انحراف اور انکار کی پرانی روایت
یہ ایک ہوش ربا حقیقت ہے کہ انسان نے گزشتہ دس ہزار برسوں میں جو ارتقائی ترقی کی، اس کے بعد بیسویں صدی کے سو برسوں کے دوران جو زقندیں لگائیں وہ ناقابل یقین ہے۔ بیسویں صدی کی بساط لپٹ چکی۔
اکیسویں صدی کے بھی بیس برس گزر چکے، ان برسوں کے دوران انسان نے ارتقائی عمل کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف ہمارا سماج رجعت پرستی، تنگ نظری اور عدم رواداری کے نرغے میں ہے۔ ایک ایسی صورت حال میں ہمیں انحراف و انکار اور جرأت اظہار کی عظیم انسانی روایت کو جاننے اور اسے ایک وسیع اور عالمی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے وہ بھی انسانی دماغ کا کرشمہ ہے۔ اس لیے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں رہنے والوں کا بایاں زیادہ فعال رہا چنانچہ ان کی تہذیب بھرپور انداز سے لفظیاتی، سائنسی اور منطقی ہے۔ جب کہ مشرق میں رہنے والوں کے دائیں دماغ کی فعالیت زیادہ رہی جس کی بناء پر مشرق میں نزاکت و نفاست سریت آمیز اور باطنی مزاج رکھنے والی تہذیب کا جنم ہوا۔
انحراف وانکار کا رویہ چونکہ منطقی بنیادوں پر ریاضیاتی اور تجزیاتی انداز فکر کے سبب وجود میں آتا ہے اور اس طور پر سوچنے کی ذمے داری انسانی کاسہ سر میں سانس لینے والے دماغ کے بائیں حصے کی ہے۔ اسے یوں کہہ لیں کہ انحراف و انکار اور جرأت اظہار جسے عمومی طور پر ہم "بائیں بازو" کے رجحانات سے منسوب کرتے ہیں وہ واقعی بائیں کرۂ دماغ کی کار فرمائی ہے۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ مروجہ مذہبی، سیاسی یا سماجی روایات و اعتقادات سے انحراف کا پہلا مرتکب کوئی ادیب، شاعر یا پروہت نہیں بلکہ فرعون مصر، بادشاہ اخناتون 1367-1350)ق م) تھا۔ جس نے "تجسیم خداوندی" کے مروجہ نظریات و عقائد کو انتہائی جرأت کے ساتھ ٹھکرا کر تاریخ انسانی میں پہلی بار غیر ملکی غلاموں اور ماتحتوں کو عبادت کے لیے اپنی فاتح اور حکمران قوم کے دوش بہ دوش کھڑا کردیا۔ یہ وہ عظیم شخصیت تھی جس نے ماضی کے مروجہ لایعنی اور بے مغز عقائد و نظریات سے پوری جرأت رندانہ کے ساتھ کھلم کھلا بغاوت کرکے اس وقت کے سب سے بااختیار اور خوفناک مصری پروہتوں اور کاہنوں کا مذاق اڑایا۔ ایک باجبروت فرعون ہونے کے باوجود اپنے اس انحراف و انکار اور جرأت اظہار کا "صلہ" اسے یوں ملا کہ اس کی رعایا اور اس کے امراء نے اسے "قابل نفرت آدمی" اور "بے دین" کے لقب سے یاد کیا اور بہت جلد اس کی بادشاہی خاک میں مل گئی۔
بات بہت طویل نہ ہوجائے اس لیے ہم یونانی اساطیر سے یہاں صرف پرومی تھیسس کو یاد کرتے ہیں۔ پرومی تھیسس کی کہانی نے حضرت موسیٰؑ کے بعد کے زمانے میں جنم لیا۔ یاد رہے کہ تہذیب کے یہ دو مغربی اور مشرقی خطے ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔"کتاب پیدائش" یونانیوں تک نہیں پہنچی تھی۔ اسرائیلی یونانی دیومالا سے واقف نہ تھے۔ پرومی تھیس نیم دیوتا اور نیم انسان کا قصہ وجود میں آ نہیں سکتا تھا اگر یونانی تہذیب اور ادب کے پروان چڑھنے سے لگ بھگ 5 لاکھ برس پہلے ہمارے Hemoerectus اجداد نے آگ جلانا سیکھا نہ ہوتا۔ جس طرح دوآبۂ دجلہ و فرات کی تہذیب کا قدیم شہر سوسار (عیلام) وہ علاقہ ہے جہاں اب سے 6500 برس پرانے پہیے شاید دنیا کے پہلے پہیے کی باقیات ملی ہیں جسے آج تک دنیا کی بے مثال ایجاد کہا جاتا ہے۔ اسی طرح "آگ" انسان کی کمال دریافت ہے۔ آگ جسے انسان نے دریافت کیا اور پھر خود ہی اس کی پرستش کی۔
آگ انسان کے دل سے خونخوار جانوروں کا خوف نکالنے اس کے گھرکا چولہا گرم کرنے اور برفیلے علاقوں میں اس کے بدن کو راحت و آرام پہنچانے والی آگ۔ انسانی سماج اور سائنس کی ماں جسے یونانی اساطیر کے مطابق پرومی تھیس رب الارباب زیوس کی رضا کے خلاف آسمانوں سے چرا کر لایا تھا اور انسان کو دینے کے جرم میں ہزاروں سال تک زیوس کے قہرو عتاب کا نشانہ رہا تھا۔ یونانی سماج میں اساطیر کے حوالے سے مذہبی طبقے کی حاکمیت انحراف، انکار اور جرأت اظہار کی شاندار روایت اگر ہمیں پرومی تھیس کے قصے میں نظر آتی ہے تو یہ سوفوکلینر کا قلم ہے جو اینٹی گنی کے کردار کے ذریعے ریاست کی حاکمیت کے انحراف اور جرأت اظہار کی داستان 495-406 قبل مسیح کے درمیان تحریر کرتا ہے۔
کیوں نہ 399 قبل مسیح کا وہ دن یاد کیا جائے جب سقراط نے ریاست کی حاکمیت سے انحراف اور جرأت اظہار کا ایک روشن باب اپنے خون سے لکھا تھا۔ اب سے پہلے تک اساطیری قصے تھے۔ عہد نامہ عتیق کی کہانیاں تھیں۔ یونانی ڈراموں کے کردار تھے جو اپنے انحراف و انکار اور جرأت اظہار کی سزا میں پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان پابہ زنجیر کیے جاتے اور دیوتائوں کا قہر عقاب کی صورت ہزاروں برس تک ان کا کلیجہ کھاتا رہتا۔ یا وہ باغ عدن سے نکالے جاتے یا وہ کسی اندھے غار میں دھکیل دیے جاتے اور غار کا منہ بند کردیا جاتا لیکن سقراط پہلا فلسفی ہے۔ ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس نے اب سے 2400 برس پہلے زہر کے پیالے کے عوض اپنی جرأت اظہار و انکار کو خرید کیا۔ سقراط جیسی جرأت فکر رکھنے والا ہی زندگی کے آخری لمحات میں خود افروزی کے حق میں یہ دلیل دے سکتا ہے کہ:
"ہمیں اس خطرے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم عقل دشمن نہ بن جائیں، دلیل سے ایسی نفرت نہ کرنے لگیں، جیسی انسان دشمن انسانوں سے کرتے ہیں۔ بدترین بیماری جو کسی انسان کو لاحق ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دلیل سے نفرت کرنے لگے۔" (فیڈو:مکالات افلاطون)
سقراط سے 900 برس پہلے لکھے جانے والے عہد نامۂ عتیق کے اولین باب میں خداوند کا یہ اعتراف کہ "آدمی نیک و بد کی پہچان میں ہماری مانند ہوگیا" انسانی فکر وشعور کی پختگی اور انکار جرأت اظہار کے مستحکم انسانی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ انسانی فکرو شعور کی یہی بلندی اور سچ کے مقابل زندگی کو حقیر سمجھنے کا یہ رویہ ہے جس نے اسے دوپائے سے دیوزاد بنادیا۔ خاک کے پتلے کو کائنات کی وسعتوں میں پرواز کا سلیقہ سکھایا۔
جرأت فکر کی انسانی تاریخ ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں قدیم چین، ہندوستان، ایران اور دوسری زمینوں سے تعلق رکھنے والوں کے نام آتے ہیں۔ لیکن ایسے فلسفیوں، دانشوروں اور ڈرامہ نویسوں کا جو تسلسل ہمیں یونان میں نظر آتا ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔ یہ لوگ آزادی خیال کے بانی کہے جاتے ہیں اور ان کی جرأت اظہار تو کبھی کبھی دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کا ایمان تھا کہ آزادی فکرو خیال ہی انسان ترقی کی نہاد وبنیاد ہے۔ اسی لیے اس کے پھیلانے میں بھرپور جرأت دکھانی چاہیے۔ پلوٹارک نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"وہ (یونانی) سائنسی فلسفی اور ستاروں پر غوروفکر کرنے والوں کو برداشت نہیں کر پائے۔ پروٹاغورث کو اسی جرم میں ملک بدر کیا گیا۔ ایکسا غورث کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ سقراط جس کا سائنسی فلسفے سے درحقیقت کوئی تعلق نہیں تھا اپنی زندگی اسی فلسفیانہ غورو فکر کی وجہ سے گنوا بیٹھا۔
انحراف و انکار اور جرأت اظہار میں رومی یونانیوں سے پیچھے نہیں رہتے اور ان میں ہمیں لکریشس نظر آتا ہے۔ جو On the Nature of the world نامی طویل فلسفیانہ نظم لکھتا ہے۔ جس میں ان تمام جرائم کا تذکرہ کرتا ہے، انسان سے جن کا ارتکاب عقائد نے کرایا ہے۔ وہ منکرین کے رہنما کے طور پر جنت کی دیواروں تک پہنچا ہے۔ لکریشس کی یہ نظم آج تک انکار و انحراف اور جرأت اظہار کے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ رومی نژاد اوویڈ ہے جو اپنی زندگی میں اپنی جرأت اظہار سے شہنشاہ آگسٹس کو اس قدر برافروختہ کرتا ہے کہ جلاوطن کیا جاتا ہے اور زندگی کے آخری آٹھ برس گزار کر غریب الوطنی کے عالم میں ختم ہوتا ہے۔
آج زمانہ ہمیں اکیسویں صدی میں لے گیا ہے۔ لیکن ابھی تک دنیا کے بہت سے ملکوں اور علاقوں میں رجعت پسندی اور تنگ نظری کی حکومت ہے۔ تب ہی کہیں پولیو کے قطرے پلانے والیاں جان سے مار دی جاتی ہیں اور کہیں کووڈ 19 کے انجکشنوں کی شدید مزاحمت ہوتی ہے۔