مودی ہے تو ممکن ہے
بھارت میں سات مرحلوں پر مشتمل لگ بھگ ڈیڑھ ماہ پر پھیلا ہوا چناؤ عمل کل (انیس اپریل) سے شروع ہو چکا ہے۔ نتائج کا اعلان چار جون کو ہوگا۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی انتخابی مشق ہے جس میں لگ بھگ چھیانوے کروڑ بھارتی شہری پانچ سو تینتالیس رکنی اٹھارویں لوک سبھا کا انتخاب کر رہے ہیں۔ کل پہلے مرحلے میں اکیس ریاستوں میں لوک سبھا کی ایک سو دو نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی۔
مقابلہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنز (این ڈی اے) اور حزبِ اختلاف کے اتحاد انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنز (انڈیا) کے درمیان ہے۔ این ڈی اے دو ہزار چودہ سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ اور اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں اس اتحاد کو چار سو سے زائد ریکارڈ نشستیں جیتنے کی امید ہے۔
جب کہ کانگریس، عام آدمی پارٹی، کیمونسٹ پارٹی کے دو دھڑوں، سماج وادی پارٹی، کشمیر کی نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور بنگال کی ترنمول کانگریس سمیت حزبِ اختلاف کے چھبیس جماعتی اتحاد کو جیت کی تو اتنی امید نہیں البتہ اتنی توقع ضرور ہے کہ بی جے پی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر بھارت میں یک جماعتی شخصی آمریت اور ایک ہندو راشٹر کے قیام کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔
نیز بی جے پی شہریت کے ترمیمی قانون اور شہریوں کے نیشنل رجسٹر کو ازسرِ نو مرتب کرنے کے متنازعہ قوانین کے بلڈوزر سے غیر ہندو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بڑی تعداد میں شہریت سے محروم کر سکتی ہے یا کم ازکم انھیں باضابطہ طور پر درجہِ دوم کے شہریوں میں تبدیل کر سکتی ہے۔
البتہ جب میڈیا کی نوے فیصد طاقت حکمران جماعت کے اشاروں پر خوشی خوشی ناچ رہی ہو۔ کارپوریٹ سیکٹر دامے درمے مودی سرکار کی راہ میں آنکھیں بچھا رہا ہو۔ سوشل میڈیا پر بی جے پی کا تقریباً مکمل کنٹرول ہو اور اے آئی (مصنوعی ذہانت) کا موثر انتخابی استعمال بھی بے جی پی کی انتخابی پروپیگنڈہ مہم کا ستون بن چکا ہو۔
اس کے علاوہ آر ایس ایس کے لاکھوں کار سیوکوں (رضاکار) پر مشتمل ورکرز مشینری میدان میں اتر چکی ہو اور دوسری جانب حزبِ اختلاف کے اتحاد کے پاس مودی کے مقابلے میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے کوئی ایک متفقہ چہرہ نہ ہو۔ میڈیا اس اتحاد کے اندرونی اختلافات اور نشستوں کی تقسیم میں کنفیوژن کو مرچ مصالحہ لگا کے پیش کر رہا ہو تو اکثر انتخابی مبصرین کو بی جے پی کی کامیابی یقینی دکھائی دیتی ہے۔
بی جے پی کے لیے موجودہ الیکشن اس لیے اہم ہیں کہ اب اس کا حتمی ہدف سیکولر آئین کی شکل بدل کے ایک ہندو راشٹر کا قیام ہے جس میں ایک راجہ، ایک کتاب اور ایک قانون سب کے لیے ہو۔ جب کہ حزبِ اختلاف کے لیے یہ آخری موقع ہے مودی کے لشکر کو اس راہ پر جانے سے روکنے اور سیکولر جمہوریہ کی باقیات بچانے کے لیے۔
مودی حکومت نے فیصلہ کن جیت یقینی بنانے کے لیے ریاستی مشینری کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات شفاف ہوں گے؟ اس سوال پر سب سے بڑا نشان انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے ذرا پہلے ایک قانون متعارف کروا کے ڈال دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے ارکان کا انتخاب اب تک چیف جسٹس آف انڈیا، وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی تین رکنی کمیٹی کرتی آئی ہے تاکہ دنیا کا سب سے بڑا انتخاب کرانے والے کمیشن کی غیر جانبداری ہر ممکن حد تک یقینی بنائی جائے۔ مگر اب قانون میں ترمیم کرکے چیف جسٹس کا کردار اس کمیٹی سے ختم کر دیا گیا ہے۔
ان کی جگہ وزیر اعظم کا نامزد کردہ کوئی وزیر لے گا۔ یوں قائدِ حزبِ اختلاف کے ایک ووٹ کے مقابلے میں حکومت کے دو ووٹ ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ من پسند الیکشن کمیشن بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے میچ میں حصہ لینے والی ایک ٹیم کا کپتان میچ کا امپائر بھی نامزد کرے۔
انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے فوراً بعد اپوزیشن اتحاد میں شامل عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال کو مالی جرائم کی چھان بین کرنے والے ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے شراب کی ایکسائز آمدنی میں گھپلے کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ جب کہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ، وزیر صحت اور عام آدمی پارٹی کے ایک لوک سبھا رکن پہلے ہی مختلف الزامات کے تحت جیل میں ہیں۔
عام آدمی پارٹی کی اس وقت دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت ہے۔ بی جے پی کے ایک اور کٹر مخالف بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کے خلاف بھی انیس سو پچانوے میں درج غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے ایک پرانے کیس کو نکال کے ان کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔
کانگریس کو انتخابی مہم سے روکنے کے لیے مالیاتی ضرب لگائی گئی اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے ٹیکس ہیرا پھیری کے الزام میں ایک ارب پینتیس کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کرکے پارٹی اکاؤنٹ منجمد کر دیا۔ اس اکاؤنٹ میں سے کانگریس ایک محدود رقم ہی نکال سکتی ہے۔ جب کہ پینتیس ارب روپے کے مبینہ ٹیکس واجبات کی وصولی جون تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ حزبِ اختلاف کے بیسیوں رہنماؤں کے پیچھے سرکاری ایجنسیاں لگی ہوئی ہیں۔ تاکہ یا تو وہ بی جے پی میں شامل ہو جائیں یا پھر انتخابی مہم سے لاتعلق ہو جائیں۔
مثلاً مہاراشٹر میں کانگریس کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اشوک چاون سرکاری اداروں کے تعاقب سے تنگ آ کے دو ماہ قبل بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق گزشتہ دس برس میں حزبِ اختلاف کی پچیس معروف شخصیات سرکاری ایجنسیوں کے محاسبے سے بچنے کے لیے بی جے پی کا ہاتھ تھام چکی ہیں۔ ان سب کے مقدمات اب سردخانے میں ہیں۔
بالی وڈ پچھلے انتخابات کی طرح اس بار بھی ایسی فیچر فلمیں ریلیز کر رہا ہے جن سے بی جے پی کے ہندوتوا نظریے کو مزید مقبولیت مل سکے۔ نوے فیصد ٹی وی چینلز بی جے پی کو جتنی مثبت کوریج دے رہے ہیں حزبِ اختلاف کو اس کا ایک چوتھائی بھی میسر نہیں۔ جو یو ٹیوب چینلز مودی حکومت کے ناقد ہیں ان میں سے اکثر بند ہو گئے ہیں یا پھر ان کے خلاف قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں۔
حسب روایت فرقہ وارانہ کارڈ بھی آستینوں سے نکل آیا ہے۔ مودی نے حزبِ اختلاف کے اتحاد (انڈیا) کے منشور پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ " ایسا لگتا ہے جیسے یہ مسلم لیگ کا منشور ہو۔ یہ سب جماعتیں رام دشمن ہیں اور اس بار ووٹر انھیں پہلے سے زیادہ مزہ چکھائیں گے"۔
ایک ایسے ماحول میں جب میڈیا مودی کا بھونپو بن چکا ہے۔ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت تمام آئینی و انتظامی ادارے بی جے پی کی ذیلی تنظیم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے پاس " مودی ہے تو ممکن ہے " جیسے نعرے کے توڑ کے لیے کوئی نعرہ نہیں۔
بھارت چونکہ پانچویں بڑی عالمی معیشت کے پائیدان پر پہنچ کر برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اس لیے بیرونِ بھارت کسی کو بھی وہاں انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے پہلے جیسی دلچسپی نہیں رہی۔ حالانکہ رائے عامہ کے مغربی ادارے اور تھنک ٹینک اپنی ہی رپورٹوں میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت پچھلے دس برس میں مکمل جمہوریت سے نیم جمہوری ریاست کے درجے پر آ چکا ہے۔
کئی انتخابی پنڈت یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ بھارت کا آخری کھلا الیکشن ہے۔ آیندہ جو بھی الیکشن ہوا وہ اتنا ہی جمہوری ہوگا جتنا ایران، روس یا چین میں ہوتا ہے۔