غزہ کی تباہی اور فوجیوں کی گواہی
اسرائیل میں گنتی کے جو چند اخبارات و جرائد غزہ کی حقیقی تصویر کشی کے لیے کسی حد تک کوشاں ہیں ان میں روزنامہ ہارٹز اور نائن سیون ٹو میگزین نمایاں ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں غزہ میں لازمی فوجی ڈیوٹی انجام دے کر سبکدوش ہونے والے چھ اسرائیلیوں نے نائن سیون ٹو میگزین سے اپنے " ٹور آف ڈیوٹی " کے بارے میں کھل کے جو باتیں کیں ان کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے تاکہ آپ اپنی رائے خود قائم کر سکیں۔
ان فوجیوں کے مطابق " ہمیں اجازت تھی کہ کسی بھی عمر حلیے اور جنس کا مقامی باشندہ ہمارے اعلان کردہ "ممنوعہ علاقے " کے قریب پھٹکے تو اسے بلا تامل اڑایا جا سکتا ہے۔ "
بمباری، گولہ باری اور فائرنگ سے مرنے والوں کی لاوارث لاشیں گلیوں اور شاہراہوں پر پڑی رہتی ہیں۔ انھیں گلنے سڑنے یا بھوکے جانوروں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جن راستوں سے بین الاقوامی امدادی رسد کے قافلوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ بس ان راستوں پر پڑی لاشوں یا ان کے باقیات کو بلڈوزروں سے جمع کرکے ان پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تاکہ قافلے والوں کی نظر نہ پڑے۔
کئی مرتبہ ایسے شہریوں کو بھی مارا گیا جو امدادی ٹرکوں سے گرنے والے اناج کو جمع کرنے کے لیے ممنوعہ لائن عبور کر بیٹھے۔ ان کی حالت سے لگ رہا تھا کہ وہ بھوک کے ہاتھوں کتنے بے بس ہیں کہ اپنی جان کا خطرہ مول لینے سے بھی نہیں ہچکچا رہے۔ مگر انھیں خطرے کی لائن عبور کرنے کی سزا گولیوں سے نکلنے والی موت کی صورت میں ملتی ہے۔
جس گھر کے بارے میں شبہہ ہو کہ اس کا تعلق کسی مشتبہ حماسی سے ہے۔ اس کے مکینوں کو باہر نکال کے گھرجلا دیا جاتا ہے۔ فوجی اپنی بوریت یا فرسٹریشن کم کرنے کے لیے بھی بلاوجہ گولیاں چلاتے ہیں۔ اس فائرنگ سے بھلے کوئی بھی مرجائے۔
فوجی یونٹوں کو تحریری ہدایات نہیں دی جاتیں کہ کن حالات میں گولی چلانی ہے۔ یہ سب فوجی کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر خطرے کی نوعیت کا اندازہ لگا کے خود فیصلہ کرے کہ اسے اپنے تحفظ کے لیے کیا کارروائی کرنی ہے۔
تحریری احکامات نہ ہونے کے سبب کئی یونٹوں نے غلط فہمی میں ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر متعدد بار فائرنگ کی۔ اس " فرینڈلی فائر " کے نتیجے میں اب تک تیس سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تین یرغمالی بھی ایسے فائر کی زد میں آئے حالانکہ ہاتھ میں سفید جھنڈا تھا مگر انھیں حماسی سمجھ کے مار ڈالا گیا۔ تاہم غیر معمولی جنگی حالات کو جواز بنا کر ایسے واقعات کی سنجیدہ چھان بین سے عموماً گریز کیا جاتا ہے تاکہ لڑائی میں مصروف فوجیوں کا مورال کم نہ ہو۔
مقامی باشندے اگر اتفاقاً یا غلطی سے بھی کسی اسرائیلی یونٹ کے قریب پھٹکیں تو انھیں خبردار کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کے بجائے سیدھی گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ مثلاً نومبر میں غزہ شہر کے علاقے زیتون کے ایک اسکول میں موجود پناہ گزینوں کو فوراً نکلنے کا حکم یہ کہہ کر دیا گیا کہ صرف بائیں جانب بھاگیں اور دائیں طرف بڑھنے کی کوشش نہ کریں جہاں اسرائیلی فوجی کھڑے ہیں۔
اچانک اسکول کے اندر سے فائرنگ کی آواز آئی اور نہتے لوگوں نے بدحواسی میں بھاگنا شروع کردیا۔ جو لوگ دائیں بھاگے انھیں اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں ماریں اور یوں پندرہ سے بیس مرد، عورتیں اور بچے آناً فاناً لاشوں میں تبدیل ہو گئے۔
" نائن سیون ٹو میگزین " سے بات کرنے والے چھ میں سے ایک اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ حماس کے چھاپہ مار بھی ہجوم میں شامل ہو جاتے ہیں لہٰذا ہمارے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کون سویلین ہے اور کون لڑاکو۔ ہمیں پندرہ سے پچاس برس کی عمرتک کے ہر شخص پر شبہہ ہوتا ہے کہ یہ حماسی چھاپہ مار ہے۔ جو بھی گھر سے باہر بلاوجہ موجود ہے وہ ایک جائز ہدف سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم خطرے کی تفصیلی جانچ کیے بغیر اپنے دفاع میں گولی چلا سکتے ہیں۔
خود جن علاقوں کو اسرائیل نے محفوظ قرار دے کر لاکھوں فلسطینیوں کو اب تک درجن بار نقلِ مکانی کا حکم دیا۔ ان علاقوں میں بھی فلسطینی محفوظ نہیں۔ مثلاً المواسی کے ساحلی علاقے کو محفوظ زون قرار دے کر خان یونس شہر کے لاکھوں پناہ گزینوں کو وہاں جانے کا حکم ملا اور پھر اسی المواسی پر اندھا دھند بمباری کرکے سو سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور تین سو کو زخمی کر دیا گیا۔ بہانہ یہ تراشا گیا کہ المواسی میں حماس کی اعلیٰ قیادت کے دو ارکان چھپے ہوئے ہیں۔ مگر جو لاشیں دریافت ہوئیں ان میں اسرائیل کو مطلوب کوئی لیڈر نہیں تھا۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے تھے۔
کسی علاقے کا محاصرہ کرنے والی بٹالین کا کمانڈر ماتحتوں کو واضح ہدایات جاری کر بھی دے تب بھی ضروری نہیں کہ ان کی مکمل پیروی ہو۔ اکثر ماتحت ایکشن کے دوران اپنی مرضی کے مالک بن جاتے ہیں مگر غیر معمولی جنگی حالات کو جواز بنا کر ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں ہوتی۔ چنانچہ غزہ میں برسرپیکار یونٹوں کا ڈسپلن خاصا ڈھیلا ہے۔
جن چھ فوجیوں نے " نائن سیون ٹو " میگزین سے گفتگو کی۔ ان میں سے ایک چھبیس سالہ فوجی یووال گرین کا تعلق " پچپن پیراٹروپر یونٹ " سے ہے جس نے نومبر اور دسمبر میں غزہ میں جنگی کارروائی میں حصہ لیا۔ یووال گرین واپسی پر استعفی دے کر ان اکتالیس فوجیوں میں شامل ہوگیا جنھوں نے رفاہ پر حملے کے خلاف بطور احتجاج لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ حکم عدولی کے جرم میں ان فوجیوں کا کورٹ مارشل بھی ہو سکتا ہے مگر بقول یووال ہم ہر سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔ لیکن ہم نے وہاں جو کچھ دیکھا اس کے بعد ہم فوج میں واپس نہیں جا سکتے۔
یووال گرین کے بقول فوج بلا ضرورت بھی ہر طرح کے اسلحے کا بے تحاشا استعمال کرتی ہے۔ مثلاً یہودیوں کے مقدس تہوار ہنوکا کی خوشی میں رات کو ایمونیشن ہوا میں اندھا دھند داغ کر اس کی روشنی میں جشن منایا گیا۔
جب بھی کسی فضائی حملے میں کوئی عمارت منہدم ہوتی ہے تو گراؤنڈ پر موجود فوجی یونٹ میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ کئی تو ناچنے لگتے ہیں۔ لگتا ہے گویا اصلی نہیں بلکہ کسی کمپیوٹر گیم میں نظر آنے والی انسانوں سے خالی عمارت گری ہے۔
گزشتہ مئی میں غزہ میں ڈیوٹی دینے والے جن فوجیوں نے اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کی ایک جانچ کمیٹی کو اپنے بیانات قلمبند کروائے۔ ان میں ایک بلڈوزر ڈرائیور بھی تھا۔ اس نے بتایا کہ " میں نے اپنے بلڈوزر سے سیکڑوں زندہ اور مردہ دھشت گردوں کو کچل دیا "۔
اس ڈرائیور کے ایک ساتھی نے مسلسل ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے چند دن پہلے خودکشی کر لی۔