ایڈورڈ سعید اور مسئلہ فلسطین (3)
ہماری آج کی نسل 70ء کی دہائی سے واقف نہیں ہے جب مغرب کی اقتصادیات کے بدن میں صرف تیل لہو کی طرح گردش کرتا تھا۔ ہم اگر فلسطین، عرب اور اسلام کے بارے میں ایڈورڈ سعید کا نقطۂ نظر سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اس کی کتابوں The Question of Palestine، The Politics of Dispossession، Peace & Its Discontents، I Saw Covering Islam اور Ramallahکے علاوہ فلسطینیوں کی زندگی کے بارے میں اس کی باتصویر کتاب After The Last Sky سے گزرنا ہی ہوگا۔
Covering Islam کے بارے میں ایڈورڈ سعید کا کہنا تھا کہ اس نے اسلامی دنیا، عرب اقوام اور مشرق کے مغرب، فرانس، برطانیہ اور بہ طور خاص ریاست ہائے متحدہ امریکا کے درمیان جدید تعلق کو دریافت کرنے کی جس کوشش کا آغاز Orientalism سے کیا تھا، اس سلسلے کی دوسری کتاب The Question of Palestine اور تیسری کتاب Covering Islam ہے۔
یہ کتاب 1981میں شایع ہوئی جب کہ Orientalism، 1978میں شایع ہوئی تھی۔ ہم اس بات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایڈورڈ سعید نے مغرب اور اسلام کے درمیان جس کشاکش کو دیکھا، سمجھا اور تجزیہ کیا، انگریزوں اور صیہونیوں کی افہام و تفہیم کے نتیجے میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتے دیکھا اور پھر 1979 میں شہنشاہ ایران کے زوال اور انقلاب ایران کے عروج کا مشاہدہ کیا، ان تمام معاملات کو ایک منصف مزاج دانشور کے طور پر رقم کیا۔
اس کتاب کے بارے میں فرانسس فٹز جیرلڈ نے لکھا کہ:"اس کتاب کا مطالعہ ہر غیر ملکی نامہ نگار اور غیر ملکی خبروں کے ہر مدیر کے لیے لازم ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی اس کتاب میں یہ دکھایا ہے کہ امریکی پریس نے اپنے لیے ایک فسانہ، ایجاد کیا ہے اور اس کا نام اسلام، رکھ دیا ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہے جب 1950کی دہائی میں کمیونزم، کی امریکی تصویر پیش کی جاتی تھی۔"
70ء کی دہائی میں جب تیل برآمد کرنے والے عرب ملکوں نے مغرب کے کروڑوں شہریوں کو موم بتیاں روشن کرنے، پیدل چلنے، سائیکل پر سفر کرنے اور سردی سے ٹھنڈے گھروں میں ٹھٹھرتے ہوئے سونے پر مجبور کیا تو اس صورتحال کو شرقِ اوسط کے عرب ملکوں اور امریکا یا برطانیہ کے مفادات کی جنگ کے بجائے، اسلام کے ابھار، سے تعبیر کیا گیا۔ یہ وہ غیر عالمانہ اور غیر منصفانہ رویہ تھا جس پر ایڈورڈ سعید کو بے حد اعتراض تھا۔
یہ وہی زمانہ ہے جب ایران میں ایک اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا، پاکستان میں ایک فوجی جرنیل، ایک منتخب وزیراعظم کو معزول کرکے اقتدار پر قابض ہوچکا تھا پھر اس منتخب وزیراعظم کو سولی چڑھا کراس نے پاکستان میں شریعت، نافذ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ 1970کی دہائی میں تیل کے بحران اور بعض مسلمان ملکوں میں اسلامی نعروں کی مقبولیت نے مغرب کو اور بہ طور خاص امریکی اخبارات اور ٹیلی وژن کو اپنے تعصبات اور نسلی اور تہذیبی نفرتوں کے اظہار کے لیے اسلام، کو ایک ٹھوس شے کے طور پر پیش کرنے کا بہانہ دے دیا۔
ایڈورڈ سعید کا کہنا تھا کہ جس وقت مغربی میڈیا اسلام کے متشددانہ پہلو، کو اپنے حسابوں بہت متوازن انداز میں پیش کررہا تھا، عین اسی وقت عیسائی اور یہودی دنیا میں مذہب کا احیا ہورہا تھا لیکن اس بارے میں مغربی میڈیا خاموش رہا اور بعض معاملات کی پردہ داری کی گئی۔
ایڈورڈ سعید کی یہ کتاب ہمیں ایک ناقابلِ یقین حیرانی سے دوچار کردیتی ہے۔ اس کتاب کا لکھنے والا جدّی پشتی عیسائی تھا لیکن اس نے اپنی اس کتاب میں اسلام، کا جس طرح دفاع کیا ہے اسے پڑھ کر ہی یہ اندازہ ہوتاہے کہ اگر آپ دل کی گہرائیوں سے سیکولرازم پر ایمان رکھتے ہوں، تب ہی آپ کے اندر انصاف کرنے والی وہ تیسری آنکھ کھلتی ہے جو آپ کے پیدائشی اور خاندانی تعصبات سے بالاتر ہوکر دوسروں کو دیکھ سکتی ہے، سمجھ سکتی ہے اور آپ کے اندر وہ طاقت رکھ سکتی ہے جس سے آپ اپنے زمانے کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کا دفاع کرنے کا حوصلہ رکھیں۔
اپنی اس کتاب میں اُس نے مغربی میڈیا کے اس رویے پر بہت سختی سے اور بلا کم و کاست حرف زنی کی جو اس نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اختیار کیا۔ ایڈورڈ سعید کا کہنا تھا کہ مغربی حکومتیں مسلمان ملکوں پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کو من حیث القوم عیاش، متشدد، مذہبی جنونی اور فہم و فراست سے عاری ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے پہلے اپنے مستشرقین کو استعمال کیا جس کا تفصیل سے جائزہ ایڈورڈ نے اپنی کتاب Orientalism میں لیا ہے اور اب ان کے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل اس کام کو کررہے ہیں۔ اس نے Covering Islam میں حوالوں سے یہ بھی لکھا ہے کہ "واشنگٹن پوسٹ" اور بعض دوسرے موقر امریکی اخبارات سی آئی اے کی تیار کردہ رپورٹیں اور مضامین شایع کرتے ہیں تاکہ عرب اور مسلمان ملکوں کی اور اسلام کی غلط تصویر اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں۔
70ء کی دہائی کے بالکل آخری دنوں میں ایک فلم Death of the Princessکو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی اور پاکستان میں بھی پڑھے لکھے طبقے میں یہ فلم بڑے پیمانے پر دیکھی گئی تھی۔ Covering Islam میں ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ 1978میں جب سعودی عرب نے کیمپ ڈیوڈ کے امن عمل میں حصہ نہیں لیا تو امریکی اخبارات میں ایسے بہت سے مضامین شایع ہوئے جن میں سعودی عرب کی متعدد خامیوں اور کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو بظاہر مستند نظر آنے والے غلط اعداد و شمار اور گمراہ کن اطلاعات سے بھرے ہوئے تھے۔
ایڈورڈ سعید نے Death of a Princess کو کیمپ ڈیوڈ امن عمل میں سعودی عرب کی عدم شرکت کا ایک ردعمل سمجھتا تھا۔ اس بارے میں لکھتے ہوئے وہ جولائی 1990 کا حوالہ دیتا ہے جب یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ سعودی حکومت کے خلاف امریکی اخبارات میں بعض مضامین سی آئی اے نے شایع کرائے تھے۔
ایڈورڈ سعید نے اس کتاب میں لکھا کہ مغربی پریس جب مسلمان عورت کے حوالے سے اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا اسلامی سزاؤں پر حرف گیری کرتا ہے تو اس وقت مغربی پریس کو وہ یہودی ربّی یاد نہیں آتے جو یہودی عورت کے بارے میں بھی ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں یا وہ ان لبنانی پادریوں کو بھی بھول جاتا ہے جو اپنے نقطۂ نظر کے اعتبار سے عورتوں کے خون کے پیاسے ہیں اور قرون وسطیٰ کے نظریات رکھتے ہیں۔
یہودی ربّیوں اور لبنانی پادریوں پر ایڈورڈ سعید کی اس تنقید سے اتفاق کرتے ہوئے میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ایڈورڈ سعید نے مسلم دنیا میں مسلمان عورت کے ساتھ امتیازی سلوک اور بہ طور خاص سعودی عرب میں عورت کے ساتھ برتاؤ کو انصاف کی نظر سے نہیں دیکھا۔ یہودی رّبی یا لبنانی پادری عورت کو کتنا ہی کم تر جانیں لیکن وہ اپنے خیالات کا سماج میں عملی طور پر نفاذ نہیں کرسکے۔ ان دونوں جگہوں کی عورتیں وہی حقوق اور وہی ذمے داریاں رکھتی ہیں جو ان کے مردوں کے حصے میں آئی ہیں۔
مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ ایڈورڈ سعید نے مسلم سماج اور ریاستوں کی اس قدر بڑھ چڑھ کر حمایت کی کہ مسلمان عورتوں کے ساتھ مسلم ممالک کے عمومی رویوں اور ان ملکوں میں عورتوں کے حوالے سے امتیازی قوانین کے معاملات کو نظر انداز کردیا۔ اس نے مسلمان عورتوں کے ان عذابوں پر غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جن سے وہ سعودی عرب، مراکش، کویت اور ضیاء الحق کے زمانے سے آج تک پاکستان میں دوچار ہیں۔ پاکستانی عورت جس کے بعض حقوق ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں سلب کیے گئے، وہ آج تک بحال نہیں ہوسکے۔
عورتوں سے متعلق امتیازی قوانین نے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے۔ یہ عورتیں جن میں سے بیشتر دیہی علاقوں کے غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، جیلوں میں سڑ رہی ہیں، گھروں میں کاری قرار دے کر ماری جارہی ہیں اور ہر ہر قدم پر کچلی جارہی ہیں۔ ایڈورڈ سعید ایسے دانشور سے اس بات کی توقع تھی کہ وہ مسلمان دنیا کی نصف آبادی پر گزرنے والے ستم کو محسوس کرے گا اور اپنی تحریروں میں اسے بھی اجاگر کرے گا لیکن افسوس کہ مسلمانوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے اس نے مسلمان عورتوں کو یکسر فراموش کردیا۔
ایڈورڈ سعید امریکی شہری تھا اور فلسطین سے ہزاروں میل کی دوری پر بیٹھا ہوا تھا، اس کے باوجود وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اتنا ہی فعال رہا جیسے وہیں موجود ہو۔ اوپر بھی یہ ذکر آیا ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ وہ یاسر عرفات سے قلبی تعلق رکھتا تھا، اس نے ان کی تقریروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔
1977 میں وہ Palestinian National Council کا رکن بنا۔ 1988 میں الجزائر کانفرنس میں منظور ہونے والے پی ایل او ریزولوشن کے لیے اس نے بہت محنت کی اور پس پردہ رہتے ہوئے بہت سے یہودیوں اور اسرائیلیوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت ہوسکے اور دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرلیں۔ الجزائر میں ہونے والی اسی کانفرنس میں ایڈورڈ سعید نے دو ریاستوں کا نظریہ پیش کیا تھا۔ (جاری ہے)