ماحول اور محنت کش
ایک زمانہ تھا لوگ "ماحول" کو جانتے تھے لیکن لفظ "ماحولیات" سے واقف نہ تھے۔ اب یہ لفظ ہماری زندگی میں بے پناہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ ایک عرصے تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ یہ اس شعبے سے متعلق لوگوں کا مسئلہ اور معاملہ ہے لیکن آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ اس پر تو ہم سب کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کا انحصار ہے۔
اسی صورت حال کو نظر میں رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1972 میں ماحولیات کے عالمی دن کی بنیاد رکھی اور اسٹاک ہوم کانفرنس کے آغاز سے اس مسئلے کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے برتا جانے لگا۔ جس روز جنرل اسمبلی کی جانب سے ماحولیات کا عالمی دن منانے کا اعلان ہوا، اسی روز ایک دوسری قرار داد کی منظوری کے نتیجے میں یو این ای پی کی تشکیل عمل میں آئی۔ اس وقت سے ہر سال دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
پہلی دنیا کے لوگوں پر ماحولیاتی توازن کے بگڑنے کے اتنے گہرے اثرات مرتب نہیں ہوتے جتنے تیسری دنیا کے لوگ اس عدم توازن کے سبب پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ماحولیاتی انتشار جس حد کو پہنچ چکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پینے کے پانی میں گٹر کا پانی مل جانا کوئی بڑی خبر نہیں، لوگ اسے پیتے ہیں، اسے کھانا پکانے میں استعمال کرتے ہیں اور اکثر یہ آلودہ پانی وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کا سبب بنتا ہے۔
ملک میں گیسٹرو کے جو کیس سامنے آتے ہیں، وہ بھی ماحولیاتی بگاڑ کا ایک رخ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے حکومتیں ان معاملات کے مقامی ہونے کے سبب ان سے آنکھیں چرا لیتی تھیں لیکن اب دنیا واقعی ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک ملک میں ہونے والا کوئی ماحولیاتی حادثہ سیکڑوں اور ہزاروں میل دور کے ملکوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ ملک جنھوں نے صنعتی ترقی کے نام پر فضا کو بے حد و حساب آلودہ کیا ہے، وہ بھی بین الاقوامی برادری کے سامنے جواب دہ ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رکن ہونے کی بنا پر ہماری حکومت بھی سرکاری سطح پر ماحولیات کا عالمی دن مناتی ہے۔ وزیر، مشیر اور افسران اعلیٰ ان تقریبات میں شرکت کرتے ہیں جو ماحولیات کے حوالے سے ملک بھر میں منعقد ہوتی ہیں۔ ان تقریبات میں خوش نما باتیں کی جاتی ہیں، تصویریں کھنچتی ہیں اور ماحولیات کی بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ عنقریب پاکستان ایک ایسا ملک ہونے والا ہے جہاں ماحولیات سے متعلق ہر مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔
ہم ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے اور اپنے محنت کشوں اور زرعی کارکنوں کی صحت اور سلامتی کو کتنا نظر انداز کرتے ہیں، اس کی ایک مثال پاکستان میں کیڑے مار دواؤں کا غیر ذمے دارانہ اور غیر محتاط استعمال ہے۔ یہ صرف ہمارا ہی نہیں ترقی پذیر دنیا کے زیادہ تر ملکوں کا مسئلہ ہے۔
50ء کی دہائی میں ہمارے کسانوں کو پاکستانی افسران اور غیر ملکی ماہرین نے بڑے پیمانے پر کیمیاوی کھاد استعمال کرنے اور فصلوں کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں سے آنے والی زرعی دوائیں استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار زرعی دواؤں کا بے تحاشہ استعمال ہوا۔ کیمیاوی کھاد کے استعمال کی وجہ سے زمینیں بنجر ہونے لگیں اور کیڑے مار زرعی دواؤں کے نہ صرف فصلوں بلکہ کسانوں اور ان کے خاندانوں کی صحت پر بھی نہایت مضر اثرات مرتب ہوئے۔
1954 میں پاکستان کے کھیتوں، باغات اور گھریلو سبزے پر پہلی مرتبہ ٹڈی دل کا حملہ ہوا جس نے لوگوں کو دہشت زدہ کر دیا۔ حکومت نے ٹڈی دل کے عذاب سے نجات کے لیے 254 ٹن جراثیم کش دواؤں کو درآمد کیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں جراثیم کش دواؤں کی تجارت کا آغاز ہوا، یہ تجارت 1995میں 9 ارب روپے کی مالیت تک جا پہنچی، 2014 میں پاکستان نے106 ملین ڈالر کی جراثیم کش ادویات درآمد کی تھیں جب کہ امکان ہے کہ2023 میں اس کی مالیت بڑھ کر 127 ملین ڈالر ہو جائے گی۔
اس میں ان دواؤں کی قیمت شامل نہیں ہے جو سرحد پار سے بھاری پیمانے پر اسمگل کی جاتی ہیں۔ اب تک سیکڑوں جراثیم کش دوائیں حکومت پاکستان کے زرعی شعبے کے پاس رجسٹر ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں ان دواؤں کا جس قدر زیادہ استعمال ہو رہا ہے اور ان کے استعمال میں جتنی بے احتیاطی برتی جا رہی ہے، اس کی بنا پر بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مستقبل میں ہمیں کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں، بچوں اور کسانوں کی صحت اور آلودہ غذائی اجناس کے حوالے سے نہایت گھمبیر صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں تقریباً 30 فیصد خواتین کل وقتی زرعی مزدور ہیں جب کہ تقریباً 70 فیصد بالواسطہ زراعت سے وابستہ ہیں۔ کیڑے مار دواؤں کے زہریلے اثرات کا تعلق خاص طور پر ہماری کپاس کی فصل سے ہے جس میں کیڑے مار دواؤں کا 25 فیصد استعمال ہوتا ہے۔ خواتین کپاس کے کھیتوں میں مختلف کاموں میں مصروف ہوتی ہیں اس لیے ان کیڑے مار دواؤں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مختلف تحقیقی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ کپاس چننے والی کل 90 خواتین میں سے صرف ایک خاتون کو خطرے سے باہر قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان میں سے تقریباً 75 فیصد خواتین کے خون کی 15 تا 50فیصد ایسے ٹل کولین اسٹریز مدافعت پائی گئی، جب کہ 30فیصد خواتین میں خون کی ایسے ٹل کولین اسٹریز مدافعت سے شدید طور پر متاثر تھیں۔
پاکستان کی زرعی ریسرچ کونسل کے مطابق ملک کے صرف ان علاقوں میں جہاں کپاس کاشت کی جاتی ہے وہاں ہر سال 10ہزار زرعی کارکن زہر سے متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں ہر سال 2 لاکھ 80 ہزار محنت کش زرعی کارکن زہریلی جراثیم کش ادویات کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
متاثر ہونے والوں میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جراثیم کش ادویات کے زہر کے اسی طرح کے واقعات دیگر ترقی پذیر ممالک مثلاً ہندوستان، چین، انڈونیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ، ملائیشیا کے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر بھی سنائی دیتے ہیں اور سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ملائیشیا میں جہاں جراثیم کش اسپرے کرنے والی تقریباً 40 ہزار خواتین پورے ملک میں پام آئل اور ربر کے باغات میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ ان کا طبّی معائنہ کرنے پر یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ پیشاب کی تکلیف، سینے کے سرطان، متلی، سانس کی تکلیف، جلدی امراض، دورانِ سر، رعشہ، دردِ معدہ، کسل مندی، نظر کا دھندلا پن یا ناخنوں کی بد رنگی میں مبتلا تھیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق جراثیم کش ادویات کا سامنا کرنے کی وجہ سے ہر سال تقریباً 37 ہزار افراد سرطان کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جراثیم کش ادویات کے تیار کرنے والے کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین کے معیارِ صحت کو متاثر کرتی ہیں۔ روزگار کے متبادل ذرایع کی عدم دستیابی اور شدید غربت کے سبب وہ ان پلانٹس میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
بدقسمتی سے اس طرح کی خطرناک دواؤں کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کا فقدان ہے۔ جراثیم کش ادویات تیار کرنے والے کارخانوں یا کھیتوں میں کام کرنے والی عورتیں کسی بھی قسم کے ماسک یا دستانے اور حفاظتی لباس پہنے بغیر کام کرتی ہیں۔ کارکن اپنے ننگے ہاتھوں سے جراثیم کش ادویات بوتلوں اور تھیلوں میں بھرتے ہیں۔
خواتین کے مقابلے میں بچوں اور نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لوگ جو ان خطرناک جگہوں پر کام کرتے ہیں انھیں ان مہلک کیمیکلز کے بارے میں معمولی سوجھ بوجھ اور آگہی بھی نہیں ہے۔
معاشی بدحالی کے باوجود ہم اپنی زرعی معیشت اور کسانوں کی محنت کی وجہ سے قحط اور غذائی بحران سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔ جس محنت کش طبقے نے ہمیں بچایا ہوا ہے اس کی زندگی کتنی عذاب ناک ہے ہم نے اس پر غور کرنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں، فلاحی اداروں، حکومتوں اور ذرایع ابلاغ میں زرعی کارکنوں کے مسائل کا تذکرہ شاید ہی کبھی کسی نے سنا ہوگا۔ اس سے زیادہ افسوس ناک رویہ اور کیا ہو سکتا ہے؟