غیر یہودیوں کو جکڑنے والے اسرائیلی قوانین (1)
مغرب اسرائیل کی اندھادھند حمائت میں جو بیسیوں منطقیں جھاڑتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسرائیل عرب آمریتوں کے سمندر میں جمہوریت کا سرسبز جزیرہ ہے۔ وہاں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ سول و فوجی ڈکٹیٹر۔ تبدیلی ہمیشہ ووٹ کے ذریعے آتی ہے۔ اگرچہ آئینی لحاظ سے اسرائیل ایک یہودی وطن ہے مگر اس کی حدود میں جو انیس فیصد عرب رہتے ہیں وہ بھی پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ان جماعتوں کا ایک اتحاد " عرب بلاک " کے نام سے موجود ہے۔
جہاں تک مقبوضہ مغربی کنارے کا معاملہ ہے تو وہ چونکہ اسرائیل کا باقاعدہ حصہ نہیں اس لیے وہاں کی آبادی پر فوجی قوانین اور اسی مقبوضہ علاقے میں قائم یہودی آباد کار بستیوں پر سویلین قوانین لاگو ہیں؟ اگر اس تضاد کے بارے میں جرح کی جائے تو مغربی دانش آئیں بائیں شائیں چونکہ چنانچہ پر اتر آتی ہے۔
لیکن جو عرب اسرائیلی برابر کے شہری بتائے جاتے ہیں کیا انھیں وہی مساوی حقوق حاصل ہیں جو اسرائیل کے کسی بھی یہودی باشندے کو؟
(یہاں میں بار بار " عرب اسرائیلی " کی اصطلاح یوں استعمال کر رہا ہوں کیونکہ اسرائیل کے قوانین میں مملکتِ اسرائیل اور جوڈیا سماریا (مغربی کنارہ) کا تو تذکرہ ہے مگر فلسطین یا فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں )۔ ریاستی صیہونی آئیڈیالوجی کے مطابق جب سو سوا سو برس پہلے یہودیوں کی اپنے " اجدادی وطن " واپسی شروع ہوئی تو یہاں چند عرب خانہ بدوش قبیلوں کے کوئی نہیں تھا۔ ویسے بھی صیہونیت کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کے بقول " ایک غیر آباد سرزمین ایک بے سرزمین قوم (یہودی) کی ملکیت ہے "۔
اسرائیلی قیادت فلسطینیوں کو سینہ ٹھونک کر نیم انسان اور دو ٹانگوں پر چلنے والا چوپایا کہتی ہے۔ البتہ اسرائیل کو کوئی مغربی سامراج کی ناجائز اولاد کہہ دے تو پھر یہود دشمنی کا ماتم شروع ہو جاتا ہے۔
اس تناظر میں اسرائیل میں نافذ کچھ قوانین کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ یہ ریاست کس قدر جمہوری، غیر نسل پرست اور انسانیت دوست ہے۔
برطانوی تسلط کے دور (انیس سو سترہ تا اڑتالیس) کے کئی قوانین اسرائیل نے جوں کے توں اٹھا لیے۔ جیسے انیس سو انتالیس کا یہ قانون کہ " دشمن ممالک سے تجارت یا سفری تعلق " ممنوع ہے۔ اس قانون کے دائرے میں وہ عرب اور مسلم ممالک آتے ہیں جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ اسرائیل کے عرب شہری بھی ان ممالک سے کسی بھی طرح کا براہِ راست یا بلاواسطہ ثقافتی، مذہبی، معاشی تعلق نہیں رکھ سکتے۔ نہ ہی وہ ان ممالک سے مذہبی لٹریچر سمیت کوئی شے منگوا سکتے ہیں۔
ہنگامی دفاعی قانون نمبر ایک سو پچیس بھی برطانوی دور کی یادگار ہے۔ اس کے تحت کسی بھی خطے کو حساس فوجی علاقہ قرار دے کر وہاں شہریوں کی نقل و حرکت ممنوع قرار دی جا سکتی ہے۔ اسرائیل نے مئی انیس سو اڑتالیس میں اسی قانون کے تحت ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور ساڑھے سات لاکھ عربوں کو " حساس فوجی علاقوں" سے نکال باہر کیا اور واپسی پر پابندی لگا دی۔
اسی قانون کے تحت جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ حساس قرار دے دیا گیا۔ ایریا سی نامی اس علاقے میں کوئی فلسطینی مقامی فوجی کمان کے اجازت نامے کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ بھلے وہاں اس کی املاک ہی کیوں نہ ہوں۔
اسرائیل کے متروکہ املاک قانون مجریہ انیس سو پچاس کے تحت انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کے بعد جس شہری نے کسی بھی وجہ سے اپنا گھر، کھیت یا بینک اکاؤنٹ ترک کر دیا وہ غیر حاضر تصور ہوگا اور اس کا اثاثہ ریاستی کسٹوڈین کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔ انیس سو پچاس کے اس قانون کی زد میں عملاً صرف فلسطینی عرب ہی آتے ہیں۔
اس کے برعکس انیس سو پچاس کے قانونِ واپسی (شہریت) کے تحت دنیا میں کہیں بھی آباد یہودی باشندہ، اس کی اولاد، اولاد کی اولاد اور زیرِ کفالت افراد اسرائیلی شہریت کے اہل ہیں۔ گھر واپسی کا یہ قانون اپنے گھروں سے جبراً نکالے گئے لاکھوں فلسطینیوں پر منطبق نہیں ہوتا۔
دو ہزار آٹھ میں قانونِ شہریت میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی بھی شخص کی اسرائیلی شہریت منسوخ ہو سکتی ہے اگر ثابت ہو جائے کہ وہ ریاستِ اسرائیل کا وفادار نہیں یا اس نے ممنوعہ فہرست میں شامل نو عرب ممالک بشمول غزہ میں عارضی سکونت اختیار کر لی ہے۔ (جب کہ ان نو عرب ممالک میں آباد یہودی شہریوں پر یہ شرط لاگو نہیں ہوتی)۔ شہریت کے قانون کے تحت اگر کوئی غیر ملکی یہودی اسرائیل میں عارضی قیام بھی کرتا ہے تو اسے بھی اسرائیلی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
(اس رعائیت کے سبب اکثر غیر ملکی یہودی اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے رہتے ہیں یا پھر اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں کی آبادکار بستیوں میں املاک خرید رہے ہیں مگر ان کی دوہری شہریت برقرار ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے پر جو سات لاکھ یہودی آباد ہیں ان میں ساٹھ ہزار امریکی شہری ہیں )۔
انیس سو باون کے بین الاقوامی تنظیمی قانون کے تحت عالمی صیہونی ادارے جیوش ایجنسی کو نیم سرکاری ادارے کا درجہ دیا گیا ہے (جیوش ایجنسی لگ بھگ ایک صدی سے باقی دنیا میں آباد یہودیوں کو اسرائیل کی جانب ہجرت کی ترغیب اور انتظام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے)
متروکہ املاک قانون مجریہ انیس سو پچاس اور حصولِ زمین اور معاوضے کے قانون مجریہ انیس سو تریپن کے زریعے حاصل کی گئی فلسطین کی ترانوے فیصد زمین صیہونی ریاست یا جیوش نیشنل فنڈ کی ملکیت ہے (جیوش نیشنل فنڈ سن انیس سو ایک میں قائم کیا گیا تھا۔ تاکہ عربوں سے زمین خریدنے کے لیے چندہ جمع کیا جا سکے۔ یہ ایک ٹیکس فری ادارہ ہے اور ہزاروں ایکڑ غصب شدہ زمین کا مالک ہے)۔
سنیچر انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کے دن جب باون رکنی اقوامِ متحدہ نے سوویت یونین اور امریکا کی حمائیت سمیت تیرہ کے مقابلے میں چھتیس ووٹوں سے فلسطین کو دو حصوں میں بانٹا تو اڑتالیس فیصد زمین فلسطینی اکثریت کو اور باون فیصد زمین یہودی اقلیت کو دے دی گئی۔ جن تین ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ان میں فلسطین پر قابض " بالفور ڈکلریشن " کا خالق برطانیہ بھی شامل تھا۔
مگر اسرائیل کے وجود میں آنے کے پانچ برس کے اندر اندر فلسطینیوں کو ملنے والی اڑتالیس فیصد زمین سکڑ کے محض ساڑھے تین فیصد تک رہ گئی ہے۔ یہ زمین تین سو انچاس عرب اکثریتی دیہاتوں اور قصبوں سے " قانوناً " ہتھیائی گئی۔ صرف اڑسٹھ فلسطینی گاؤں اس ریاستی ڈاکے سے بچ پائے مگر وہ بھی چوطرفہ یہودی آبادیوں سے گھیر لیے گئے۔
زمین کے انتظام و انصرام کے قانون مجریہ انیس سو پینسٹھ کے تحت ریاستی کونسل میں سرکار کے علاوہ جیوش ایجنسی، یہودی مذہبی اداروں اور جیوش نینشل فنڈ کی نمایندگی ہے۔ کسی مقامی عرب شہری یا تنظیم کو اس کونسل میں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔
جاری ہے۔۔