وادئ نیلم کے مکینوں کا خواب
وادئ نیلم دنیا کی خوبصورت وادیوں میں سے ایک ہے۔ باسیوں کا خواب ہے کہ وادی میں کبھی بارود کی بو نہ پھیلے، اس علاقے کے رہنے والے کنٹرول لائن پر فائرنگ سے شہید نہ ہوں۔
وادی کو سیاحوں کے لیے پرکشش بنانے کے لیے یہاں جدید ہوٹل اور ریزورٹ تعمیر ہوں۔ نئی ٹیکنالوجی G3 اور G4 کے استعمال پر پابندی ختم ہوجائے۔ جدید ترین سڑکیں اور پل بھی تعمیر ہوں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر ہوں گی تو یہاں کے باسیوں کو علاج کے لیے اسلام آباد نہیں جانا پڑے گا، یوں بھنبھیر سے باغ تک 750 کلومیٹر طویل کنٹرول لائن پر امن ہوجائے گا۔
وادئ نیلم کے باسیوں نے چند دن قبل پاکستان اور بھارت کے فوجی افسروں کے درمیان دوطرفہ سیزفائرکے معاہدہ کے بعد دوبارہ اپنے علاقے کی ترقی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیرکی حکومت کے وزیر چوہدری طارق فاروق کا کہنا ہے کہ 2016 سے اس علاقے میں بھارت کی جانب سے روزانہ فائرنگ ہوتی تھی۔ گزشتہ سال بھارتی فوج کی فائرنگ سے 33 شہری شہید ہوئے اور 250 زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح 2019 میں 59 افراد شہید اور 281 زخمی اور 2018 میں 28 افراد شہید اور 172 زخمی ہوئے تھے۔
جب سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں 2003ء میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا تو وادئ کشمیرکے دونوں طرف تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں۔ مظفر آباد سے سری نگر بس اور ٹرک جانے لگے تھے، یوں ایک طرف کشمیرکے دونوں طرف آباد خاندان متعلقہ ڈپٹی کمشنرکے پرمٹ پر اپنے رشتہ داروں سے ملنے آنے جانے لگے تھے تو بس سروس کے شروع ہونے کے بعد ایسے خاندانوں کے افراد اپنے پیاروں سے مل سکے جن سے وہ ستر سال پہلے بچھڑگئے تھے۔
پھر دونوں طرف کے وہ بزرگ بھی اپنے آبائی علاقوں میں آئے اور خاندانی جگہوں کو دیکھا اور اپنے چند دوستوں سے ملاقاتیں کی تھیں، یوں کئی بزرگوں کی آخری عمر میں اپنے آبائی علاقہ کو دیکھنے کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔ کشمیرکے دونوں حصوں کے درمیان تجارت شروع ہوگئی تھی۔
روزانہ کئی درجن کنٹینر آزاد کشمیر میں داخل ہوتے، تازہ سبزی، پھل، میوہ جات، شالیں اور دیگر ملبوسات ان کنٹینروں کے ذریعہ لوگوں کو میسر آتے تھے۔ اس نظام میں ایک خرابی تھی کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے آنے والے ٹرک اسلام آباد میں سامان اتارتے تھے، یوں کشمیرکے مختلف علاقوں میں یہ سامان دیر سے پہنچتا تھا۔
جب مودی حکومت نے اپنے زیرِ تسلط کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی اور بھارتی یونین کے آئین کی شق 370 کو ختم کیا گیا جس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی اور دیگر علاقوں کے لوگوں کو وادئ میں جائیداد خریدنے کی اجازت دیدی گئی اور پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کیا گیا جس کے ساتھ ہی ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی معطل کردی گئی، بھارتی حکومت کے اس غیر آئینی فیصلہ پر مزاحمت پرکشمیری رہنماؤں اور کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا تھا۔
حکومت پاکستان نے احتجاجاِ دہلی سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلایا تھا اور اسلام آباد میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر واپس دہلی چلے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مظفر آباد سری نگر بس اورکنٹینر سروس، لاہور اور دہلی کے درمیان چلنے والی دوستی بس، لاہور اور دہلی کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس اورکراچی سے راجھستان جانے والی تھر ایکسپریس بند کردی گئی تھی۔ اس طرح دونوں ممالک نے ہوائی سفر پر پابندیاں لگا دیں۔ یوں تمام قسم کی تجارتی سرگرمیاں معطل ہوگئی تھیں اورکنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ انتہائی حد تک بڑھ گیا تھا۔
اس دوران پاکستان اور بھارتی فضائیہ کے درمیان ڈاگ فائٹ ہوئی اور ایک بھارتی پائلٹ جس کا طیارہ پاکستانی علاقہ میں گرا تھا کو گرفتارکیا گیا۔ حکومت پاکستان نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی پائلٹ کو رہا کردیا تھا۔ اس طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ سفری اور تجارتی سرگرمیوں پر پابندی ملک کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستانی ادویات کی انڈسٹری کا انحصار بھارت سے درآمد ہونے والے خام مال پر ہے۔ یہ خام مال کی درآمد بند ہونے سے ان کمپنیوں کو یورپی اور چین سے یہ خام مال خریدنا پڑا تھا۔ بعض جان بچانے والی ادویات مثلاً کتے کے کاٹے کے علاج کی ویکسین بھارت میں تیار ہوتی ہے۔ یہ ویکسین سستی اور زیادہ مؤثر ہے۔ پابندی کی بناء پر ملک میں اس ویکسین کی قلت پیدا ہوئی تھی۔
حکومت پاکستان کو اپنے فیصلہ میں ترمیم کرنی پڑی تھی اور جان بچانے والی ادویات کی درآمدکی اجازت دینی پڑی تھی۔ کورونا کے پھیلاؤ سے ایک نیا تجربہ ہوا۔ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے کورونا کی ویکسین تیارکی۔ بھارت میں ادویات کی تیاری کا انفرا اسٹرکچر جدید ترین خطوط پر منظم ہے، یوں بھارت نے ایک معاہدہ کے تحت برطانیہ کی تیارکردہ ویکسین کو اپنے یہاں تیارکرنا شروع کیا، یوں بھارت میں سب سے پہلے یہ ویکسین ملنا شروع ہوئی اور ایک ملین سے زائد افراد کو یہ ویکسین لگائی جاچکی ہے۔
بھارت نے پڑوسی ممالک کو عطیہ کے طور پر یہ ویکسین دی ہے۔ بھارت کی یہ ویکسین یو اے ای اور دیگر کئی ممالک میں لگائی جارہی ہے۔ پاکستان ادویات کی تیاری کے حوالہ سے اب بھی پسماندہ ہے، یوں پاکستان کو چین کی فراہم کردہ ویکسین پر انحصارکرنا پڑا ہے جوکہ محدود تعداد میں دستیاب ہیں۔ یہ ویکسین 60 سال سے اوپر کے افراد کو نہیں لگ سکتی اور پاکستان کے بھارت سے تعلقات بہتر ہوتے تو بھارت سے یہ ویکسین منگوائی جاسکتی تھی۔
دنیا میں تنازعات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ صدی کے آخر میں مختلف ممالک نے تنازعات کے باوجود مختلف ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ بھارت اور چین کے تعلقات گزشتہ برسوں خاصی کشیدہ رہے۔ دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان لداخ میں گلوان کے معاملہ پر تصادم میں بھارت کے 20 سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔ چین نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا کہ اس تصادم میں اس کے چار فوجی ہلاک ہوئے مگر بھارت اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے گزشتہ سال چین سے 58.7 ارب ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا جو امریکا اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کیے گئے سامان سے زیادہ ہے۔ بھارت نے چین کو 19 ارب ڈالرکا سامان برآمدکیا تھا، یوں بھارت چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ جاپان کے چین اور روس سمیت 6 ممالک سے تضادات ہیں مگر جاپان کے تمام ممالک سے قریبی تجارتی روابط قائم ہیں۔
پاکستان کو جاپان، بھارت اور چین کے اس ماڈل کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ جنگ کشمیرکے مسئلہ کا حل نہیں، بات چیت ہی مسئلہ کا حل ہے۔ بات چیت کے ساتھ تعلقات کی معمول کے مطابق بحالی کا عام شہری کو فائدہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ اتفاق رائے سے وادئ نیلم کے مکینوں کو اطمینان ہوا ہے۔