سحر ہونے تک
8جنوری 1953 کا دن پاکستان کا تاریخی دن ہے۔ کراچی کے طلبہ نے اپنے 26 مطالبات کو منوانے کے لیے بائیں بازوکی طلبہ تنظیم ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں کی قیادت میں پہلی تحریک شروع کی۔ تنظیم کی کامیاب حکمت عملی کے نتیجے میں کراچی کے کالجوں کے منتخب نمایندوں پر مشتمل انٹرکالجیٹ باڈی (I.C.B) قائم ہوئی تھی۔
ای سی بی نے پاکستان کے مغربی حصہ میں طلبہ کی پہلی تحریک کی قیادت کی۔ ڈاکٹر ریاض شیخ نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ ایک کتاب بعنوان "سحر ہونے تک" میں مرتب کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کراچی کے بیشتر تعلیمی اداروں میں ڈی ایس ایف کے قیام کے بعد اس کی قیادت نے سوچا کہ تمام طلبہ تنظیموں کو اکٹھا کیا جائے تاکہ طلبہ کے مسائل پر مشترکہ آواز بلند کی جاسکے، یوں ڈی ایس ایف سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی دیگر تنظیموں سے بات چیت کے بعد بالآخر 1952 کے وسط میں انٹرکالجیٹ باڈی (I.C.B) کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
ای سی بی نے بنیادی مطالبات پر اتفاق رائے کے بعد کوشش کی کہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر اے بی حلیم تک یہ مطالبات پہنچائے جائیں مگر وہ طلبہ کے وفد سے ملاقات پر آمادہ نہ ہوئے۔ 17 اکتوبر 1952 کو اس وقت کے وزیر تعلیم فضل الرحمن سے ملاقات کے لیے خط بھیجا گیا مگر ان کے دفتر نے بھی خاموشی کا حربہ استعمال کیا۔
اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے طلبہ کے مطالبات پر توجہ نہیں دی مگر ڈی ایس ایف سے منسلک طلبہ شکست قبول کرنے کو تیار نہیں۔ 7 جنوری 1953بڑا فیصلہ کن دن ثابت ہوا۔ اس روز 3 سے 4ہزار کے درمیان طلبہ ڈی جے سائنس کالج کے میدان میں اکٹھے ہوئے۔
ڈی ایس ایف کے رہنما اور ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم محمد سرور نے اپنی تقریرمیں ای سی بی سے پرامن طریقے سے مسائل کے حل کے لیے تمام کوششوں کا تفصیلی ذکر کیا اور بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ طلبہ اس جلسہ کے اختتام پر ڈی جے کالج سے وزیر تعلیم کے گھر تک جائیں اور اپنے مطالبات انھیں پیش کریں گے۔
اسی دن ایک انگریزی روزنامہ میں یہ خبر شایع ہوئی کہ طلبہ کے ایک وفد نے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر اے بی حلیم کی قیادت میں وزیر تعلیم سے ملاقات کی اور وزیر تعلیم نے تمام مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پروفیسر حلیم کا یہ خبر شایع کرانے کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ کی کچھ تعداد اس خبر کی اشاعت کے بعد ڈی ایس ایف کے احتجاج سے علیحدہ ہوجائے گی اور تحریک کمزور پڑ جائے گی۔
مگر اس کے برعکس طلبہ میں مزید جوش و خروش پیدا ہوا۔ شہر میں دفعہ 144 لگادی گئی۔ طلبہ کے احتجاج کو غیر قانونی قرار دیدیا گیا۔ طلبہ نے ریاست کے جبرکے طریقہ کارکو مسترد کرتے ہوئے پرامن طور پر ایک جلوس کی صورت میں وزیر تعلیم کے گھر تک جانے کا فیصلہ کیا اور ڈی جے کالج سے اپنے مارچ کا آغاز کیا۔ ڈی جے کالج سے یہ جلوس صدر میں جنرل پوسٹ آفس کے قریب پیراڈائز سینما (موجودہ محبوب کلاتھ مارکیٹ) تک پہنچا۔ پولیس نے پہلے لاٹھی چارج اور پھر ہجوم کو منتشرکرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال شروع کیا۔ پولیس نے ڈی ایس ایف اور ای سی بی کی قیادت کو حراست میں لے لیا۔ کئی طلبہ پولیس تشدد کے باوجود وزیر تعلیم کے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
اب طلبہ کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ گرفتار طلبہ کو رہا کیا جائے، پولیس اس مطالبہ کو ماننے پر تیار ہوئی۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ زیڈ اے ہاشمی نے طلبہ کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔ محمد سرور اور دیگر رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ گزشتہ روز (8جنوری) کو دوبارہ اجتماع ہوگا۔ 7جنوری کے احتجاج کا سب سے اہم واقعہ یہ تھا کہ طلبہ کے پرامن احتجاج کے دوران وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی کارکو آگ لگادی گئی۔
یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آگ کس نے لگائی۔ اس کا الزام طلبہ پر عائد کیا گیا۔ 8 مارچ کو گذشتہ دن سے کئی گنا زیادہ طلبہ اکٹھا ہوگئے۔ احتجاجی طلبہ کے صدر پہنچنے کے ساتھ پولیس نے لاٹھی چارج کے ساتھ آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔ پولیس نے نہتے طلبہ پر فائرنگ کردی حکم دیا۔
حکومت نے صرف 3 افراد کی ہلاکت کو تسلیم کیا مگر ڈی ایس ایف اور ای سی بی کے اعدادوشمار کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 26 تھی۔ یہ تحریک صرف طلبہ کے مطالبات کے لیے شروع کی گئی لیکن معاشرے کے بیشتر طبقات طلبہ کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے تھے۔ صدر اور آس پاس کے علاقہ کے مکینوں نے طلبہ کو آنسو گیس کے اثرات سے بچانے کے لیے گیلے تولیے فراہم کیے۔
اپنے گھروں اور دکانوں میں طلبہ کو پناہ دی۔ وزیر تعلیم طلبہ کے وفد سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھے مگر اب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین ملاقات کے لیے تیار ہوگئے۔ طلبہ نے اپنے مطالبات میں مزید 8 مطالبات شامل کیے۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے طلبہ کے مطالبات کو بڑے غور سے سنا اور بیشتر کو فوری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور مزید بات چیت کے لیے طلبہ کو کمشنر کراچی ابوطالب نقوی کے پاس بھیج دیا۔ کمشنر نقوی نے طلبہ کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا جس پر محمد سرور نے کہا کہ مسٹر کمشنر ہم وزیر اعظم کی تجویز پر آپ سے بات چیت کرنے کے لیے آئے تھے۔ آپ مہذب طریقے سے بات چیت کرنا نہیں چاہتے، پھر واپس جانے کو تیار ہیں۔
ڈاکٹر ریاض شیخ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ یونین نے کراچی کے طلبہ کے ساتھ زیادتی پر ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ راولپنڈی، لاہور، سیالکوٹ، پشاور، لائل پور (فیصل آباد)، منٹگمری (ساہیوال)، سکھر اور حیدرآباد میں طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے جب کہ مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں بھی اس واقعے کے خلاف شدید غصہ دیکھنے کو ملا۔ ڈھاکا یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ نے 10جون کو تعلیمی اداروں میں ہڑتال کا اعلان کیا۔
لاہور میں 5ہزار طلبہ نے جن میں طالبات بھی شامل تھے احتجاجی جلوس نکالا۔ راولپنڈی میں بھی طلبہ کے احتجاج کا مرکز گورڈن کالج تھا۔"سحر ہونے تک" کے اوراق کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرکالجیٹ باڈی اور ڈی ایس ایف نے اس تحریک کو ملک بھر میں پھیلانے کا فیصلہ کیا۔ 18 فروری 1953 کو ایک وفد نے جس کی قیادت محمد سرور کر رہے تھے، ملک کے مختلف علاقوں کے دورکا آغازکیا، یوں کراچی میں طلبہ کے مشترکہ کنونشن کا فیصلہ ہوا، 25 اور 26دسمبر 1953کو کراچی میں کنونشن منعقد ہوا۔
پروفیسر حلیم اور کمشنر کراچی اے ٹی نقوی کے حمایت یافتہ رانا گروپ نے اس کنونشن کو ناکام بنانے کے لیے ہنگامہ ڈالنے کی کوشش کی مگر ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں حفاظتی دستے نے یہ کوشش ناکام بنادی۔ دوسرے دن اس کنونشن کا اجلاس پاکستانی چوک کے قریب ہائی اسکول کی عمارت میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈی ایس ایف کے کارکنوں کی کوششوں سے ہائی اسکول فیڈریشن قائم ہوئی۔ ڈی ایس ایف کے مطالبات منظور ہوئے۔ 2جنوری 1953 کو احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر ہائی اسکول فیڈریشن نے اپنے بقایا مطالبات ہونے تک احتجاج جاری رکھا۔
ڈی ایس ایف نے اپنی آواز طلبہ تک پہنچانے کے لیے ایک رسالہ اسٹوڈنٹس ہیرالڈ جاری کیا جس کا باقاعدہ ڈیکلریشن حاصل کیا۔ اسٹوڈنٹس ہیرالڈ کی اشاعت کی ذمے داری ایک طالب علم سید محمد نسیم پر عائد ہوئی۔ یہ اپنے وقت کا بہترین اخبار تھا۔ پولیس نے جولائی 1953 میں گرفتاریوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے مرحلہ میں محمد سرور گرفتار ہوئے۔
دوسرے مرحلہ میں گرفتار ہونے والوں میں محمد سرور کے بڑے بھائی محمد اختر ایم اے شکور، احمد حسن، منہاج برنا، ایرک رحیم، انیس ہاشمی، اقبال علوی اور زبیر احمد شامل تھے۔ پھر تیسرے مرحلہ میں پولیس نے ڈی ایس ایف کے اراکین ادیب الحسن رضوی، ایس ایم نسیم، ایوب مرزا، غالب لودھی، افضال شیروانی اور وسیع احمد وغیرہ کوگرفتارکیا۔ یہ تمام افراد ایک سال سے زائد عرصہ تک جیل میں نظر بند رہے۔
حکومت نے کوشش کی کہ یہ تمام افراد معافی نامے جمع کراکر رہا ہوجائیں مگرکوئی زیڈ ایچ لاری کی عدالت میں نوجوان وکیل بیرسٹر فخر الدین جی ابراہیم نے طلبہ ٹریڈ یونینز اورکمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 30افراد کی عرضداشتیں دائر کیں اور عدالت کے حکم پر یہ افراد رہا ہوئے۔ ڈی ایس ایف پر 1954 میں پابندی عائد کردی گئی۔
مگر ڈی ایس ایف نے تعلیم حق نہ کہ رعایت کے حق کو منوانے کے لیے جدوجہد کی ایسی تاریخ رقم کی کہ اس تحریک کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی اور کالجوں میں سیٹوں میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے کالجوں کی فیسوں میں کمی، پبلک ٹرانسپورٹ اور سینما کے ٹکٹ میں رعایت ملنے لگی۔ یہ رعایت 70 کی دھائی کے آخری برسوں تک طلبہ کو ملتی رہی۔