Friday, 15 November 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Anay Walay Zaroor Dekhen Ge

Anay Walay Zaroor Dekhen Ge

آنے والے ضرور دیکھیں گے…!

ابھی کچھ دنوں پہلے تک دنیا بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی اور دوسرے ملکوں پر فوج کشی کی صورتحال سے سہمی ہوئی تھی اور اب کورونا کی ہلاکتوں نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک نظر نہ آنے والا جرثومہ دنیا بھر میں انسانوں کو ہلاک کر رہا ہے۔

ایسی کیفیت میں بھی ہم یہ بات کس طرح بھول سکتے ہیں کہ انسان اس وقت بھی کسی نہ کسی بہانے انسانوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ ایک ایسی فضا میں جہاں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا میں نہتے شہریوں کے قاتلوں کی اکثریت ہو گئی ہے۔ وہاں زندگی گزارنا اور اپنی اگلی نسلوں کے مستقبل کا تصورکرنا ایک اذیت ناک صورتحال ہے۔

یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا واقعی دنیا میں ہر طرف دہشت گرد اور قاتل گھوم رہے ہیں؟ کیا امن پسند لوگ اور انسانی زندگی کا احترام کرنے والے واقعی اب اقلیت میں ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ انسانی فطرت میں قتل و غارت شامل ہے؟ کیا ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں کو قتل کیوں کر رہے ہیں؟

ایک طرف یہ سوالات ہیں، دوسری طرف علم سیاسیات اور فلسفے سے تعلق رکھنے والے بعض ماہرین ہیں جو اس بات سے قطعاً اختلاف کرتے ہیں۔ مختلف اقوام اور تہذیبوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین سیاسیات، فلسفی اور تاریخ داں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیشتر انسان قتل نہیں کرتے۔ وہ تمام انسان جو اس وقت زندہ ہیں اور ہم سے پہلے گزرنے والے بیشتر انسانوں کی ایک بہت چھوٹی سے اقلیت قاتل رہی ہے۔

ہم کسی سماج میں ہونے والے قتل کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں یا جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر انسانوں کو قتل پر آمادہ سمجھنا یا یہ فرض کر لینا کہ سب کے سب جنگ میں ذوق شوق سے شرکت کرنا چاہتے ہیں، ایک غلط مفروضہ ہے۔

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فوجی عجائب خانوں یا علم البشریات کے کسی بھی میوزیم سے اس بات کا ثبوت مشکل سے ملے گا کہ کسی بھی زمانے میں دنیا کی نصف آبادی یعنی عورتیں کبھی بھی لڑاکا یا جنگجو رہی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بہت سی عورتوں نے قتل کیے ہیں، یہ بھی درست ہے کہ بعض سماج ایسے رہے ہیں جن میں عورتوں حتیٰ کہ بچوں نے بھی شکست خوردہ دشمنوں پر تشدد کیا ہے۔ عراق میں ابوغریب کے جیل خانے میں ایک قیدی کی گردن میں پٹہ ڈال کر اس پر تشدد کرنے والی لڑکی کو بھلا ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ بہت سی جدید افواج میں قتل و غارت کے لیے خواتین کی خدمات حاصل کی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں آج تک خواتین کی غالب اکثریت قاتل یا جنگجو نہیں رہی ہے۔ اسی طرح ہم جب مردوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی بھی ایک نہایت قلیل تعداد جنگ میں حصہ لیتی ہے۔

جنگ میں حصہ لینے والے ان مردوں میں سے بھی بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو براہ راست قتل کرتے ہیں۔ دوبدو مقابلے میں دشمن کو ہلاک کرنے والے ایسا کرتے ہوئے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہوتے ہیں، اور اگر وہ اپنے سامنے آنے والے دشمن کو قتل کر دیں تو اس کے بعد ضمیرکی ملامت سہتے ہیں۔ یہی عالم ان لوگوں کا ہوتا ہے جو بمبار طیارے اُڑاتے ہیں اور ہزارہا فیٹ کی بلندی سے شہروں پر بے تحاشا بم برساتے ہیں۔

ہیروشیما اور ناگاساگی پر ایٹم بم گرانے والے پائیلٹوں کی پشیمانی کا احوال آپ کی نظر سے یقینا گزرا ہو گا۔ میدان جنگ میں دشمنوں کو ہلاک کرنے والوں کے بارے میں جو اعداد و شمار اکٹھا کیے گئے ہیں۔ ان سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو فی صد فوجی ایسے ہوتے ہیں جو کسی پشیمانی اور ضمیرکی ملامت کے بغیر دوبارہ قتل کا ارتکاب کر سکیں۔

اس بارے میں ایک فوجی افسرکا کہنا ہے کہ جنگ ایک ایسی صورت حال ہے جوکچھ ہی عرصے میں اُن 98فیصد افراد کو ذہنی طور پرکمزورکر دیتی ہے جنھوں نے جنگ میں شرکت کی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جو دوران جنگ پاگل ہوئے ان میں سے بیشتر کسی بھی جنگ میں حصہ لینے سے پہلے ہی دماغی خلل، جارحیت یا دیوانگی میں مبتلا ہو چکے تھے۔ یہ کہنا کہ انسان فطری اور پیدائشی طور پر قاتل ہوتا ہے، ایک قطعاً غلط مفروضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی تربیت کا بنیادی مقصد ایک عام فردکے اندر اس گہری مزاحمت اور ناپسندیدگی کو ختم کرنا ہوتا ہے، جو وہ قتل کے خلاف رکھتا ہے۔

ہم اس بات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان اگر فطری طور پر قتل کرنے کا رحجان رکھتا اور اگر انسانوں کی صرف نصف آبادی بھی قتل کو ایک پسندید فعل سمجھتی تو دنیا میں انسان کا وجود باقی رہنا ممکن نہ تھا۔ باپ بیٹوں کا قتل کراتے اور شوہر بیویوں سے چھٹکارا حاصل کر لیتے، والدین بچوں کو ہلاک کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے اور بچے، والدین کے قتل کو بھیانک جرم نہ سمجھتے۔ اس تمام ہلاکت خیز رویہ کے برعکس دنیا کی آبادی میں سال بہ سال اور صدی بہ صدی اضافہ ہوا ہے اور انسان زندگی کی مسلسل تخلیق اور اس کی پرورش میں مصروف رہا ہے۔

اس مفروضے کو درست ثابت کرنے کے لیے ماہرین سیاسیات اور تحقیق وجستجو کرنے والوں نے اس بات کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی کہ اب تک دنیا میں کتنے انسان پیدا ہو چکے ہیں اور اندازاً ان میں سے کتنے قاتل تھے اور کتنے قاتل نہیں تھے۔

اس تخمینے کے لیے 10 لاکھ قبل مسیح سے2000 بعد مسیح تک انسانوں کی آبادی اکیانوے (91) ارب فرض کی گئی۔ اس کے بعد یہ اندازہ لگایا گیا کہ جنگوں، خانہ جنگیوں اور انفرادی طور پر قتل کرنے کے واقعات کو جوڑا جائے اور اسے پچاس کروڑ فرض کر لیا جائے اور پھر دوسرے بہت سے تخمینے لگائے جائیں تو ان سب کو جمع کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ دس لاکھ سال قبل مسیح سے اب تک دنیا میں تین ارب قاتل پیدا ہوئے ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ درست اعداد و شمار نہیں، اس کے باوجود یہی بات سامنے آتی ہے کہ لاکھوں برس کی اس مدت میں کم از کم 95 فیصد انسان ایسے تھے جنھوں نے قتل جیسے گھناؤنے جرم میں حصہ نہیں لیا تھا۔ امریکا میں قتل کی وارداتوں کا جائزہ لیا گیا تب بھی یہی بات سامنے آئی کہ وہاں ایک لاکھ انسانوں میں سے دس افراد قاتل ہوتے ہیں یعنی آبادی کا اعشاریہ صفر ایک فیصد حصہ قتل کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس نوعیت کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تمام انسانوں میں سے بہ مشکل ایک یا زیادہ سے زیادہ دو فیصد انسان قتل کا ارتکاب کر سکے ہوں گے۔

کسی نہ کسی شکل میں مذاہب دنیا کے ہر خطے میں موجود رہے ہیں اور ان کا ہمیشہ یہی پیغام رہا ہے کہ انسانی جان ہر چیزسے زیادہ مقدس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذہبی صحیفوں میں بندوں کو یہی پیغام دیا گیا کہ قتل ایک گناہ عظیم ہے اور کسی بھی قیمت پراس کا ارتکاب مت کرو۔ قدیم ترین مذہبی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص بھی کسی ایک کی جان بچاتا ہے وہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی جان کی حفاظت کرتا ہے۔ جب کہ وہ شخص جو کسی ایک فرد کی جان لے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے پوری دنیا کو تباہ کردیا ہو۔

سوشل سائنسدانوں میں ابھی تک اس مفروضے پر بحث جاری ہے کہ انسان کی جبلت میں خون ریزی اور قتل و غارت شامل ہے۔ بعض ماہرین نفسیات نے اس بارے میں متعدد تجربات کیے ہیں اور ان تجربات سے یہ بات ثابت کی ہے کہ انسان بنیادی طور پر ایک امن پسند ذی روح ہے اس نوعیت کے تجربے دل کو تقویت دیتے ہیں۔

یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ آج انسان، انسان پر جو ظلم کر رہا ہے۔ ملکوں کو جس سفاکی سے تہس نہس کیا جا رہا ہے، شہروں پر بارود برسایا جا رہا ہے اور حب وطن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانوں کو جس طرح تہ تیغ کیا جا رہا ہے، یہ سب کچھ آخر کار ختم ہونے والا ہے اور انسانی زندگی کا احترام دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کے طور پر سامنے آ کر رہے گا۔

ہو سکتا ہے یہ روز سعید میں نہ دیکھوں لیکن میرے بعد آنے والے اسے ضرور دیکھیں گے …!

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Short Boundary

By Tauseef Rehmat