16 دسمبر 1971 کا سبق
دسمبرسال کا آخری مہینہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اس کی ایک خاص اہمیت ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیں یہ جانچنے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے کہ رخصت ہونے والے سال کے دوران ہماری کارکردگی کیسی رہی ہے۔
انفرادی سطح پر یہ تجزیہ کیا جاتا ہے کہ آپ یا ہم جس شعبے سے وابستہ ہیں، اس میں ہم کتنا آگے بڑھ سکے ہیں۔ ہم اگر وہیں کھڑے ہیں جہاں گزشتہ سال کھڑے تھے تو اس کی وجوہ کیا ہیں؟ ہماری وہ کون سے خامیاں ہیں جو ہماری ترقی اور آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور انھیں آنے والے سال میں کس طرح دور کیا جا سکتا ہے۔
دسمبر کے مہینے میں صرف افراد ہی نہیں بلکہ اقوام بھی اپنا جائزہ لیتی ہیں۔ ہر ملک یہ دیکھتا ہے کہ اقوام عالم کی برادری میں سماجی، معاشی اور سیاسی حوالوں سے اس کا مقام بلند ہوا ہے یا وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ کوئی ملک اگر یہ دیکھتا ہے کہ اس سال کے دوران اس نے خاطر خواہ ترقی نہیں کی ہے تو اس کے اسباب جاننے اور پھر انھیں ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی جاتی ہیں۔
دسمبر 2020 کا ختم ہوتا مہینہ ہمیں اس امر پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ آزادی کے 73 سال مکمل ہونے کے بعد ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ بالکل دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی بات تو جانے دیں ہم خود اپنے خطے کے تقریباً تمام ملکوں سے بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہندوستان کا ذکر بھلا کیا، وہ تو دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے، بنگلہ دیش جس پر ہم کبھی "رحم" کھایا کرتے تھے آج معاشی اور سماجی ترقی کے تمام اشاریوں میں ہم سے بہت آگے ہے۔
زیادہ دور نہ جائیں پڑوس کے ملک افغانستان پر نظر ڈالیں۔ اس ملک کو عالمی طاقتوں نے دہائیوں تک میدان جنگ بنائے رکھا اور جو اب بھی خانہ جنگی کی حالت میں ہے، وہ بھی کئی حوالوں سے ہم سے بہتر صورت حال میں ہے۔ پچھلے ماہ جب ہمارے وزیر اعظم افغانستان تشریف لے گئے تو انھیں کورونا کے خلاف جنگ میں مدد کی غرض سے کئی کروڑ ڈالر کی امداد عطا کی گئی۔
چند سال پہلے افغانی اور پاکستانی سکے کی شرح تبادلہ میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر افغانی کے مقابلے میں ناقابل یقین حد تک گر چکی ہے۔ جب کسی ملک کو اس نوعیت کی غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے تو عموماً وہ دو بالکل مختلف انداز میں اپنے رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے یا تو وہ حقائق کی سنگینی کے اسباب خود اپنے اندر تلاش کرتا ہے یا پھر وہ نفسیاتی طور پر مایوس اور پریشان ہو کر خوف زدہ ہو جاتا ہے اور خود تنقیدی سے فرار حاصل کرنے کے لیے اپنی کوتاہیوں کی ذمے داری دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔
اپنی ناکامیوں کے حوالے سے ہمارا کیا رویہ ہے اس کا اندازہ ایک ایسے بھیانک اور غیر معمولی المیے اور حادثے کے تناظر میں لگایا جا سکتا ہے جو دسمبر 1971 کی 16 تاریخ کو رونما ہوا تھا۔ جب یہ سطریں آپ کی نظروں سے گزر رہی ہیں تو دیکھیے کہ آج کیا تاریخ ہے آج 16 دسمبر 2020 ہے۔
16 دسمبر ہماری قومی تاریخ کا کوئی عام اور معمولی دن نہیں ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے کہ جب 14اگست 1947کو تخلیق پانے والا ملک صرف 24 سال مکمل کرنے کے بعد 16 دسمبر 1971کو دو لخت ہو گیا تھا۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس ملک سے الگ ہو گئی تھی جس کے لیے اس نے بے مثال جدوجہد کی تھی۔
آج کے دن کیا آپ اور ہم نے اپنے دلوں میں کوئی دکھ محسوس کیا، کیا آج ہمارے ملک میں سوگ کی کیفیت کہیں نظر آ رہی ہے؟ سوال صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم نے اتنے بڑے المیے کو اتنی آسانی سے کیوں اور کیسے فراموش کر دیا؟ یوں لگتا ہے کہ جیسے کل کا مشرقی پاکستان ہمارے ملک کا کبھی کوئی حصہ ہی نہیں تھا۔ اس قدر غیر معمولی المیے پر ہماری خاموشی سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ہم تلخ حقائق پر بحث اور گفتگو سے اس لیے کتراتے ہیں کیوں کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ساری غلطی خود ہماری اپنی نکل آئے گی۔ آج سے 50 سال قبل رونما ہونے والے اس قومی سانحے کے پس پشت کار فرما حقائق سے آنکھیں نہ چرائی گئی ہوتیں تو ہم ایک نہ ختم ہونے والے بحران میں کبھی گرفتار نہ رہتے اور ترقی کے میدان میں اپنے خطے کے دوسرے ملکوں سے کہیں آگے نکل چکے ہوتے۔
میرا موقف یہ ہے کہ آزادی کے فور اً بعد غیر معمولی حالات اور سیاسی خلاء کا فائدہ اٹھا کر وہ طاقتور عناصر بعض سیاسی کرداروں سے ساز باز کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہش سے گریز کرتے تو نہ صرف پاکستان دو ٹکڑے ہونے سے بچ جاتا بلکہ دیگر نو آزاد ملکوں کے لیے ایک روشن مثال بن جاتا۔ آزادی کے بعد آئین بنانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں انھیں ناکام بنانے کے لیے ان عناصر نے ہر حربہ استعمال کیا لیکن اس کے باوجود سست رفتاری سے سہی دستور ساز اسمبلی میں موجود مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمایندوں نے آئین سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اس عمل میں تعطل پیدا کرنے کی غرض سے حکمران اشرافیہ کے نمایندے گورنر جنرل غلام محمد خان نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 1953میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کر دی۔
جب خواجہ ناظم الدین کو ان کے منصب سے ہٹایا گیا تو ان کی حکومت کو ارکان پارلیمنٹ کی واضح حمایت حاصل تھی۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ان کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کہ وہ ایک بنگالی تھے اور امریکا بھی انھیں پسند کرتا تھا۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ سے جو کابینہ بنوائی گئی اس میں ایک سابق جنرل اور سول سرونٹ اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور باوردی آرمی چیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع مقرر ہوئے اور بیوروکریسی کے اہم رکن چوہدری محمدعلی کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔
اس طرح پر امن جمہوری اور سیاسی جدوجہد سے معرض وجود میں آنے والے ملک پر غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کے غلبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ اس غلبے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے۔ مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان کو متحد کرنے کے لیے نومبر 1954 میں چھوٹے صوبوں کی خواہش کے برعکس ون یونٹ کا نظام مسلط کیا گیا اور مشرقی پاکستان کی عددی برتری ختم کرنے کے لیے برابری (پیرٹی) کا نظام بنا کر دونوں حصوں کی نمایندگی مساوی کر دی گئی۔ ان تمام غیر جمہوری اقدامات کے باوجود مغربی اور مشرقی پاکستان کے نمایندوں نے 1956 کا آئین منظور کر لیا جس کے مطابق 1958 میں عام انتخابات کا انعقاد طے پایا۔
اب مرحلہ یہ درپیش تھا کہ 1958 کے مجوزہ انتخابات کو کس طرح روکا جائے کیوں کہ اس وقت کی حکمران اشرافیہ یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غصے کا بڑا اظہار 1952 میں بنگالہ زبان کے لیے شروع کی گئی تحریک کے دوران ہوا تھا۔ جس کے بعد 1954 میں جگتو فرنٹ کی کامیابی نے یہ واضح کر دیا تھا کہ مشرقی بازو کے پاکستانی کسی بھی صورت میں جمہوری نظام پر کوئی سودا نہیں کریں گے۔ 1958 میں انتخابات ہوتے تو مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے عوام کے نمایندوں کی اکثریت پنجاب کے سیاسی حلیفوں سے مل کر جمہوری حکومت تشکیل دیتی اور پاکستان جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو جاتا۔ کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی اور مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو ملک پر مارشل لاء نافذ کر کے 1956 کے آئین کو منسوخ کرنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ یہ ایک عارضی اقدام ہے۔ نئے آئین کے بعد مارشل لاء اٹھا لیا جائے گا۔ اسکندر مرزا کی حکمرانی 20 دنوں سے زیادہ نہیں چل سکی، 27 فروری1958 کو جنرل ایوب خان نے موصوف کو نکال باہر کیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کو جلا وطن کر کے لندن روانہ کر دیا جہاں انھوں نے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی تمام کی، ان کی موت کے بعد ان کی میت کو پاکستان لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
7 اکتوبر 1958کے مارشل لاء کا تباہ کن نتیجہ 16 دسمبر 1971 کو نکلا جب پورا ملک ہی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ اب اگر اس المیے کے اسباب کو چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو اتناکہہ دینا ہی کافی ہو گا کہ پاکستان کی تخلیق کے بعد آئین کی تیاری میں دانستہ ڈالی گئی رکاوٹیں، 1956 کے آئین اور 1958 میں عام انتخابات کی منسوخی اور مارشل لاء کا نفاذ اس واقعے یا سانحے کی بنیادی وجہ تھی۔ دکھ کا مقام یہ ہے کہ 1971 کے سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ملک میں بار بار مارشل لاء لگائے جاتے رہے اور جمہوریت کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔ مناسب یہی ہے کہ کوئی صورت ایسی نکالی جائے کہ ملک میں ایک مضبوط اور پائیدار عمل شروع ہو سکے۔ 16دسمبر 1971 کا یہی سبق ہے۔