Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Zahida Hina
  3. Americi Kala Pani Ke Aseer

Americi Kala Pani Ke Aseer

امریکی کالا پانی کے اسیر

یہ انیسویں صدی کی بات ہے جب ہم ایسٹ انڈیا کمپنی سے اپنی جنگ آزادی ہارگئے تھے۔ اس وقت ہمارے متعدد حریت پسندوں کو عبور دریائے شورکی سزا ہوئی۔ عرف عام میں اسے کالا پانی کہا جاتا تھا۔ اس کی کہانی مولانا جعفر تھانیسری نے لکھی جوکتابی شکل میں شایع ہوئی اور آج اس کے متعدد ایڈیشن چھپ کر فروخت ہوچکے ہیں۔

اسی طرح جب نائن الیون کا سانحہ امریکا کی سائیکی کو تہس نہس کرتا گزرا تو اس نے بھی اپنا کالا پانی ایجاد کیا، یہ گوانتانا موبے تھا۔ کالا پانی کی طرح یہ بھی ایک جزیرہ، خار دار تاروں سے گھرا ہوا۔ اونچے اونچے واچ ٹاور جس میں 24 گھنٹے امریکی میرینزکا پہرا۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنیوں کا ہجوم، گھاس کی پتیوں میں چھپے ہوئے مینڈک، گرگٹ اورچھپکلیاں جو اب ان روشنیوں کی عادی ہوچکی ہیں یا شاید یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ وہ اتنی چکا چوند پر حیران ہوتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ ایسی کون سی سوئی یہاں کھو گئی ہے، جسے ڈھونڈنے کے لیے یہ اہتمام ہے۔

گوانتانا موبے کے بارے میں کئی کالم میں نے لکھے اور دوسرے کالم نگاروں نے بھی خون دل سے وہاں کے اسیروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں لکھیں، لیکن انسان کا حافظہ بہت اہم واقعات اور سانحات کو بھلا دیتا ہے۔

گزشتہ دنوں مجھے بھی وہاں کے اسیر یاد تو آئے لیکن میں کچھ نہ لکھ سکی۔ اب اچانک ستمبر کے مہینے میں چند تحریریں نظر سے گزریں تو یاد آیا کہ اکیسویں صدی کے اس کالا پانی کو ہم لوگوں نے کیسے بھلا دیا۔ ہم جو آہنی پردے کے پیچھے رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہماری گردنوں میں ایسے غیر مرئی پٹے پڑے ہیں جنھیں بہ وقت ضرورت ہلایا جاتا ہے اور ہمیں یاد آجاتا ہے کہ ہم جو بہ ظاہر آزاد ہیں، وہ کن دائروں کے اسیر ہیں۔

یہ امریکی کالاپانی آباد ہوا تو اس میں زندانیوں کی تعداد 800 کے لگ بھگ تھی جو اب گزرے ہوئے 18 برسوں میں 40 رہ گئی ہے۔ یہاں کے قیدیوں نے اپنی رہائی کے لیے مقدمے دائرکیے جن میں سے کچھ رہائی پانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت جی چاہتا ہے کہ آپ کو اس ٹیکسی ڈرائیورکی بپتا سنائوں جوکراچی کا رہنے والا ہے جس کا نام احمد ربانی ہے اور جو 18 برس سے گوانتانا موبے میں قید ہے۔

اس پر نہ کوئی الزام لگایا گیا نہ اس پر مقدمہ چلا لیکن وہ آج بھی امریکی نظام انصاف کا زندانی ہے۔ اس نے اپنے بارے میں جو لکھا، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور یقین ہوجاتا ہے کہ انصاف کی دیوی کے ایک ہاتھ میں ترازو ضرور ہے لیکن اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ وہ دیوی جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے وہ بھلا کیا انصاف کرے گی۔

احمد ربانی نے لکھا کہ 21 اگست 2006 کو جب میرا وزن کیا گیا تو 73 کلو تھا اور اب پچھلے ہفتے میرا وزن 39 کلو گرام رہ گیا ہے۔ گوانتاناموبے میں میرے وجود کا تقریباً نصف حصہ غائب ہوچکا ہے۔ مجھے افغانستان سے اغوا کیا گیا، امریکی فوجیوں کے حوالے کیا گیا، جنھوں نے مجھ پر بدترین تشدد کیا اور پھر ہوائی جہاز میں بٹھا کر مجھے ایک ایسی جیل میں بند کردیا گیا جو امریکی سرزمین پر نہیں ہے۔ جہاں لائے جانے والے بیشتر قیدی رہا ہوچکے ہیں لیکن مجھ پر تو ان 18 برسوں میں نہ کوئی جرم عائد کیا گیا اور جب جرم ہی عائد نہ ہوا تو پھر مجھ پر مقدمہ کیسے چل سکتا تھا۔

اس کا سب سے چھوٹا بیٹا 17 برس کا ہے اور اس نے اپنے اس بیٹے کو چھوا بھی نہیں۔ سال بھر بعد وہ 18 کا ہوجائے گا۔ ذرا سوچیے کہ اس کے دل پرکیا گزرتی ہوگی۔ اس نے کبھی امریکی کالاپانی سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ کرتا بھی کیسے کہ اس قید خانے میں ہر قیدی پر 100 فوجی تعینات ہیں اور اگرکسی طرح وہاں سے فرار ہوبھی جائے تو اس جزیرے کے گرد خونخوار شارکوں کے جھنڈگھومتے ہیں۔

بہت سوچ بچارکے بعد اس نے کھانا کھانے سے انکارکر دیا۔ وہ نہ کسی سے لڑ جھگڑ رہا تھا، نہ کسی کو گالیاں دے رہا تھا۔ بس کھانا کھانے سے انکاری تھا۔ شروع کے چند دنوں میں اسے ڈانٹا پھٹکاراگیا لیکن جب اس کی حفاظت کرنے والوں کو اندازہ ہوا کہ اس نے بھوک ہڑتال کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے تو وہ گھبرا گئے اب وہ اس کو زبردستی کھانا کھلانے کے درپے رہتے ہیں۔ قید کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ اگر انھوں نے احمد ربانی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ فاقے کرکے مر جائے گا اور یہ ان کی ہار ہوگی۔ اب وہ دن میں دو مرتبہ آتے ہیں، اسے گھسیٹتے ہوئے کوٹھری سے نکالتے ہیں اور ڈرپ کے ذریعے کچھ مقوی اشیا پلانے کی کوشش کرے ہیں لیکن احمد ربانی ان کی اس کوشش کو جس قدر ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے، انھیں اتنا ہی غصہ آتا ہے۔

وہ ملٹری نرس کو بلاتے ہیں لیکن احمد تنہا اس کے بس کی بات نہیں چنانچہ دو تگڑے گارڈ بلائے جاتے ہیں۔ اس کو بیڑیوں اور ہتھکڑیوں سمیت گھیسٹا جاتا ہے اور ناک میں ٹیوب ڈال کرکچھ طاقتور غذائی اجزا اس کے معدے میں پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ روزانہ کا معمول ہے اور اس بھوک ہڑتال کو 7 برس ہوگئے ہیں۔ نرس اس کی ناک میں 110 سینٹی میٹرکی نلکی ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ نلکی کبھی معدے میں جانے کے بجائے پھیپھڑے میں چلی جاتی ہے جو ایک اذیت ناک عمل ہے۔

ہر چھ مہینے بعد اس کے گارڈ بدل جاتے ہیں اور نرس بھی۔ ان کے لیے یہ ایک مشقت ہے اور احمد کے لیے بھی، لیکن اس بارے میں وہ کیا کرسکتا ہے؟ بس اس طرح وہ اپنے آپ کو گھلا رہا ہے۔ وہ کراچی میں تھا تو اس کے لیے سب سے پرُلطف اور تفریح کی بات اپنے گھر والوں اور دوستوں کے لیے طرح طرح کے کھانے پکانا تھا۔ وہ ایک خوش خوراک انسان تھا اور اپنے گھر والوں اور دوستوں کے لیے کھانے پکانا اس کی ایک بڑی تفریح تھی۔

آپ خود سوچیے کہ ایک ایسے شخص کے لیے بھوک ہڑتال پر جانا اور سات برس تک اپنی زبان کو ذائقوں سے محروم رکھنا اور اپنے معدے کو اپنی انگلیوں سے ٹٹولنا کتنی اذیت ناک بات ہوگی۔ اپنی اس صورتحال سے لڑنے کے لیے اب وہ کھانے پکانے کی ایک کتاب لکھ رہا ہے شاید مرتب کرنا زیادہ مناسب لفظ ہو۔

وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے ماں باپ برما کے رہنے والے تھے اور وہ ایک روہنگیا مسلمان ہے۔ اس نے کبھی خواب میں بھی دہشت گردی کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن نائین الیون سے خوفزدہ لوگوں نے اسے اغوا کیا، اس پر بدترین تشدد کیا تاکہ وہ انھیں اپنے دہشت گرد ساتھیوں کے بارے میں بتادے لیکن وہ کیا بتاتا جب کہ وہ دہشت گردی کی"دال" سے بھی واقف نہیں۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ "دال" کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے وہ اس میں کن کن چیزوں کا بگھار لگاتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ احمد ربانی کی کھانا پکانے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کیوں اسے دہشت گرد بنانے پر تلے ہوئے ہیں، لیکن اس پر ہی کیا منحصر ہے۔

ہمارے یہاں نہ جانے کتنے معصوم مار مار کر "دہشت گرد" بنادیے گئے۔ ان سے کیسے کیسے منصوبے موسوم کردیے گئے اور پھر ان کی تمام زندگی کالے پانی میں گزرگئی۔ برطانوی زیادہ سمجھ دار تھے۔ وہ وہاں رہنے والوں کی آپس میں شادیاں کرادیتے تھے۔ ان کے بچے اس جنگل بیابان میں رہتے اور پس زندان بھیجے جانے والے کتابیں لکھتے تھے، روزنامچے مرتب کرتے تھے۔ میری نظر سے ابھی تک کوئی ایسی کتاب یا روزنامچہ نہیں گزرا جس میں گوانتاناموبے کے کسی زندانی نے اپنے روزو شب کی کتھا کہانی لکھی ہو۔

احمد ربانی کو شعرو شاعری کا شوق نہیں۔ یوں بھی اس کی مادری زبان برمی ہے۔ اسے تو اپنی بھوک کو دوسروں کے لیے خنجر آبدار بنانے کا ہنر آتا ہے۔ شاید اس نے سنا ہوکہ برٹش انڈیا کو یہ سن کر ہی تھرتھری چھوٹ جاتی تھی کہ مہاتما گاندھی نے ایک بار پھر مرن برت رکھ لیا ہے۔

شاید ان ہی کی پیروی میں احمد ربانی نے کھانے سے منہ موڑا ہو اور سات برس سے اس کا بدن گھل رہا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ اسے ناحق قید کرنے والے کب تک اسے یوں صابن کی ٹکیہ کی طرح گھلتے دیکھیں گے اور کب وہ دن آئیگا جب اس کا ڈھانچہ آخری ہچکی لے گا اوروہ اسے لکڑی کے تابوت میں بند کرکے گھر والوں کے پاس بھیج دیں گے اور وہ جواد کے لمس کو ترستا ہی چلا جائے گا۔ ابھی جواد سترہ برس کا ہے لیکن تابوت جب اس کے گھر پہنچے گا تو کون جانے اس کی عمرکتنی ہوگی۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra