1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Kuch Afghanistan Ke Baare Mein

Kuch Afghanistan Ke Baare Mein

کچھ افغانستان کے بارے میں

لگ بھگ 60 برس پرانی بات ہے جب صبح سویرے ہماری گڈوانی اسٹریٹ میں ایک لاری کا ہارن بجتا اور میں اپنی بالکنی کی طرف دوڑتی۔ یہ میری عزیز دوست مرغلرہ حبیبی کی اسکول کی بس کا ہارن تھا۔ وہ اس وقت سینٹ جوزف اسکول میں پڑھتی تھی، افغانستان کے سابق وزیر تعلیم، پشتو کے ایک مشہورو معروف ادیب اور مصنف عبدالحئی حبیبی کی بیٹی جو اپنے والدین اور تین بھائیوں کے ساتھ پہلے پشاور اور پھر کراچی میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی تھی۔

میری زندگی کی پہلی دوست۔ میں اس پر رشک کرتی تھی۔ وہ کراچی کے ایک بڑے اور نامی گرامی اسکول میں پڑھتی تھی اور میں گھر میں ابا جان کی زیر نگرانی پڑھتی جس میں امی مدد گار ہوتیں۔ میں نے ہمیشہ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھا۔ شاہ ظاہر شاہ پاکستان آئے تو اس کے والد اور خاندان کو معافی مل گئی۔ یہ لوگ واپس کابل چلے گئے۔

جدا ہونے کا صدمہ نہ میرے دل سے گیا، نہ اس کے دل سے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو خط لکھتے اور کتابوں کا تحفہ بھیجتے۔ یہ وہی تھی جس نے مجھے بامیان کے بدھا کی سفید و سیاہ تصویریں بھیجیں، جیمزا ے مشنر کا ناول "کاروان" جو افغانستان کے بارے میں تھا، اسی کے وسیلے سے مجھے ملا اور میں نے اسے پڑھا۔ اس کے بعد جب شوروی (سوویت روس) افغانستان میں داخل ہوئے تو یہ خاندان امریکا چلا گیا اورپھرزندگی کے میدان حشر میں ہم دونوں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ چالیس برس بعد ہم شکاگو میں اپنی دوست ڈاکٹر عذرا کے گھر پر ملے۔

میں جو اس کی اعلیٰ تعلیم پر رشک کرتی رہی تھی، اسے دیکھ کر اور اس سے مل کر اداس ہوئی، وہ اپنی جڑوں سے اکھڑ چکی تھی، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ ایک اداس زندگی گزار رہی تھی، خواب جانے کہاں چلے گئے تھے۔ میں اس سے بار بار یہ کہتی رہی کہ تم واپس کابل کیوں نہیں چلی جاتیں۔ وہ مسکراتی رہی۔ چند گھنٹوں کی اس ملاقات کے بعد ہم ایک بار پھر بچھڑ گئے۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔ اب بھی کبھی کبھار ہم ایک دوسرے سے فون پر بات کرلیتے ہیں اور بس۔

افغانستان جس کی سرحدیں ہم سے ملی ہوئی ہیں وہ دہائیوں سے کیسے عذاب میں گرفتار ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں نے کس عقل سے اسے کابل واپس جانے کے مشورے دیے تھے۔ اس وقت کابل میں کہرام بپا ہے۔ فاتحین کی طرف سے امن کی خبریں آرہی تھیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اندھا دھند کابل، افغانستان سے باہر نکلنا چاہ رہے ہیں۔ چند دنوں پہلے کابل ائیر پورٹ کے جومناظر تھے وہ دل دہلا دینے والے تھے۔

طیارے پر ہلہ بولنے والے، بدلتی ہوئی صورتحال سے اتنے دہشت زدہ تھے کہ وہ طیارے کے پہیوں اور پروں سے لٹک کر اپنے ملک سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے انھیں بلند ہوتے ہوئے طیارے سے پھسل کر زمین پر گرتے ہوئے اور جان سے جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ جو طیارے سے لپٹ رہے تھے اور جانتے تھے کہ یہ ان کی حتمی موت ہے، اس کے باوجود وہ اپنی جنم بھومی پر رکنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ کیسی دہشت تھی اور یہ امن کے کیسے اعلانات تھے جو ان کی سماعت تک تو پہنچ رہے تھے لیکن ان کے دل پر اثر نہیں کررہے تھے۔

پاکستان کی ملالہ یوسفزئی جو دنیا کی نو عمر ترین امن کی نوبل انعام یافتہ لڑکی ہے وہ الگ دہائی دے رہی ہے۔ اس نے پاکستان کے سابق صدر زرداری، پاکستانی ڈاکٹروں اور پھر مغربی ڈاکٹروں کی عنایت سے نئی زندگی پائی۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہے۔ لیکن وہ افغانستان کی موجودہ صورت حال سے لرزاں و ترساں ہے۔ اس نے کل 19 اگست کو جو خط لکھا ہے، اسے پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے۔

اس نے بجا طور پر لکھا ہے کہ گزشتہ 20 برس میں افغان لڑکیوں اور عورتوں کو جو تعلیم دی گئی۔ اس تعلیم کے حوالے سے ان کے ساتھ جو وعدے کیے گئے، وہ چند گھنٹوں میں تحلیل ہوگئے ہیں۔ ہماری ان بچیوں اور عورتوں کا کیا ہوگا، ان پر کیا گزرے گی۔ یہ کس طرح ایک بار پھر پتھر کے دور میں دھکیل دی جائیں گی۔ یہ سوچتے ہی دم گھٹتا ہے۔

وہ 2007 کے ان دنوں کو یاد کرتی ہے جب آج کے فاتحین کا قبضہ اس کی جنم بھومی سوات پر ہوا تھا جو پاکستانی سرحدوں کے اندر ہے۔ ان لوگوں نے پاکستان کے اندر ہم لڑکیوں کا اسکول جانا ممنوع قرار دیا تھا اور ہم ان دنوں کس قہر و بلا سے گزرے، وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اس کے 5 برس بعد میری زندگی پر حملہ ہوا میں بچ گئی۔ یہ خدا کا شکر ہے۔

سچ ہے کہ جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔ ملالہ افغان بچیوں کی تعلیم کے سوال اٹھاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انھیں مدرسے کی تعلیم نہیں سائنس اور ریاضی پڑھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے ہنر سیکھنے چاہئیں تاکہ وہ اپنے ملک کی تعمیر کرسکیں۔ ہمیں نہ مغرب کی ضرورت ہے نہ ہزاروں برس پہلے غار میں رہنے والی ذہنیت ہمارے ملک کے کسی کام آسکتی ہے۔

افغانستان کی صحرا کریمی اپنے ملک کی واحد لڑکی ہے جس نے سینما ٹو گرافی میں پی ایچ ڈی کیا اور دو دن پہلے اس نے اپنے دس گھر والوں اور 2 دفتر والوں کے ساتھ کابل سے بہ مشکل جان بچاکر یوکرائن کے شہر خیوا میں پناہ لی ہے اور وہاں سے دنیا بھر کے آرٹسٹوں کو یہ اپیل کررہی ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں، عورتوں اور بہ طور خاص فنون لطیفہ سے منسلک مردوں اور عورتوں کی جان بچانے کی کوشش کی جائے ورنہ گزشتہ چند ہفتوں کے اندر جس طرح انتہا پسندوں نے ہمارے چند فنکاروں کو ہلاک کیا ہے، اسی طرح وہ دوسروں کو بھی ہلاک کردیں گے۔

اس نے دنیا کی اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ آپ نے ہمارے لوگوں کو جو اپنے اپنے شہروں سے جان بچا کر بھاگے ہیں انھیں خیمے فراہم کیے ہیں، ان کے چھوٹے بچوں کو دودھ بھی فراہم کریں۔ ورنہ وہ بھوک سے مر جائیں گے۔

اس کی ایک فلم "خوابوں کی تلاش میں " ڈھاکا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں 2006 میں دکھائی گئی۔ اس کے بعد اس نے ایک فلم بنائی جو ان افغان عورتوں سے متعلق تھی جو گاڑیاں اور ٹرک چلاتی ہیں۔ اس فلم کو مختلف فلم میلوں میں 20 سے زیادہ ایوارڈ ملے۔

2019 میں اس کی فلم حوا، مریم اور عائشہ کو وینس فلم ایوارڈ میں دکھایا گیا اور اسے اپنے کام پر بہت داد ملی۔ صحرا کریمی 1983میں تہران میں پیدا ہوئی۔ وہ افغانستان سے واپس آئی تو اس نے فلم کی دنیا میں قدم رکھا اور سرکاری طور پر افغان فلم اکیڈمی کی ڈائریکٹر بن گئی۔ یہ فلم ان تین عورتوں کا قصہ ہے جو کابل میں رہتی ہیں اور امید سے ہیں۔

یہ فلم دری (فارسی) میں بنائی گئی اور ان ملکوں میں بہت مقبول ہوئی جہاں دری بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس نے کابل سے رخصت کی فلم اپنے انسٹا گرام پر ڈالی ہے۔ ہانپتی اور کانپتی ہوئی۔ جان کا خوف اس کی سانسوں میں ہے۔ اس وقت وہ ساری دنیا میں وائرل ہورہی ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس نے ہم سب کو دہلا دیا ہے۔ ایسے میں باچا خان، خان عبدالغفار خان کا خیال آیا۔ کشور ناہید نے اس جری اور جی دار شخص پر کیا نظم لکھی ہے جو افغانستان کا سردار تھا۔

تم نے جلال آباد میں دفن ہونے کی وصیت کی

ہم تمہاری حریت فکر اور قربانیوں کو بھولے نہیں

ہم نے تمہارے نام پہ نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لیے

یونیورسٹی قائم کی

میرے چھوٹے چھوٹے دیہات کے

لڑکے، لڑکیاں کھیتوں سے گزر کر

تمہارے نام پہ پڑھنے کے لیے آتے تھے

ان کے گھروں میں گوشت نہیں

پیلیوں میں اگی ہوئی سبزی پکتی تھی

کتابیں ہاتھوں میں لیے وہ خود کو

بادشاہ سمجھتے تھے

میری نیک دل بیٹیاں

اجازت کی دہلیز پار کر کے پڑھنے آتی تھیں

باچا خان!

تمہاری روح ابھی تمہارے پٹھانوں میں زندہ ہے

تمہاری زمین کے بیٹوں نے

تمہارے نام پہ بنی یونیورسٹی پہ

حملہ آور دہشت گردوں کو بھون کر رکھ دیا تھا

باچا خان!

میرے چوکیداروں کے اندر بھی تمہاری روح تھی

انھوں نے تمہارے نام کی عزت رکھی

باچا خان!

ہمارے گرد پھیلی ہوئی چنگیزیت کو راکھ کر دے

ہماری ہمت دشوار پسند کو سلامت رکھ

وہ جو مذہب کے نام پہ

گردنیں کاٹتے ہیں

ان زوال پرستوں کی ابلیسیت کو

فنا کر دے

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla