فلسطینی شناخت کے چار استعارے
نسل پرست صیہونی نظریے کے بانی تھیوڈر ہرزل کے نزدیک جوڈیا سماریا (فلسطین کا قدیم توراتی نام) ایک غیر آباد ٹکڑا ہے جو زمین سے محروم گروہ (اہلِ یہود) کی جنم بھومی ہے۔
آنجہانی اسرائیل وزیرِ اعظم گولڈا مائر کے بقول " کون سے فلسطینی؟ ہماری جڑیں تو یہاں ساڑھے تین ہزار سال سے ہیں۔ ہمیں بے دخل کرنے کے بعد ہی عربوں (فلسطینیوں) کو اس جگہ بسایا گیا۔ تو پھر یہاں کا اصل مالک کون ہوا؟"۔
چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل اگر غیر آباد زمین پر بنا تو پھر وہ ساڑھے سات لاکھ انسان کون تھے جنھیں انیس سو اڑتالیس تا پچاس اور پھر ڈھائی لاکھ کو انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد اپنے گھروں اور زمینوں سے بندوق کی نوک پر کھدیڑا گیا؟ اور وہ تئیس لاکھ انسان کہاں سے آئے جنھیں اب غزہ سے بے دخل کرنے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔
اگر یہ کوئی ایسا " قابض " گروہ تھا جس نے اصل بنی اسرائیل کے گھروں اور املاک پر صدیوں پہلے قبضہ کر لیا تو پھر یہاں بیسویں صدی میں آنے والے تین ہزار برس قدیم یہودیوں کے وارثوں نے کن لوگوں کے سیکڑوں قصبے اور دیہات اور ہزاروں گھر مٹا دیے۔ وہ انھی گھروں میں کیوں نہ رہے کہ جن پر بقول صیہونی نظریہ سازوں کے " غاصب عرب " بسے ہوئے تھے؟ اور وہ فلسطین اور فلسطینی جن کا بائبل میں ذکر ہے وہ پھر کون تھے؟ کیا وہ مریخ سے اترے تھے؟ یا پھر انھیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟
صیہونی منطق بالکل ویسی ہے جیسے میں اپنی دونوں آنکھیں میچ کے کہوں کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں؟ باقی دنیا مان لے گی؟ ہاں مان لے گی اگر باقی دنیا صرف امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی سامراجی طاقتوں پر مشتمل ہو جنھوں نے دنیا میں جگہ جگہ کروڑوں مقامیوں کو آبائی زمینوں سے بے دخل کیا اور نسل کشی کی۔ اب یہ سامراج طبیعت ممالک کس منہ سے اسرائیل کی مخالفت کریں جو ہو بہو انھی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ فلسطینی بہت ڈھیٹ ہڈی ہیں اور نہ صرف اپنے مکمل خاتمے کی کوششوں کی مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں بلکہ اپنی علیحدہ شناخت کی نشانیوں کو بھی سنبھال کے رکھے ہوئے ہیں۔
مثلاً سر پر باندھنے کے لیے کالی دھاریوں والا سفید چوکور کفایہ۔ یہ کفایہ سات اکتوبر کے بعد سے بالخصوص فلسطینی مزاحمت کی نمایندہ نشانی کے طور پر دنیا بھر میں اتنا مقبول ہو رہا ہے کہ اس کی مانگ پوری کرنا مشکل ہے۔
اس سفید چوکور کپڑے کے ڈیزائن میں آپ کو فلسطینیوں کی تاریخی جڑوں کو ظاہر کرنے والے زیتون کے پتے، ماہی گیری کے جال اور قدیم تجارتی راستوں کے پیٹرن نظر آئیں گے۔ کفایہ سو برس پہلے تک سر کو ڈھانپنے والا ویسا ہی ایک عام سا کپڑا سمجھا جاتا تھا جسے مشرقِ وسطی میں ہر مقامی باشندہ تیز دھوپ اور بدلتے موسموں کی شدت سے بچنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
مگر کفایہ انیس سو تیس کے عشرے میں فلسطین پر قابض نوآبادیاتی طاقت برطانیہ اور اس کی زیرِ سرپرستی باہر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونی گروہوں کے خلاف مقامی مزاحمت کا استعارہ بن گیا۔ وہ الگ بات کہ باقی دنیا کے لیے یاسر عرفات کفایہ کے برانڈ ایمبیسڈر ثابت ہوئے اور یہ کپڑا ان کے سر کو تکونی شکل میں ڈھانپنے کے سبب فلسطین کی مستقل عالمی شناخت بن گیا۔
فلسطینیوں کی دوسری شناخت زیتون ہے۔ شاعرِ فلسطین محمود درویش کی ایک لائن ہے کہ " اگر زیتون کا درخت خود کو کاشت کرنے والے سخت جان ہاتھوں کو پہچان سکتا تو اس کا تیل آنسوؤں میں بدل جاتا "۔
زیتون انتہائی پتھریلی زمین اور سخت موسم میں پانی کی کمی کے باوجود اگنے والا سرسبز پھل دار درخت ہے۔ اس کی جڑ، تنے، پتے اور پھل سمیت ہر حصے میں شفا ہے۔ ان حیرت انگیز خوبیوں کے سبب ہر فلسطینی کو زیتون میں اپنا وجود نظر آتا ہے۔ اسی لیے لگ بھگ ایک لاکھ فلسطینی خاندانوں کی معیشت کا دار و مدار زیتون پر ہے۔
ان درختوں سے مقامی فلسطینی کاشت کاروں کو سالانہ ایک لاکھ ٹن زیتون ملتا ہے اور اس سے بیس ہزار ٹن تیل حاصل ہوتا ہے۔ گویا زیتون امن اور خوشحالی کا استعارہ ہے۔
آپ کو شاید اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انیس سو چوہتر میں کی جانے والی یاسر عرفات کی پہلی تقریر یاد ہو جس میں انھوں نے کہا تھا کہ " میرے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے میں شاخ زیتون ہے۔ دنیا یہ شاخ میرے ہاتھ سے گرنے نہ دے۔ میں پھر دہراتا ہوں کہ زیتون کی شاخ میرے ہاتھ سے گرنے نہ پائے"۔
چنانچہ زیتون جو بنی اسرائیل کی اس علاقے میں ہزاروں برس پہلے آمد سے بھی پہلے سے کاشت ہو رہا ہے۔ یہودی آبادکاروں کا مسلسل نشانہ ہے۔ انھوں نے سات اکتوبر کے بعد سے بالخصوص فلسطینی زمینوں میں کھڑے ہوئے زیتون کے ہزاروں درخت فوجی سنگینوں کے سائے میں معاشی قتلِ عام کی نیت سے کاٹ ڈالے یا جلا ڈالے۔
جب صدیوں پہلے بنی اسرائیل تتر بتر ہو گئے تو انھوں نے نسل در نسل ایک نعرہ منتقل کیا " اگلے برس جوڈیا سماریا میں"۔ جب اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے زمین غصب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انیس سو اڑتالیس میں نقبہ (قیامت صغری) ٹوٹا اور فلسطینیوں کا قتلِ عام اور گھروں سے نکالنے کا منصوبہ بند عمل شروع ہوا تو لٹے پٹے خاندانوں نے اپنے گھروں کی چابی بھی ساتھ رکھ لی اور اسے نسل در نسل منتقل کرتے رہے۔
یہ چابی اس امید کا استعارہ ہے کہ ایک دن وہ اپنے گھروں کو ضرور لوٹیں گے۔ بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں میں بھی فلسطینیوں کی گھر واپسی کا حق تسلیم کیا گیا ہے اور اسرائیل کو سب سے بڑا خوف یہی درپیش ہے کہ اگر ایک دن ان ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کے غزہ، غربِ اردن، شام، لبنان کے کیمپوں، خلیجی ممالک اور جنوبی امریکا تک بکھرے موجودہ ستر لاکھ وارث گھر لوٹنے میں کامیاب ہو گئے تو صیہونی ریاست کا کیا ہوگا؟
اسی خوف نے اسرائیل کو ایک آدم خور ریاست میں ڈھال دیا ہے۔ فلسطین کی حمایت میں جو احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں ان میں بھی چابی کا نشان لہرایا جاتا ہے۔ فلسطینی مصوری میں چابی خوب خوب استعمال ہوتی ہے۔ ہر فلسطینی کو یقین ہے کہ یہی چابی مستقبل کا دروازہ کھولے گی۔ اسی امید کے سہارے وہ اب تک ثابت قدم ہیں۔
فلسطینی مزاحمت کا چوتھا استعارہ وہ تاریخی نقشہ ہے جو انیس سو سترہ کے اعلانِ بالفور سے آج تک کی جغرافیائی حدود ظاہر کرتا ہے۔ انیس سو سترہ میں یہ نقشہ مکمل طور پر سبز تھا۔ انیس سو اڑتالیس میں یہ آدھا نیلا ہوگیا (نیلا یہودیوں کا مقدس رنگ ہے)۔ انیس سو سڑسٹھ میں سبز سکڑ کے محض بائیس فیصد رہ گیا۔ یہ نقشہ لاکٹ کی شکل میں پہنا جاتا ہے۔ کپڑوں پر پرنٹ ہوتا ہے۔ اور یہ نقشہ مادرِ وطن پر فلسطینیوں کا ٹھوس تاریخی دعوی ہے۔
اس نقشے کو فلسطینی قصبات، دیہاتوں اور گھروں کی طرح کھرچنا اسرائیل کے لیے بھی محال ہے۔ کیونکہ یہ اقوامِ متحدہ کی دستاویزات کا حصہ ہے۔ چنانچہ اس نقشے کی حقیقت سے فرار اور احساسِ جرم کی مستقل کیفیت اسرائیل نفسیات میں خنجر کی طرح پیوست ہے اور یہی خنجر وہ فلسطینی شناخت کے سینے میں اتارنے کی مسلسل کوشش میں غلطاں ہے۔