قدامت کا گرداب اور افغان خواتین
کابل ایئر پورٹ سے جب آخری غیر ملکی واپس گیا تو طالبان کی خوشی دیدنی تھی اور ہونی بھی چاہیے تھی۔ جس سرزمین پر بیس برس تک اغیارکی حکمرانی ہو، وہاں سے ان کے انخلاء پر جتنی بھی خوشی منائی جائے وہ کم ہے۔ اسی خوشی میں ہوائی فائرنگ سے طالبان نے اپنے 16 افراد بھی جاں بحق کر دیے۔
ہمارا خیال تھا کہ اس ناگہانی پر ان کے یہاں بہت واویلا ہوگا لیکن اس کے بجائے یہ خبر آئی کہ کابل میں جو احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔ ان کی رپورٹ کرنے والے افغان صحافیوں نعمت اللہ اور تقی دریائی کو ڈنڈوں اور بجلی کے تاروں سے مارا اور جب انھوں نے احتجاج کیا تو ان سے کہا گیا کہ تم خوش نصیب ہوکہ ہم نے تمہارا سر قلم نہیں کیا۔
ادھر افغان خواتین اور لڑکیاں ہیں جن کی سراسیمگی کا عالم دیکھنے کے قابل ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین کے کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی رہے گی۔ نائب سربراہ افغان ثقافتی کمیشن نے یہ بات واضح لفظوں میں کہی ہے کہ یہ کھیل جس لباس میں کھیلے جاتے ہیں، ان سے خواتین کی بے پردگی ہوتی ہے اس لیے ان کھیلوں پر مستقل پابندی رہے گی۔ اس نوعیت کی پابندیوں سے افغان لڑکیاں نہایت دلبرداشتہ ہیں۔
گزشتہ بیس برسوں میں انھوں نے مختلف کھیلوں اور بہ طور خاص کرکٹ میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، اب جب وہ مستقبل کے بارے میں سوچتی ہیں تو انھیں کھیلوں کے میدان میں اپنا مستقبل سیاہ نظر آرہا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ طالبان نے کابل سے امریکیوں کے انخلا کے وقت جو وعدے کیے تھے ان کا آنیوالے دنوں میں کیا ہوگا؟
ان خبروں کے تناظر میں اب سے سوا سو صدی پہلے کا لاہور اور دلی یاد آتا ہے۔ جہاں مسلمان اکابر کے درمیان لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ اس جنگ میں لاہورکی محمدی بیگم اور ان کے شوہرکا ایک نہایت اہم کردار رہا ہے۔
یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اب چند برسوں سے ان خواتین کا تذکرہ ہونے لگا ہے اور ان کا کام مرتب اور منضبط کرکے سامنے لایا جا رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان خواتین کی بے پناہ محنت اور عرق ریزی سے سوا اور ڈیڑھ سو برس پہلے کی تحریریں اکٹھی نہ کی جاتیں تو ہم خواتین کی تعلیم و تربیت کی تاریخ کے بارے میں کیسے آگاہ ہوتے۔
ڈاکٹر حمیرا اشفاق ہمارے ایک ادیب اور مرتب احمد سلیم کی نگرانی میں " تہذیب نسواں " کی مدیر محمدی بیگم کی تحریروں، ناولوں اور ترجمے کو مرتب کرکے ہمارے سامنے لائی ہیں۔ اپنے ابتدائیے میں وہ لکھتی ہیں:
"انیسویں صدی سیاسی اور سماجی حوالوں سے بڑی اہمیت کی حامل ہے" پھر جدید تعلیم کے حوالے سے وہ سرسید احمد خان اور ان کے چند رفقا کار کے بارے میں لکھتی ہیں:
"صاحب زادہ آفتاب احمد خان صاحب اور مولوی ممتاز علی صاحب نے اس کی تائید کی اور بھی چند اولڈ بوائز نوجوانوں نے اس مسئلہ پر تقریرکی لیکن پرانی تعلیم کے مسلمان کچھ اس طرف متوجہ نہ ہوئے، لیکن نواب محسن الملک مرحوم اس تحریک کے موافق تھے۔ سرسید اور اس کے دیگر احباب اس کے مخالف تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب خواجہ صاحب سرسید سے ملنے گئے تو سرسید نے ان کی تعلیم نسواں کی حمایت کا مضحکہ اڑایا اور ابھی وہ کمرے میں گھسنے بھی نہ پائے تھے، کہا کہ کیا تم پردے سے بار نکل آئے ہو۔
مجھے یاد ہے کہ کسی موقع پر اس زمانے میں، میں نے سرسید سے عرض کیا کہ لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام ضروری ہے۔ سرسید نے فرمایا کہ موجودہ طرز کے مدارس میں پڑھ کر لڑکیاں بد اخلاق ہوجائیں گی اور ان کے دوست شمس العلماء حافظ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب دہلوی جو اس وقت ان کے پاس بیٹھے تھے کہا کہ میاں کیا تم لڑکیوں کے لیے مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہو، انگریزی مدارس میں پڑھ کر ہڑدنگیاں ہوجائیں گی۔
روایت پسند طبقے نے خواتین کے لیے رسمی تعلیم کو مغربی تہذیب کی یلغار قرار دیتے ہوئے اسے مشرقی اقدار سے بغاوت قرار دیا۔ تعلیم کے حصول میں رپدے کا حد سے بڑھا ہوا رجحان بھی ایک وجہ تھی جس سے باقاعدہ تعلیم کے لیے گھر سے نکلنا بہ طور خاص اشرافیہ کی خواتین کے لیے زیادہ معیوب سمجھا جاتا تھا اگرچہ جے ای ڈی بیتھون (J.E.D. Bethune 1801-1891) کی کوششوں سے لڑکیوں کے اسکولوں کے فنڈز فراہم کیے گئے۔
لیکن مسلم خاندان جنگ آزادی کی وجہ سے ان اسکولوں کو ناپسندکرتے تھے اور انھیں خوف تھا کہ دیگر مذاہب کی لڑکیوں سے ان کا میل میلاپ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم گھرانوں کی لڑکیاں ان اسکولوں سے فیض حاصل نہ کرسکیں۔ پھر اور توجیہ جو لڑکیوں کے لیے بطور عذر پیش کی جاتی تھی کہ یہ لکھنا جان لیں گی تو نامحرموں کو خط لکھیں گی۔ اس طرح کی اوہام نے مسلم گھرانوں میں باقاعدہ تعلیم کے لیے کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کردی تھیں۔ یہی وہ رویے تھے جو خواتین کی تعلیم کے راستے میں مزاحم تھے۔"
حمیرا اشفاق پٹنہ کی پہلی خاتون ناول نگار رشیدۃ النسا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
" محمدی بیگم کے تخلیقی سفرکا آغاز بلاشبہ خواتین کے تشخص میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا، اگرچہ انھیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ انھیں اور ان کے شوہر مولوی ممتاز علی کو ایسے خط بھی ملے جن میں فحش گالیاں درج ہوتی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے گھر کے درو دیوار کو بھی اسی قسم کی مغلظات سے آلودہ کیا جاتا تھا۔ لاہور کے چند کٹر روایت پسند بزرگوں نے ایک طوائف "اللہ دی نزاکت" نامی سے ایک زنانہ اخبار جاری کروایا۔ جس سے " تہذیب نسواں " کی تضحیک کا پہلو نکلتا تھا۔" مولوی ممتاز علی کا ایک واقعہ محمد اسماعیل پانی پتی ان کی زبانی یوں درج کرتے ہیں۔
" ایک مرتبہ ایک مقامی اخبار نے بڑے طنزکے ساتھ لکھا کہ "انگریزوں کے راج کی برکت ہے کہ تعلیم روز بہ روز عام ہورہی ہے اور تصنیفات اور اخبارات کو ترقی ہے۔ اخبار ابھی تک (صرف) مردوں تک محدود تھے مگر اب عورتوں کے اخبار بھی جاری ہونے لگے ہیں۔ چنانچہ دو شریف زادیوں " اللہ دی نزاکت " اور " محمدی بیگم" نے اس " نیک " کام کی طرف توجہ کی ہے۔ میری اہلیہ کو اس بات سے کہ میرا نام ایک کسبی کے ساتھ ملا کر ایک ہی سطر میں لکھا گیا ہے، بے انتہا صدمہ ہوا اور وہ بہت دیر تک روتی رہی۔
محمدی بیگم نے صرف انیس سال کی عمر میں " تہذیب نسواں " کی ادارت سنبھالی مگر آخری سانس تک اسی جذبے سے جاری رکھا۔ جس کے تحت انھوں نے یہ جدید خواتین کی ذہنی تربیت اور ان کی اصلاح و ترقی کی غرض سے شروع کیا تھا۔ پہلی خاتون مدیر کی حیثیت سے انیسویں اور بیسویں صدی کی صحافت میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ رشیدۃ النساء، محمدی بیگم اور بعض دوسری خواتین نے عورتوں کی تعلیم اورگھر سے باہر نکل کر پردے میں ہوتے ہوئے جدید تعلیم کا ڈول نہ ڈالا ہوتا تو جانے آج برصغیر میں عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم اور سماجی ترقی کہاں تک پہنچتی۔
کابل میں اس وقت افغان عورتیں قدامت کے گرداب میں جس طرح پھنسی ہوئی ہیں، اس سے نکلنے کے لیے خود ان ہی کو جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہماری خوش بختی یہ تھی کہ اس وقت ہم برطانوی راج میں زندہ تھے اور کم سے کم تعلیم، صحت اور بعض دیگر سماجی مسائل میں اس کی حمایت ہمیں حاصل تھی، اس کے باوجود افغان عورتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے سامنے ایک لمبی لڑائی ہے اور آزادی کی لڑائیاں خود ہی لڑی جاتی ہیں۔