اگست کے مہینے میں (آخری حصہ)
"ستمبر کا چاند" کہنے کو ایک رپور تاژ ہے لیکن اسے اول تا آخر پڑھ جائیے، اس میں ایک دانشور اپنی چھب دکھا رہا ہے۔ اس وقت تک ان کا معرکہ آرا ناول "آگ کا دریا" شایع نہیں ہوا تھا اور لوگ ان کے افسانوں اور ناولوں کے حوالے سے انھیں پہچانتے تھے۔
اس رپورتاژ میں انھوں نے جاپان کی سرزمین میں دنیا کے درجنوں اہم ادیبوں کے درمیان رہ کر جنگ، امن اور جمہوریت کی باتیں کی اور سنی ہیں۔ مشرقی یورپ کے بہت سے ادیب ہیں۔ انھیں جلاوطن ادیب کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ کن عذابوں میں گرفتار ہیں۔ گھر سے بے گھر، دربدر ہوئے، اپنے ملک میں جان کا خطرہ، مغرب کے ملکوں میں رہتے ہیں، روزی روٹی کا بندوبست ہے لیکن دل اپنے زمین و آسماں کو ترستا ہے۔ آزادی عنقا کا پر ہے جس کا ذکر بے دریغ کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتی ہیں کہ آزادی کیا ہے۔ وہ آندرے شازوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ دوسری اور پہلی جنگ عظیم کی قبریں ہمارا مشترک ماضی ہیں اور ان کے سامنے جھکے ہوئے ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔
اس کانفرنس میں برٹش کونسل ہال کی ایک شبینہ محفل میں وہ شعری داستانوں کے ساتھ اپنے خاندان (ہندوستان پاکستان ) کے دکھ سکھ کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ پھر وہ سوچتی ہیں کہ مجھے کیا حق ہے کہ میں باہر کے ملکوں میں آکر لمبے لمبے سفید جھوٹ بولوں۔ کلچر، امن اور زندگی کی اعلیٰ اقدار، سچائی اور ایمانداری پر تقریریں کروں۔ اس کام کے لیے سفارت خانے اور امیروں، وزیروں کے وفد کیا کافی نہیں؟ کلچر اور زندگی کی اعلیٰ ابدی اقدار … میرے پس منظر میں نہ صرف روح کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے دکھ ہیں۔ جھوٹ اور ریاکاری کی فصلیں میرے چاروں اور کھڑی ہیں۔
اس کانفرنس میں ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب قرۃ العین حیدر کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے، تب وہ کہتی ہیں۔
"برصغیر ہندو پاکستان کی ساری زبانوں میں انسان پرستی کی زبردست بیک گراؤنڈ موجود ہے۔ پچھلی صدیوں میں شمالی ہند، بنگال، پنجاب، سندھ، مہاراشٹر اور جنوبی ہند کے شاعروں، صوفیوں اور سنتوں نے اپنی ہیومنزم کی بنا پر اعلیٰ ترین ادب کی تخلیق کی۔ لہٰذا یہ خیال بھی غلط ہے کہ مشرق انسان پرستی کے خیالات سے نابلد تھا۔ یورپ کی حالیہ خونریز جنگوں کے زمانے میں وہاں کے بیشتر فنکار انسان پرستی وغیرہ کو بھول چکے تھے، لیکن ہمارے ادیبوں نے زبردست ترین کرائسس کے موقع پر بھی توازن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آج سے دس سال قبل تقسیم ہند کے موقع پر جب کہ سارا برصغیر آگ و خون اور نفرت کے سمندر میں ڈوب چکا تھا، اس وقت بھی اردو ادیبوں نے انسان پرستی کی روایت کو زندہ رکھا اور آج بھی ان تاریک سیاسی حالات کے باوجود پاکستان کے ادیبوں کی تخلیقات ہندوستان میں شایع ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے اردو ادیب پاکستان میں مقبول ہیں۔ ان کا فن جغرافیائی، تاریخی اور قومی خصوصیات سے بالاتر ہے۔"
اس رپورتاژ کے اختتام پر وہ بے ساختہ لکھتی ہیں :
ہر سفر کے بعد گھر موجود ہونا چاہیے
اور گھر تباہ نہ ہونا چاہیے
قرۃ العین نے پال تبوری کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔ 1958ء کی یہ عالمی کانفرنس اس وقت ہوئی جب روسی ٹینک ہنگری کی سڑکوں کو روند چکے تھے اس عالم میں پال تبوری نے کہا "میں ایک ایسے ملک میں پیدا ہوا جہاں مشرق و مغرب میں سے ایک کا انتخاب ایک ہزار سال سے ایک بنیادی مسئلہ رہا تھا۔ ہنگری کو ایک ہزار سال تک اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ آیا وہ مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل ہے، مشرق کے خلاف ایک فصیل ہے یا دونوں کے لیے اسے ایک پھاٹک کا کام دینا ہے۔
ایک مگیار سے اگر یہ کہا جائے کہ اس کا ملک بلقان کا ایک حصہ ہے تو وہ لڑ مرے گا، ہمارے لکھنے والوں نے پیرس، فلورنس اور میونخ کو اپنا روحانی وطن سمجھا اور اپنی قوم کی مشرقی ذہنیت سے بے حد نالاں رہے۔ ان کے نزدیک مشرقی ذہنیت کاہلی، بے ایمانی، ناکارہ پن اور جہالت کے مترادف تھی۔
ان لکھنے والوں کا یہ غم و غصہ بہت حد تک حق بجانب تھا۔ ہم نے باز نطیم سے تھوڑا بہت حاصل کیا مگر ہنگری کا صرف ایک بادشاہ صلیبی جنگوں میں لڑنے کے لیے گیا تھا اور وہاں سے مایوسی کے علاوہ اور کچھ ساتھ نہ لایا، ہمارے لیے مشرق صرف تباہی کا منبع تھا۔ تاتاریوں کے حملے اور قتل عام، ترکوں کا تسلط۔ ہم ڈیڑھ سو سال تک عثمانیوں کے غلام رہے اور اس عرصے میں ہماری تہذیب بالکل برباد ہوگئی، ہمارے نشاۃ ثانیہ کو دوسوسال تک انتظار کرنا پڑا۔ ترک تسلط کے دوران میں ان کی کاہل اور ظالمانہ حکومت اور آرٹ اور لٹریچر کی طرف سے ان کی مکمل بے اعتنائی نے ہمارے اندر غیر ملکی اقتدار کا مقابلہ کرنے کی طاقت بھی سلب کردی۔ ہنگری کی تازہ صورتحال کی جڑیں دراصل اس وقت میں پہنچتی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ہنگرین قوم کے دل میں مشرق کے لیے عجیب قسم کی کشش جاگزیں رہی۔ ساری اقوام اپنی نوجوانی کے عہد کا فردوس گمشدہ تلاش کرتی رہتی ہیں۔ اپنے باغ عدن کے خواب دیکھتی ہیں۔ مگیاروسط ایشیا سے آئے تھے۔ مدتوں ہمارے بہت سے ہم قوم اپنے ایشیائی رشتہ داروں کی تلاش میں سرگرداں چین، تبت، افغانستان اور ایران میں مارے مارے پھرے اور اب تو پچھلے بارہ سو سال سے ہنگری کے کلچر کا رخ جبری طور پر مشرق کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔
مشرق کا خوف ہمیں اپنے پرانے عوامی ادب میں جابجا ملتا ہے۔ کسان گیت نگار، بھنورے سے کہتا ہے، اس سے قبل کہ ترک آکر اسے مسل ڈالیں، اسے یہاں سے اڑ جانا چاہیے۔ اکثر لوک گیتوں مین ان ہنگرین لڑکیوں کی فریاد ہے جنھیں ترکوں نے اغوا کیا یا مار ڈالا۔ ڈھائی سو سال تک ترکوں کے خلاف جنگ نے کوچہ گرد گویوں کے گیتوں میں رنگ بھرا۔ سولہویں صدی کے شاعر نے کہا :
ترک کا عقیدہ ہے
کہ کسی عیسائی کو وہ دھوکا دے کر اغوا کرسکے
تو صلے میں اسے جنت ملے گی
اس طویل اذیت ناک جدوجہد کے بعد ہنگرین اور ترکوں نے ایک دوسرے کی عزت کرکے ایک ساتھ رہنا سیکھا۔ سترہویں صدی کے آخر میں ہنگری میں ترکی کے لیے گہری ہمدردی پیدا ہوچکی تھی اور بہت سے ہنگرین وطن پرستوں کے لیے جو اپنے زیادہ خطرناک دشمن یعنی ہیپس برگ تسلط سے لڑرہے تھے، ترکی اکثرکی جائے پناہ ثابت ہوا۔
ان کا رپورتاژ تاریخی حوالوں سے بھرا ہوا ہے۔ کہتی ہیں تاریخی حوالوں کا ایک سمندر ہے جو ہر طرف ٹھاٹھیں ماررہا ہے اور اس میں ہم سب تیرتے چلے جاتے ہیں۔ اگست کے مہینے میں وہ خود رخصت ہوئیں اور ہمارے لیے "ستمبر کا چاند" چھوڑ گئیں۔ اسے پڑھیے اور پھر آج کی سیاسی بوالعجبیوں کو دیکھیے اور انھیں دادیجیے کہ ایک افسانہ نگار اور ناول نگار ہونے کے ساتھ ہی وہ کیسی کمال دانشور تھیں۔ ان کا ذکر میں اگست کے مہینے میں کرنا چاہتی تھی لیکن یہ ذکر ستمبر کے ابتدائی دنوں میں ہو رہا ہے، اس کے لیے اُن کی روح اور اُن کے چاہنے والوں سے معذرت۔