اپنی بجلی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
شمسی توانائی کے پینلز اور بادبانی بجلی بنانے والے پنکھ ٹربائنز کی قیمتیں پچھلے دو برس میں تقریباً پچاس فیصد کم ہوئی ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پہلی بار دنیا میں ہوا، شمسی روشنی، پانی اور ایٹم سے پیدا ہونے والی مجموعی برقی پیداوار تیل گیس اور کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار کے مقابلے میں سالانہ ساڑھے تین فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔
توانائی تحقیق سے متعلق سرکردہ برطانوی تھنک ٹینک " ایمبر " کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں تیس فیصد بجلی کاربن سے پاک ذرایع سے پیدا ہو رہی ہے۔ اس کی پیداوار کس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ گزشتہ برس پانچ سو تیرہ ٹیرا واٹ بجلی ماحولیات دوست وسائل سے پیدا ہوئی۔ اس برس ان ذرایع سے بارہ سو اکیس ٹیرا بائٹ برقی پیداوار حاصل ہوگی۔ گویا ایک برس میں دگنے سے بھی زیادہ بڑھوتری۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگلی دہائی میں کوئلے، گیس اور ڈیزل سے چلنے والے بجلی پلانٹس کا بوریا لپٹ جائے گا؟ کیا بجلی کے لیے آنے والے برسوں میں عام آدمی کو سرکاری یا کسی نجی ادارے کی محتاجی نہیں ہوگی؟ کیا " اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے " کا اقبالی مصرعہ " اپنی بجلی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے" سے بدلنے والا ہے؟ ان سوالوں میں سے کسی کا جواب بھی نفی میں نہیں۔ دو ہی جواب ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہونے والا ہے یا شاید ایسا ہی ہونے والا ہے۔
جب دو ہزار گیارہ میں جاپان میں آنے والے سونامی کے سبب فوکوشیما جوہری پلانٹ بند کرنا پڑا تو یورپ کے سب سے طاقتور ملک جرمنی میں بھی جوہری توانائی کے پلانٹ بند کرنے کے لیے عوامی دباؤ اتنا بڑھا کہ سرکار نے جوہری بجلی گھروں کو بند کرکے ایٹمی بجلی کے خسارے کو روسی گیس سے چلنے والے بجلی گھروں سے بھرنے کا منصوبہ بنایا۔ مگر اس خلا کو گیس اور تیل کے بجائے بائیو گیس، شمسی توانائی اور بادبانی بجلی کے شعبے نے تیزی سے بھرنا شروع کر دیا۔ اور یہ کایا کلپ چین کے طفیل ہوئی۔
چین بھی عجیب ملک ہے۔ ایک جانب تو عالمی صنعتی آلودگی میں اس کا حصہ انتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یعنی عالمی درجہِ حرارت میں ہونے والے اضافے میں چین کا حصہ تقریباً تیس فیصد ہے۔ دوسری جانب یہی چین تیل، گیس اور کوئلے کے متبادل ماحولیات دوست قدرتی وسائل سے توانائی کی عالمی ضروریات پوری کرنے کی دوڑ میں دیگر ممالک سے کوسوں آگے نکل گیا ہے۔
اس وقت دنیا میں جتنے بھی سولر پینل استعمال ہو رہے ہیں ان میں سے آدھے چین میں نصب ہیں اور جتنے بھی ونڈ ٹربائن فعال ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد چین میں ہوا سے بجلی بنا رہے ہیں۔ سولر پینلز کی پچاسی فیصد عالمی پیداوار چین سے آ رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ہیٹنگ کو شمسی و بادبانی توانائی پر منتقل کرنے کے معاملے میں چین دنیا کا امام بن چکا ہے۔
مغربی گرین ٹیکنالوجی کے مقابلے میں چینی ٹیکنالوجی یوں بھی سستی ہے کیونکہ حکومت گرین آلات ساز کمپنیوں کو لاگت کم رکھنے کے لیے بھاری سبسڈی دے رہی ہے۔ مقصد ایک ہی ہے کہ اس شعبے میں غیر ملکی کمپنیوں کو مکمل مات دے دی جائے۔ یوں مستقبل کی توانائی ضروریات کی کنجی چین کے ہاتھ میں ہو۔ شاید چین مغربی ممالک کی تیل سیاست سے سبق لے چکا ہے کہ دنیا اسی کی ہے جس کے ہاتھ میں انرجی کی چابی ہے۔
اس وقت توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہ صرف ترقی پذیر بلکہ اکثر ترقی یافتہ دنیا کا بھی بھاری بجٹ تیل، گیس اور کوئلے کی خریداری میں صرف ہو جاتا ہے۔ اگر یہ خرچہ کسی طرح آدھا ہو جائے تو اس پیسے کو دیگر معاشی شعبوں کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔ مثلاً یورپی یونین میں شامل ملک یونان کا کیس لے لیں جو دو ہزار دس میں معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گیا اور اسے بچانے کے لیے یورپی یونین کو بھاری قرضوں کا انجکشن لگانا پڑا۔
مگر یونانیوں نے اس قرض کو آمدنی نہیں سمجھا بلکہ اس سے اپنی معیشت کو سدھارنے کی سنجیدہ اصلاحاتی کوشش کی۔ حاصل شدہ مہلت میں توانائی کے شعبے میں ترجیحات کو بھی ازسرِ نو ترتیب دیا گیا۔ چنانچہ آج یونان کی ستاون فیصد بجلی تیل اور گیس کے بجائے شمسی توانائی اور دیگر ماحول دوست ذرایع سے حاصل ہو رہی ہے۔ اگلے چھ برس میں ملک کی صرف بیس فیصد بجلی تیل اور گیس سے پیدا ہوگی۔
یورپی یونین نے انرجی کے روایتی ذرایع میں مزید سرمایہ کاری کے بجائے گرین توانائی کو فروغ دینے والے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے دو سو نوے ارب ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ جب کہ امریکا نے اس مقصد کے لیے سات سو تراسی بلین ڈالر مختص کر دیے ہیں۔ اگلے دس برس میں دنیا کے آدھے ممالک کی نصف توانائی ضروریات بھی سورج، ہوا اور پانی سے پوری ہوگئیں تو تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی انرجی ویٹو پاور چین کو منتقل ہو جائے گی۔
ہوا، پانی، سورج، آتش فشاں پہاڑوں اور زمین سے نکلنے والی بھاپ (جیو تھرمل انرجی) کے ذریعے توانائی کے شعبے میں خودکفالت کی منزل حاصل کرنا اب کوئی خواب نہیں رہا۔ آئس لینڈ کی ستاسی فیصد توانائی ضروریات پن بجلی، ہوا کے ٹربائنز اور جئیو تھرمل سے پوری ہو رہی ہے۔
ناروے نہ صرف شمسی توانائی، ہوا اور پانی سے انرجی کشید کرنے والا سب سے بڑا یورپی ملک ہے بلکہ اپنی بہتر فیصد ضروریات بھی انھی ذرایع سے پوری کر رہا ہے۔ سویڈن اکیاون فیصد توانائی ضروریات، برازیل سینتالیس فیصد، نیوزی لینڈ اکتالیس فیصد، ڈنمارک چالیس فیصد، آسٹریا اڑتیس فیصد، سوئٹزرز لینڈ سینتیس فیصد اور فن لینڈ پینتیس فیصد توانائی ضروریات پوری کرنے میں تیل، گیس اور کوئلے کی زنجیر سے آزاد ہو چکا ہے۔
پاکستان کی ساٹھ فیصد توانائی ضروریات تیل، گیس اور کوئلے جیسے روایتی ایندھن سے اور چالیس فیصد پانی، ہوا، سورج کی روشنی اور ایٹمی توانائی سے پوری ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں سال کے اوسطاً دس ماہ سورج پوری طرح چمکتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں کئی قدرتی بادبانی کاریڈورز ہیں جن سے سال بھر بجلی مل سکتی ہے۔
اس ملک کو مہنگے اور آلودہ روایتی توانائی زرایع سے چھٹکارا پانے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ سوائے اس کے کہ روایتی زرایع سے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے کیسے جان چھڑائی جائے جنھوں نے اس ملک کے گلے میں ڈھائی ٹریلین ڈالر کے گردشی قرضے کا طوق ڈال رکھا ہے اور پاکستان کی معیشت کے لیے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی بن گئی ہیں۔
اگر یہ رکاوٹ دور ہو جائے تو پاکستان ایک برس میں ہی خودکفیل ہو سکتا ہے اور مہنگی بجلی کے سبب مفلوج صنعتوں کے جامد پہیے میں بھی زندگی پھونک کر نہ صرف برآمدات بڑھانے کا خواب پورا ہو سکتا ہے بلکہ مہنگے تیل، کوئلے اور گیس پر صرف ہونے والا زرِ مبادلہ کسی ڈھنگ کے شعبے میں بھی خرچ کر سکتا ہے۔ مگر سنا ہے کہ تیل اور گیس کی لابی اتنی ہی طاقتور ہے جتنا امریکی محکمہ خارجہ۔