کیا مودی جی بھگوان کا اوتار ہیں؟
جوں جوں انتخابی عمل اختتامی مراحل میں داخل ہو رہا ہے مودی نواز "گودی میڈیا "بھی دھیمے دھیمے تسلیم کرنے لگا ہے کہ "اب کی بار چار سو پار" (یعنی پانچ سو پینتالیس لوک سبھا نشستوں میں سے بی جے پی چار سو لے اڑے گی) کا نعرہ بکھر رہا ہے۔ بہت سے مبصرین کہنے لگے ہیں کہ بی جے پی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی تو بن سکتی ہے مگر آئین کی سیکولر شکل بدلنے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت شاید حاصل نہیں کر سکتی۔
اب تک سات انتخابی مرحلوں میں سے چھ مکمل ہو چکے ہیں۔ یکم جون کا آخری اور ساتواں مرحلہ باقی ہے۔ مگر دوسرے مرحلے میں ہی کم ٹرن آؤٹ کی بو سونگھتے ہی بی جے پی کا لہجہ تیزی سے بدلنے لگا۔ اس نے ترقی، رام مندر اور پانچ ٹریلین معیشت کا اشتہار رکھا ایک طرف اور سب سے آسان پنچنگ بیگ یعنی مسلمان اقلیت پر پل پڑی۔
بی جے پی نے تیسرے مرحلے کی انتخابی مہم میں ہی توپوں کا رخ مسلمانوں کی جانب کر لیا اور " غیر ملکی دراندازوں یا زیادہ بچے پیدا کرنے والوں" کو بھارتی جمہوریت اور ہندو اکثریت کے لیے گھمبیر خطرہ ثابت کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کا تازہ مظہر وہ مبینہ تحقیقی دستاویز ہے جو گزشتہ ہفتے حکومت کی معاشی مشاورتی کونسل کی جانب سے شایع کی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ انیس سو پچاس سے دو ہزار پندرہ تک بھارتی مسلمانوں کی تعداد میں تینتالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رفتار کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن بھارت کی ہندو اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور بھارت گیروے رنگ سے سبز ہو جائے گا۔ اور اس نیک کام میں حزبِ اختلاف کانگریس سمیت انڈیا نامی انتخابی اتحاد میں شامل سب جماعتیں شریک ہیں اور ہندوؤں کے وسائل مسلمانوں کو سونپنا چاہتی ہیں۔
اس تحقیق کی بنیاد عالمی مذہبی اعداد و شمار جمع کرنے والے آن لائن ڈیٹا بیس ادارے ایسوسی ایشن آف ریلیجن ڈیٹا آرکائیو (آردا) کا سروے ہے۔ سروے کے مطابق پینسٹھ برس میں مسلمانوں کی آبادی نو اعشاریہ چوراسی فیصد سے بڑھ کے تقریباً پندرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ اسی عرصے میں ہندوؤں کی آبادی چوراسی اعشاریہ اڑسٹھ فیصد سے کم ہو کر تقریباً ساڑھے اٹھہتر فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی ہندوؤں کی آبادی میں سات اعشاریہ بیاسی فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
اس عرصے میں بھارت کی مسیحی آبادی میں ساڑھے پانچ فیصد اور سکھ آبادی میں تقریباً پونے سات فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ بودھ آبادی صفر اعشاریہ صفر پانچ سے بڑھ کے صفر اعشاریہ اکیاسی فیصد ہوگئی ہے۔ یعنی بودھ آبادی میں لگ بھگ سولہ سو فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کے ایک سو سڑسٹھ ممالک میں اکثریتی مذہب ماننے والی آبادی میں بھی کمی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگرچہ بھارت میں مذہبی آزادی میں بتدریج کمی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر اقلیتوں کی آبادی میں اضافے سے عیاں ہے کہ نہ صرف بھارتی اقلیتیں پھل پھول رہی ہیں بلکہ خود کو محفوظ بھی سمجھتی ہیں۔
بہت سے شماریاتی ماہرین نہ صرف اس رپورٹ کی صحت چیلنج کر رہے ہیں بلکہ حیران بھی ہیں کہ یہ رپورٹ بھارت میں ہونے والی اب تک کی مردم شماریوں کے نتائج کے بالکل برعکس تصویر پیش کرنے کے باوجود حکمران پارٹی کی جانب سے انتخابی موسم میں ووٹروں کی نفسیات پر اثرانداز ہونے کے مقصد سے شایع کی گئی ہے۔
اگر مستند سرکاری ڈیٹا کی روشنی میں دیکھا جائے تو انیس سو اکیاون کی پہلی مردم شماری سے دو ہزار گیارہ کی آخری مردم شماری تک بھارت میں مسلمانوں کی آبادی ساڑھے پینتیس ملین سے بڑھ کے ایک سو بہتر ملین تک پہنچی ہے۔ جب کہ اسی عرصے میں ہندؤوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوا اور ان کی تعداد تین سو تین ملین سے بڑھ کے نو سو چھیاسٹھ ملین ہوگئی ہے۔
شماریاتی ماہرین کے نزدیک نئی سرکاری تحقیق دراصل رائی کا پہاڑ بنانے کی ایک بھونڈی انتخابی کوشش ہے۔ اگرچہ آر ایس ایس سے نتھی دائیں بازو کی تنظیمیں تواتر سے پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ مسلمان آبادی بڑھانے کا جہاد کر رہے ہیں۔ مگر مستند سرکاری ریکارڈ کے مطابق انیس سو بانوے سے انیس سو اکیس کے درمیان ایک مسلمان عورت کے ہاں شرحِ پیدائش چار اعشاریہ اکتالیس بچوں سے کم ہو کر دو اعشاریہ چھتیس تک پہنچ گئی ہے۔
یعنی پچھلے تیس برس میں مسلم شرحِ پیدائش دیگر بھارتی فرقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ گری ہے۔ جب کہ اسی عرصے میں ہندو شرحِ پیدائش تین اعشاریہ تین سے گھٹ کے ایک اعشاریہ چورانوے تک آ گئی ہے۔ مگر مودی حکومت کی جاری کردہ رپورٹ میں ان اعداد وشمار کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
اس کے باوجود بی جے پی اپنی ہی جاری کردہ اس رپورٹ کو ایک مستند تحقیق کے روپ میں اپنے ووٹروں کو بیچ رہی ہے۔ بی جے پی کے سیکریٹری اطلاعات امیت مالویہ نے رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ملک دوبارہ کانگریس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو ہندوؤں سے ایک اکلوتا ملک بھی چھن جائے گا۔ جب کہ ایک سرکردہ تھنک ٹینک پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا نے اس رپورٹ کو خالصتاً سیاسی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اس دوران ساتویں اور آخری انتخابی مرحلے سے پہلے ہی مودی جی نے ازخود بھگوان کا اوتار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں آپ نے فرمایا "جب تک ماں زندہ تھی تو لگتا تھا کہ شاید میں اس کی کوکھ سے جنما ہوں۔ ماں کے جانے کے بعد میں جب اپنی زندگی کے سارے تجربات جوڑ کر دیکھتا ہوں تو یقین ہوتا جاتا ہے کہ پرماتما نے کسی خاص کام کے لیے مجھے بھیجا ہے۔ مجھے اپنی انتھک توانائی روایتی انسان جیسی نہیں لگتی۔ ایشور نے مجھ سے شاید کوئی اہم کام لینا ہے، اس لیے مجھے اسی حساب سے سامرتھی (صلاحیت، طاقت) بھی عطا کی ہے"۔
کسی دل جلے تبصرہ باز نے اس بیان پر کہا کہ لوک سبھا کی چار سو نشستیں ملنے کی دیر ہے۔ مودی جی خود کو بھگوان کا اوتار سمجھنے کے بجائے بھگوان کہنے لگیں گے۔