کشور ناہید؛ وہ حوصلہ ہے جسے زندہ رہنا چاہیے
کشور ناہید سے یاد اللہ بہت پرانی ہے۔ 70ء کی دہائی میں ہماری ملاقات ہوئی۔ اس وقت ہم ایک دوسرے سے سرسری ملے، پھر رفتہ رفتہ ہمارے درمیان ایک تعلق خاطر قائم ہوا۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ یہ تعلق جنرل ضیاء الحق کے دور کی دم گھونٹ دینے والی فضا میں قائم ہوا۔ وہ عجب زمانے تھے جب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سب ہی لوگ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کی ڈور میں بندھ گئے۔
کشور نظمیں لکھ رہی تھیں، میں دار پر کھینچے جانے والوں اور زنداں میں ذہنی اور جسمانی تشدد سے گزرنے والوں کا احوال لکھ رہی تھی۔ شاید یہی وہ غیض و غضب تھا جس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔
شمیم کاظمی، شین فرخ اور کشور ناہید ایک دوسرے کی سہیلیاں تھیں۔ اتفاق سے ان دونوں سے میری بھی دوستی تھی۔ آپ مختلف شہروں میں رہتے ہوں تو پھر دوستیاں اسی طرح سرسبز ہوتی ہیں۔ 2019 میں مجھے کشور ناہید کا شعری مجموعہ "شیریں سخنی سے پرے" ملا۔ ارادہ اس پر جم کر لکھنے کا تھا لیکن بات ٹلتی رہی۔ کچھ لکھا تو وہ بہت احتیاط سے رکھ دیا اور میں کچھ سنبھال کر رکھ دوں تو وہ چیز کھو جاتی ہے۔ درمیان میں ملاقاتیں ہوئیں اور دل مطمئن رہا کہ کشور پر کچھ لکھ لیا ہے اور کچھ لکھنا باقی ہے۔
چند دنوں پہلے کشور ناہید کے دوستوں نے اس کی 80 ویں سالگرہ منائی ہے، جس روز صبح سویرے کاغذ قلم لے کر کشور ناہید پر لکھنے بیٹھ رہی تھی کہ فینی نے اطلاع دی کہ شین خالہ چلی گئیں۔ اس کے بعد یہ کہاں ممکن تھا کہ کشور پر کچھ لکھا جاتا۔ اسی دوران ان کے کالموں کا مجموعہ "بند دروازوں کی چیخیں " بھی آچکا تھا۔
اب میں کشور ناہید کی نظموں اور کالموں کے درمیان ہوں۔ انھوں نے دونوں کتابوں پر بہت محبت سے لکھ کر بھیجا ہے۔ اتفاق سے ان ہی دنوں میں نے لیپ ٹاپ پران پرانی محفلوں کی جھلکیاں دیکھیں جن میں کشور ناہید ہیں، یوسف کامران ہیں اور بہت سے ملنے والے ہیں جو فریدہ خانم، اقبال بانو اور ٹینا ثانی کی گائیکی کا لطف لے رہے ہیں۔
آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کررہے ہیں۔ دل اداس ہوگیا۔ کیا زمانے تھے، کیا فسانے تھے۔ درمیان میں انھوں نے "بری عورت کی کتھا"لکھی۔ جس میں ایک عورت کی کتھا ضرور تھی لیکن لوگ بری عورت کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ جب سے انھوں نے کالم لکھنے شروع کیے ان کی شہرت کا دائرہ اور وسیع ہوگیا ہے۔
اپنے خوش حال بیٹوں کے اصرار پر کہ اماں ہمارے پاس آکر رہیں تو وہ انکار کردیتی ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ تمہیں کیا ہوا کہ یہاں پاکستان میں اکیلی رہنے اور لکھنے پڑھنے کی محبت کو اپنی آبرو بنایا۔ وہ لکھتی ہیں کہ " بڑھاپے میں غیرممالک جانے پہ مجھے شان الحق حقی یاد آئے۔ قرآن شریف کی تشریح آخری دنوں میں کر رہے تھے۔
بلاوا آیا۔ چلے گئے، جس بیٹے کے پاس تھے اس نے کفن دفن کا انتظام کیا۔ یہی حال حمایت علی شاعر کا ہوا۔ 93سال کی عمر میں کچھ بھی یاد نہ تھا، چلے گئے۔ جو بیٹا موجود تھا، اس نے کفن دفن کیا اہتمام کیا۔ دُور کیوں جائیں۔ 80سال کی عمر میں جلال الدین احمد کراچی میں خاموشی سے چلے گئے، یاد کرنے والوں نے زوم کے ذریعہ دنیا بھر میں یاد کیا۔ پاکستانیوں کو ایسے عالم شخص کی خبر بھی نہ ہوئی۔
یہ لوگ باہر بچوں کے پاس کیوں گئے کہ روٹی روزی کا کوئی اہتمام نہ تھا۔ ہمارے آج کے مشیروں کی طرح کروڑوں نہیں کمائے۔ وہ کروڑوں کمانے والے، اب پاکستان میں جو بچا کھچا ہے اسے سمیٹنے ا ٓئے ہیں۔ میں کیوں ملک سے باہر نہیں گئی، مجھے شعر لکھنا اسی زمین نے سکھایا، اسی نے مجھے شاخسار بنایا۔ میرا دل کسی بھی ملک میں جانے کو نہیں کرتا۔ دوچار دن تو ٹھیک ہے مگر چاہے کسی کا جزیرہ ہو کہ محل کہ گھر، مجھے دیسی روٹی اور دال ہی پسند ہے۔"
ان سطروں میں انھوں نے ہمارے کئی ادیبوں کا حال لکھا ہے۔ کاش ان ناموں میں انھیں اختر جمال ایسی کمال افسانہ نگار بھی یاد آجاتیں جو پوتی کی محبت میں در بہ در ہوئیں۔
کشور ناہید نے جب شاعری شروع کی اور جب نثر میں لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ان کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ "ہم گنہگار عورتیں، سیہون شرف درگاہ پر شیما کرمانیِ، اور "اللہ میاں سے شکوہ کیسے کروں " لکھیں گی۔ اسی طرح انھوں نے نثر میں "بند دروازوں کی چیخیں " لکھیں اور اس میں بہت کچھ لکھا۔"بجھے چراغوں کا نوحہ" پڑھیے اس میں ہماری بے بدل اداکارہ صبیحہ خانم اور نیر سلطانہ ہیں، ریشماں اور نورجہاں ہیں۔ بڑے نام جن کے بڑے کام تھے، وہ کس طرح اندھیروں میں ڈوب گئے۔
کشور میرے لیے اور میں کشور کے لیے دعا کرتے ہیں کہ کام کرتے ہوئے اور کسی پر بوجھ بنے بغیر جائیں، میں اگر شعر کہتی ہوتی تو ان کے لیے ایک نظم لکھتی لیکن میں نظم نہیں لکھتی اس لیے نجیبہ عارف کی نظم سے اس کالم کا اختتام کرتی ہوں۔
کشور ناہید ایک گھنا پیڑ ہے
جو سرراہ خود بخود، اپنے زور پر اگ آتا ہے
اور اپنا سایہ رستہ پر پھیلا دیتا ہے
اس کی چھاؤں میں تھکے ہارے مسافر آرام کرتے ہیں
اس کی ٹہنیوں سے پرندوں کے گھونسلے لٹکتے ہیں
جن میں ا ن کے انڈے اور بچے محفوظ رہتے ہیں
اس کے پتوں سے ہوا گزرتی ہے تو نغمے گونجتے ہیں
اس کی شاخیں خاموشی میں سرسراتی ہیں
اور سرگوشیوں میں کہتی ہیں
دیکھو، ہم نے چاندکو تھام لیا ہے
تم چاہو تو چاندنی میں دور تک جاسکتے ہو
اس کا تنا مٹی میں گڑا ہے
اس کی جڑیں دھرتی سے پھوٹی ہیں
ان گہرے پانیوں تک جاتی ہیں
کشور ناہید کی کوئی بیٹی نہیں
لیکن اسے بیٹی کی ماں بننا آتا ہے
کشور ناہید اکیلی ہے
لیکن ساتھ دینا جانتی ہے
کشور ناہید عورت ہے
اور سچ بول سکتی ہے
زہر پی سکتی ہے
دار پہ سج سکتی ہے
کشور ناہید وہ حوصلہ ہے جسے زندہ رہنا چاہیے