بھارت اور اسرائیل کی یاری
اب تک دنیا کو یہ تو معلوم تھا کہ امریکا اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اٹلی سمیت یورپی یونین کے آدھے رکن ممالک اسرائیل کی بھرپور سفارتی و فوجی مدد کر رہے ہیں۔ مگر یہ تصدیق نہیں ہو رہی تھی کہ بھارت غزہ میں ہونے والی نسل کشی میں اسرائیل کا کس حد تک مددگار ہے۔ بظاہر بھارت فلسطینی اتھارٹی کو بھی تسلیم کرتا ہے اور دو ریاستی حل کا بھی حامی ہے۔ مگر اب جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت دراصل اسرائیل کا قریبی عسکری ساجھے دار ہے۔
اس کی باقاعدہ تصدیق چھ جون کو ہوئی جب قدس نیوز نیٹ ورک نے غزہ کے نصرت پناہ گزین کیمپ میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام ایک پناہ گاہ پر بمباری سے متعلق ایک وڈیو جاری کی۔ ایک بم کے ٹکڑے پر " میڈ ان انڈیا " لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسرائیل بھارت دفاعی تعاون محض دفاعی تحقیق اور میزائیل و ڈرون سازی تک محدود نہیں بلکہ بھارت غزہ کے معاملے پر بظاہر غیر جانبدار ہونے کے باوجود وہاں پر برسانے کے لیے بم بارود بھی فراہم کر رہا ہے۔
اس خبر سے قبل یہ اطلاع آئی کہ بھارتی بندرگاہ چنائی (مدراس) سے دو اپریل کو روانہ ہونے والا ایک بحری جہاز " بورکم " جس میں بم اور گولے لدے تھے۔ اس جہاز کی شناخت بحیرہ روم میں کی گئی۔ اس کی آخری منزل اسرائیلی بندرگاہ اشدود تھی اور اس میں لگ بھگ پچاس ٹن ایمونیشن لدا ہوا تھا۔ اس جہاز کی رجسٹریشن ایک جرمن کمپنی ایم ایل بی کے نام پر تھی۔
اسی دوران "ماریانا ڈنیکا" نامی ایک اور جہاز بھی ٹریس ہوا جو چنائی سے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ جا رہا تھا اور اس پر ستائیس ٹن ایمونیشن اور فاضل پرزے لدے ہوئے تھے۔ مصدقہ اطلاعات ملنے پر اسپین کے حکام نے دونوں جہازوں کو عارضی بحری قیام کی سہولت دینے سے انکار کر دیا۔ ان جہازوں کے روٹ اور ان پر لدے ہوئے سامان سے متعلق مصدقہ دستاویزات افشا ہونے کے باوجود اسرائیلی اور بھارتی حکومت نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ویسے تو بھارت نے اسرائیل کو انیس سو پچاس میں تسلیم کر لیا تھا۔ مگر باقاعدہ سفارتی تعلقات انیس سو بانوے میں قائم ہوئے جب پی ایل او نے بھی اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کر لیا۔ تب تک بھارت کی خارجہ پالیسی غیر جانبداری کے مدار میں گھوم رہی تھی۔
بھارت پہلا غیر عرب ملک تھا جس نے انیس سو چوہتر میں پی ایل او کو باقاعدہ سفارتی درجہ دیا۔ یاسرعرفات اندرا گاندھی کو بڑی بہن کہہ کے پکارتے تھے۔ مگر نوے کی دہائی میں سرد جنگ کے خاتمے، سوویت یونین کے زوال اور مشرقِ وسطی کے نظریاتی حالات میں تبدیلی کے سبب بھارت کی خارجہ پالیسی نے بھی یو ٹرن لینا شروع کیا اور وہ رفتہ رفتہ روسی کیمپ سے کھسکتا ہوا مغربی کیمپ میں داخل ہوتا چلا گیا اور اس نے روسی اسلحے کو بتدریج مغربی اسلحے سے بدلنے کی پالیسی اپنائی۔
اسرائیل اور بھارت کے تعلقات میں بنیادی موڑ انیس سو ننانوے کی کرگل جنگ کے دوران آیا۔ جب امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے بھارت کو بھاری اسلحے کی فراہمی عارضی طور پر روک دی۔ مگر اسرائیل نے اس موقع پر بھارت کو گولہ بارود، مورٹار اور لیزر گائیڈڈ بموں کی ایک بڑی کھیپ فروخت کرکے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دل میں مستقل جگہ بنا لی۔ ایریل شیرون پہلے اسرائیلی وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے دو ہزار تین میں دہلی کا دورہ کیا۔ ان کے وفد میں کلیدی اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کے عہدیدار بھی شامل تھے۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ دونوں ممالک کی دفاعی آلات بنانے والی کمپنیاں دو ارب ڈالر سالانہ کی تجارت کر رہی ہیں۔ بھارتی فوج اس وقت اسرائیلی ساختہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے براک اور سپائڈر میزائل، فضا سے زمین پر مار کرنے والے پوپی اور سپائک میزائل استعمال کر رہی ہے۔ جب کہ حیدرآباد اور ناگ پور میں اڈانی گروپ اور اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنی ایل بیت مشترکہ طور پر ہیرون نائن ہنڈرڈ ساختہ ڈرونز درشٹی کے نام سے اسمبل کر رہے ہیں۔ درشٹی میں ستر فیصد پرزے بھارتی ہیں۔ یہ ڈرونز دونوں ممالک کی افواج استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ڈرونز بھارت کی چین سے ملنے والی اور پاک بھارت سرحد اور لائن آف کنٹرول کے آس پاس رکھے گئے ہیں۔ بلکہ لائن آف کنٹرول پر مداخلت روکنے کے لیے سنسر آلات، انسانی جسم کی گرمی شناخت کرنے والے دستی تھرمل امیجز آلات اور رات میں دیکھنے والے چشمے بھی ساختہ اسرائیل ہیں۔
فروری دو ہزار انیس میں بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ پر حملے کے دوران اسرائیلی ساختہ سپائس گائیڈڈ بم استعمال کیے۔ بھارتی کمانڈو فورس ساختہ اسرائیل تیوور اور گلیلی رائفلز اور نجف مشین گن اور بی تھری ہنڈرڈ اینٹی ٹینک دستی ہتھیار سے مسلح ہے۔ یہ چھوٹے ہتھیار گوالیار کے قریب ایک مشترکہ فیکٹری میں اسمبل کیے جاتے ہیں۔
بھارت کا دفاعی تحقیقات کا ادارہ آئی ڈی آر ڈی اور اسرائیلی کمپنی آئی اے آئی براک ایٹ میزائیل ڈیفنس سسٹم بنانے میں بھی ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ اس سسٹم کی مار ڈیڑھ سو کلومیٹر کے دائرے میں بتائی جاتی ہے۔
اسرائیل پرانے بوئنگ سیون سکس سیون مسافر بردار طیاروں کو فضائی ری فیولنگ ٹینکس میں تبدیل کرنے میں بھی بھارت کی مدد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل نگرانی کرنے والے طیاروں میں بھی اسرائیلی ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا ہے۔
بھارت میں جب سے نجی کمپنیوں کو بھاری اسلحہ سازی کی اجازت ملی ہے تب سے بھارت فورج، ٹیک مہندرا، اڈانی ایرو سپیس اور ٹاٹا ایڈوانس سسٹمز کا اسرائیلی کمپنیوں ایل بیت، آئی اے آئی اور رفائیل ڈیفنس سے اشتراک تیزی سے بڑھا ہے۔ اس اشتراک کے ذریعے اندرونی و بیرونی عسکری چیلنجوں سے نمٹنے کے آلات و ٹیکنا لوجی کی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں۔
دو ہزار بائیس میں اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گینٹز نے دلی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر دفاعی ٹیکنالوجی اور ریسرچ میں قریبی اشتراک کے دس سالہ معاہدے پر دستخط ہوئے۔ نریندر مودی پہلے وزیرِ اعظم ہیں جنھوں نے بھارت کا دو بار سرکاری دورہ کیا۔ جب کہ نیتن یاہو بھی دو بار دلی جا چکے ہیں۔ سیکڑوں بھارتی ٹیک ماہرین اور ٹیکنیشنز اسرائیلی کمپنیوں میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ بھارت اس وقت ایشیا میں اسرائیل کا سب سے با اعتماد شراکت دار ہے۔
مگر بھارت کا فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ بھی زبانی جمع خرچ کا رشتہ قائم ہے۔ اسرائیل کا جانی دشمن ایران بھارت کا تیسرا بڑا اور خلیج کا سب سے اہم ملک سعودی عرب چوتھا اور امارات پانچواں بڑا اقتصادی ساجھے دار ہے۔ جب کہ اومان میں بھارت کا ایک فضائی اور بحری اڈہ موجود ہے۔
مگر خود ہماری اپنی علاقائی اور خارجہ پالیسی کیا ہے اور کتنی موثر و متوازن ہے؟ ہمارے پاس مشرقِ وسطی کے ممالک کو دینے کے لیے کیا ہے۔ خطے میں بھارت کی انتہائی متحرک خارجہ پالیسی کے توڑ کے لیے ہماری حکمتِ عملی کیا ہے؟ اس بارے میں کس سے پوچھیں اور پوچھنے پر بتائے گا کون؟