وفاق اورسندھ کا مشترکہ پلان،کراچی کے مسائل کا حل
کراچی میں ڈیڑھ دن بارش ہوئی۔ 21 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے اور آدھا شہرگھنٹوں اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بعض علاقوں میں چار دن بعد بجلی بحال ہوئی۔ محکمہ موسمیات نے اگست کے مہینے میں زیادہ خوفناک بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ کیا اگست میں متوقع بارشوں میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی؟ وزیر اعلیٰ، توانائی کے وفاقی وزیر اور شہر کے میئر ان میں سے کون اس سوال کا جواب دے گا؟ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب سے اب محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں درست ثابت ہونے لگی ہیں۔
محکمہ موسمیات نے کئی ہفتے قبل پیشگوئی کی تھی کہ 28 اور 29 جولائی کو کراچی میں زبردست بارشیں ہوںگی۔ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کی بنیاد پر صوبائی حکومت، کے الیکٹرک اور بلدیہ کراچی کے لیے متوقع بارشوں سے نمٹنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کا اچھا موقع تھا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے شہر میں جمع ہونے والے کوڑے کے ڈھیروں اور نالوں کی صفائی کے احکامات جاری کیے۔ وزیر بلدیات سعید غنی متحرک ہوئے اور کمشنر کراچی نے متعدد اجلاس منعقد کیے۔ کہا جاتا ہے کہ کے الیکٹرک، کراچی واٹر بورڈ اور دیگر اداروں کو ہدایات جاری کی گئیں۔
حکومت نے نالوں کی صفائی کے لیے فنڈز جاری کیے۔ 28 اور 29 جولائی کو 164 ملی میٹر بارش ہوئی۔ یہ بارش محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے برعکس بہت تیز نہیں تھی مگر اسی دن علی الصبح شروع ہونے والی بارش رات گئے تک جاری رہی۔ بارش کے آغاز کے چند گھنٹوں میں شہرکے بیشتر علاقوں میں بجلی کی سپلائی معطل ہوگئی۔ نالوں، سڑکوں اور گلیوں میں پانی جمع ہونے لگا۔
بارش کے ساتھ آندھی نہیں چلی مگر بجلی کے تار ٹوٹ کر گرگئے۔ کے الیکٹرک والے اپنے نظام کو جدید بنانے کے دعوے توکرتے ہیں مگر بجلی بیچنے والوں کے پاس تار ٹوٹتے ہی بجلی منقطع ہونے کا خودکار نظام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کا پانی مختلف علاقوں میں جمع ہوا اور بجلی کے ٹوٹے تاروں سے کرنٹ پھیلا اور قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔ پھر بجلی بند ہونے سے مختلف علاقوں میں پانی کی سپلائی منقطع ہوگئی۔ بجلی بند ہونے سے ٹی وی اسکرین بے جان ہوئے۔ عوام سوشل میڈیا پر جھوٹے مواد پر یقین رکھنے پر مجبور ہوئے۔ کراچی میں بارش شروع ہوتے ہی اندرون سندھ بارشیں شروع ہوگئیں۔ ضلع دادو اورکھیرتھر کے پہاڑی سلسلہ میں خاصی بارش ہوئی۔
بارشوں کا پانی گڈاپ کے علاقے سے کراچی میں داخل ہوتا ہے۔ گڈاپ میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے تھڈو ڈیم تعمیر ہوا ہے، جب بھی کھیرتھرکے پہاڑی سلسلہ اورگڈاپ کے علاقے میں زوردار بارش ہوتی ہے تو یہ ڈیم بھرجاتا ہے۔ مگر مسلسل بارشوں کی بناء پر پانی کے ریلے سے ملیرکینٹ، کراچی اسکیم 33، سعدی ٹاؤن، گارڈن، سعدی گارڈن اور اطراف کی بستیاں متاثر ہوئیں۔ پھر یا اس کا پانی ملیر ندی کو لبالب بھر دیتا ہے یا شہر کے کئی علاقوں میں سڑکیں پانی میں ڈوب جاتی ہیں اور اطراف کی بستیوں میں پانی داخل ہو جاتا ہے۔ ماہرین اس کو اربن فلڈ کا نام دیتے ہیں۔
2006، 2011، 2012، 2013 اور 2017 میں اربن فلڈ آنے سے شہریوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ 2017 میں سیلابی پانی سپرہائی وے کو عبور کرتا ہوا سعدی ٹاؤن کے گھروں میں داخل ہوگیا تھا۔ پانی کے ریلے کا پریشر اتنا زبردست تھا کہ 10کلومیٹر دور پی آئی اے سوسائٹی اور بھٹائی آباد تک پہنچ گیا تھا۔ اس سیلابی ریلے سے سعدی ٹاؤن اور اطراف کی بستیوں میں آباد ہزاروں افراد اپنے زندگی کے سامان سے محروم ہوئے تھے اور قیمتی جانیں ضایع ہوئی تھیں۔
دو سال قبل اس سیلابی ریلے کی وجوہات کے بارے میں ماہرین نے ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سعدی ٹاؤن اور اطراف کی بستیاں پانی کی قدرتی گزرگاہ پر تعمیر ہوئی ہیں۔ انتظامیہ نے ملیرکینٹ کے علاقے میں پانی کی نکاسی کے جامع انتظامات کیے مگر اسکیم نمبر 33 کے علاقے کو اس پانی سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیلابی پانی سے اسکیم نمبر 33 میں آباد بستیوں اور مویشی منڈی میں تباہی مچادی۔ سعدی ٹاؤن میں بارش کے تیسرے دن پانی داخل ہوا۔
ایک صحافی نے سپر ہائی وے پر لگنے والی مویشی منڈی کو دنیا کی سب سے بڑی دلدل والی منڈی قرار دیدیا۔ شہر میں کوڑے کے اٹھانے کا نظام برسوں سے مفلوج ہے اور شہر کے ہر علاقے کی سیوریج کی لائنیں ناکارہ ہوچکی ہے۔ بارش نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ کوڑے کی بدبو دور دور تک پھیل گئی اور بارش کا پانی سیوریج لائن کے پانی کے ساتھ مل گیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری فوارہ چوک جیسے ریڈ زون کے علاقے اس پانی سے متاثر ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اربن فلڈ کا مستقل حل نکالنا اشد ضروری ہے۔
اس پانی کوگڈاپ اور سپر ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے چھوٹے بڑے تالاب اور چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر ہوسکتے ہیں اور ان تالابوں اور ڈیموں سے بجلی پیدا کرنے کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ کراچی کی گزشتہ 20 برسوں سے رپورٹنگ کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12 برسوں میں پانی کی نکاسی اور بجلی کی فراہمی کی صورتحال خاصی بہتر ہوئی ہے۔ 10 سال پہلے شہر کی سب سڑکیں پانی میں ڈوب جاتی تھیں۔ آئی آئی چندریگر روڈ، ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل پر دریا چلتا ہوا محسوس ہوتا تھا مگر اب بہت سے علاقوں میں بارش ختم ہونے کے بعد گھنٹوں بعد پانی کو نکاسی کا راستہ مل گیا۔ پھرکئی علاقوں میں بارش کے دوران بجلی کی سپلائی منقطع نہیں ہوئی۔ ان علاقوں میں گلشن اقبال کا بیشتر حصہ، گلستان جوہر اور کھوکھراپار کے علاقے کا کوثر ٹاؤن شامل ہے۔
سندھ میں گزشتہ 10 برسوں سے صوبائی حکومت اور بلدیہ کراچی میں ایک رسہ کشی کی صورتحال ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیہ کراچی سے بلڈنگ کنٹرول، واٹر بورڈ اورسالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ اور بلدیہ کراچی کو ملنے والے فنڈز میں نمایاں کمی کردی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کے کوڑے اور سیوریج کا مسئلہ قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو صوبائی حکومت اور بلدیہ کراچی کے میئر کے مابین جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ آدھے شہر کو پانی نہیں ملتا۔ کوڑے کے ڈھیر اور سوریج کے نظام کی معطلی کی ذمے داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد سیاسی منظر نامے میں تبدیلی آئی ہے۔ شہرکی قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔
ایم کیو ایم تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ صدر پاکستان اور تین وفاقی وزراء کراچی کی زبوں حالی کی ذمے داری پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ اب وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا ہے کہ کراچی کو بچانے کے لیے وفاق بلدیہ کراچی کو براہِ راست فنڈز دے گا۔ وفاقی وزراء نے کراچی میں صفائی کی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ یہ صورتحال صوبائی خود مختاری کے اصولوں کے منافی ہے مگرکراچی کے عوام کی اکثریت اس غیر آئینی اقدام کی حمایت کرے گی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کراچی کو پانی کی فراہمی، سیوریج اور پانی کی نکاسی جیسے معاملات بلدیہ کراچی کے سپرد کرنے چاہئیں تاکہ بلدیاتی ادارے اس معاملہ کو حل کریں۔ وفاق کو صوبائی حکومت کے توسط سے بلدیہ کراچی کو گرانٹ دینی چاہیے۔ وفاقی حکومت کو کے الیکٹرک کو مجبورکرنا چاہیے کہ کرنٹ سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے اور کے الیکٹرک کو چاہیے کہ وہ اپنے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرے۔ اس مقصد کے لیے قانون نافذ ہونا چاہیے۔
اس دفعہ صرف وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور وزیر بلدیات سعید غنی متحرک رہے۔ سندھ کابینہ کے باقی وزراء لاپتہ رہے۔ ساری ذمے داری بیوروکریسی کی بن گئی۔ کراچی میں بارشوں کے متاثرین کی داد رسی کے لیے تمام وزراء کو فعال ہونے چاہیے تھا، یوں عوام کی شکایات جلدی حل ہوتیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر کے مسائل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے حل ہوسکتے ہیں۔ دونوں حکومتوں کی چپقلش سے صورتحال مزید خراب ہوگی۔ اگست میں متوقع بارشوں سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایکشن پلان تیارکرنا چاہیے۔