واقعات اور غیر معمولی انوکھے کرداروں کے ساتھ چونکا دینے والے افسانے تخلیق کیے۔" یہ افسانے خاندان کے ادارے سے مایوس ہوکر طوائفوں میں پناہ لینے والے تنہا اور مایوس انسان کا قصہ ہیں۔ خاندان کی "رسوم اور پابندیوں سے اس کی بغاوت کی انتہا یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد خود اپنی بیوی کو اغوا کر کے کہیں اور لے جاتا ہے۔" برصغیر کی تقسیم کے وقت نفرت اور وحشت کی جو آندھی چلی اس کا ایک اندوہ ناک عکس منٹوکے افسانے "کھول دو" میں نظر آتا ہے۔
منٹو نے اپنے سماج کو جوآئینہ "کھول دو" میں دکھایا ہے، وہیں اس کے Dehumanise ہونے کی انتہا "ٹھنڈا گوشت" میں دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ راجندر سنگھ بیدی کے یہاں لاجونتی، گرہن، اپنے دکھ مجھے دے دو" ایسے افسانوں میں فسادات اور وحشی پن کے بھالے سے ادھڑے ہوئے ایسے خاندانوں کی کہانیاں ہیں جن میں میاں بیوی ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی، ایک دوسرے سے نرمی کا برتاؤکرتے ہوئے بھی، اس ناقابلِ بیان تنہائی کا شکار ہیں جو آہستہ آہستہ صرف بیدی کے افسانوں میں ہی نہیں دوسرے متعدد ادیبوں کی تحریروں میں بھی خاندان کی بنت کو ادھیڑتی ہوئی اور انسان کی کائناتی تنہائی کو اجاگر کرتی نظر آتی ہے۔
جاگیرداری نظام، غیر ملکی تسلط، بیروزگاری اور بھوک نے ہمارے سماج میں جو گھناؤناپن، کمینگی، جنسی استحصال اور جنسی گھٹن، خود غرضی اور کھوکھلا پن پیدا کیا اس کی سب سے کامیاب عکاسی عصمت چغتائی نے کی ہے۔ وہ راشدالخیری یا ان سے قبل کے مرد اور خواتین ادیبوں کی طرح خاندان کے ادارے کی لیپا پوتی کی قائل نہ تھیں، اسی لیے انھوں نے "نوجوان لڑکیوں، لڑکوں، بوڑھی عورتوں، زن مرید شوہروں، جنتی بیبیوں " کی کہانیوں کے ذریعے ہمیں ان زخموں اور ناسوروں سے روشناس کرایا جن پر، پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی تھی۔
انتظار حسین جو اردو ادب کا ایک اہم نام ہیں اور ان کے افسانوں میں "پہلے فرد پر معاشرے کو یا کردار پر ماحول کو ترجیح حاصل تھی، اب پورا وجود اور اس کے مسائل مرکز نگاہ بنتے ہیں۔ اب محض خارجی مشاہدہ ہی کافی نہیں، باطن کی آنکھ بھی کھلتی ہے۔ ان کی بعد کی کہانیوں میں زیادہ توجہ ذات کے باطنی منظرنامے، وجود کی نوعیت وماہیت، اخلاقی و روحانی زوال اور داخلی رشتوں کے بھیدوں اور رازوں پر مرکوز ہونے لگتی ہے۔"
ادھر عبدالصمد کا "دو گز زمین" اور الیاس احمد گدی کا "فائر ایریا" ہے جس میں برصغیرکی تقسیم، مزدور کی فرقہ وارانہ تقسیم اور غربت کے ہاتھوں سماج کی تقسیم کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گئے ہیں اور اسے نئی بنیادوں پر تعمیر اور استوارکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ غیاث احمد گدی، اقبال مجید، قیصر تمکین اور یونس گاسکر بھی ان ادیبوں میں ہیں جنھوں نے ہمارے سماج کی پسپائی کو کسی نہ کسی طور اپنا موضوع بنایا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں اردوکے ادیبوں کے لیے انسان کا مقدر، کائنات میں اس کی بے بضاعتی اور جدید صنعتی نظام میں انسان کا غیر انسانی کل پرزوں میں بدل جانے کا عرفان اور اس عرفان کی دہشت اتنے بڑے معاملات تھے اور ہیں کہ نئے سماج کی تعمیر یا اس کی تخریب کا معاملہ کہیں بہت پیچھے جا پڑا ہے۔ فسادات، جنگیں، قتل عام، سیاسی استبداد، فرقہ واریت، نظریاتی سخت گیری، قومی اور نسلی تعصبات جو پہلے کے زمانوں میں ایک علاقے میں محدود ہوتے تھے، اب پورے کرئہ ارض پر پھیل گئے ہیں اور ان معاملات کی سفاکی نے خاندان کو نگل لیا ہے، جیسے کوئی اژدھا کسی چھپکلی کو نگل لے۔
یہی وجہ ہے کہ بلراج مینرا ہوں یا انور سجاد، خالدہ حسین ہوں یا سریندر پرکاش، رشید امجد ہوں یا منشایاد، احمد داؤد ہوں یا نجم الحسن رضوی، مسعود اشعر یا مظہر الاسلام ہوں، مرزا حامد بیگ یا اسد محمدخان ہوں، حسین الحق یا انور خان، جوگندرپال ہوں یا فہیم اعظمی، مشرف احمد، محمود واجد، آصف فرخی، علی حیدر ملک، اے خیام، نورالہدیٰ سید، شمشاد احمد یا نعیم آروی ہوں، عطیہ سید، نیلم احمد بشیر، شہناز پروین ہوں یا فردوس حیدر، احمد یوسف، سید محمد اشرف، سلام بن رزاق، مشرف احمد ذوقی اور شہناز شورو یا دوسرے بہت سے افسانہ نگار، ان کی تحریروں میں انسان کی تنہائی، اس کی بے بسی، زندگی کی لایعنیت، جنگ اور نفرت کی دہشت، وجودیت اور لایعنیت کے مختلف رنگ ملتے ہیں اور ڈپٹی نذیر احمد یا راشدالخیری اور سماج کی تعمیر و تخریب ان کا مسئلہ نہیں رہی ہے۔
بیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک جو سماج ابھر کر آیا ہے۔ وہ صرف جنوبی ایشیا نہیں، پوری دنیا کا سماج بن چکا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد وکٹورین عہد کے عشق کا خاتمہ بالخیر ہوا، مرد اور عورت کے پُرشور اورہیجان انگیز وصال کا معاملہ پرانا ہو چکا، سماج میں Gayism اور Lisbianism جڑ پکڑ رہے ہیں، انھیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین وضع ہو رہے ہیں، مردوں کی مردوں سے شادیاں ہو رہی ہیں، عورتیں، عورتوں سے بیاہ رچا رہی ہیں۔ بات Nuclear Family سے Single Parent اور ٹسٹ ٹیوب بے بی اور Sprem Bank سے Cloning تک جا پہنچی ہے۔
رحم کرائے پر مل رہے ہیں اور بچے جنسی عمل کے بغیر بھی وجود میں آ رہے ہیں۔ ایسی گمبھیر اور پیچیدہ صورتحال نے جنوبی ایشیا کے ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، کیونکہ جنوبی ایشیا بھی گلوبل ولیج کا ہی ایک حصہ ہے۔ ہماری کہانیوں میں بھی اب شادی کا ادارہ زوال پذیر ہے، باپ اپنی ذمے داریوں سے منہ چرا رہے ہیں۔ لیکن تیزی سے رونما ہونے والے صنعتی، سائنسی اور تکنیکی انقلاب نے ہمارے جنوبی ایشیا کے سماج کی بھی دنیا بدل دی۔ مغرب میں یہ ادارے زمیں بوس ہو رہے ہیں، تو یہ عمل ہمارے یہاں بھی جاری ہے۔ اس عمل کے اثرات برصغیر اور اس کی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
آج بنیاد پرست ہماری عورتوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہے ہیں۔ اس سے وہ تمام حقوق بھی چھین رہے ہیں جو اس نے اور اس کے ہم خیال مرد ساتھیوں نے بیسویں صدی میں لڑ کر حاصل کیے تھے۔ اب سے سو برس پہلے ہمارے مرد اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کر رہے تھے۔ اس کے لیے ادب لکھ رہے تھے، آج لڑکیوں کے اسکول بموں اور باردو سے اڑائے جا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی اور سماجی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ وقت کے دھارے کا رخ نہیں موڑا جا سکتا۔
وقت بنیاد پرستوں کے ساتھ نہیں۔ جلد یا بدیر جنوبی ایشیا کی مسلمان عورت اپنی سیاسی اور سماجی جدوجہد، اپنے ادب اور اپنی صحافیانہ تحریروں سے ٹیلی وژن اور فلم کے میڈیم سے آگے کی طرف چلتی جائے گی۔ اس جنگ میں اس کا قلم اس کا سب سے بڑا اور طاقتور ہتھیار ثابت ہوا ہے اور آیندہ بھی وہ اسے ہاتھ سے رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ایک نئی حسیت ہے جو اردو افسانے میں ابھر کر سامنے آئی ہے اور ہمیں اس کا سامنا کیے بغیر چارہ نہیں۔