سماجی اور اقتصادی ذمے داری
پاکستان میں امیروں اور بڑے تجارتی اداروں کی عطیات دینے کی روایات خاصی قدیم ہیں مگر یہ عطیات محض انسانوں کی بھلائی کی غرض سے دیے جاتے ہیں۔ عطیات دینے والوں کے ذہنوں میں عطیات کو ملک کی ترقی سے منسلک کرنے کا تصور نہیں تھا اور ایک طرح سے کارپوریٹ فیاضی Corporate Philanthropy کا کوئی تصور عام تھا اور Corporate Social Responsibility (CSR) کا کوئی تصور نہیں تھا۔
ماہرین اقتصادیات ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ CSR کا عملی تصور عطیات کے ذریعہ سماجی اور اقتصادی ترقی کا ہے۔ اس سماجی اقتصادی ترقی کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے تجارتی اداروں کا کردار بنیادی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر اپنی سماجی و اقتصادی ذمے داریوں کو پورا کرے تو مزدوروں، کسانوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کا معیار بلند ہوسکتا ہے۔ اس ذمے داری کے نتیجے میں غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کم ہوسکتی ہے اور ان افراد کی توانائیاں شرح پیداوار بڑھنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں، یوں کارپوریٹ سیکٹر سی ایس آر پر عملدرآمد کرتے تو مجموعی طور پر معاشرہ میں بہتری آسکتی ہے۔
ماہرین نے سی ایس آر کی تعریف یوں کی کہ کارپوریٹ سیکٹر اخلاقی طور پر اپنی سماجی و اقتصادی ذمے داریاں پوری کرے تو ملک کی ترقی میں ایک اورکردار ادا کرسکتا ہے۔ یوں 20 ویں صدی کے آخری عشروں میں کارپوریٹ سیکٹر میں بین الاقوامی معیارکے پیمانے نافذ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور حکومتوں نے قانون سازی پر توجہ دی۔
جنرل ضیاء الحق حکومت نے 1984ء میں کمپنیز آرڈیننس نافذ کیا۔ اس آرڈیننس کے تحت تجارتی اداروں اور صنعتی اداروں کی سماجی واقتصادی ذمے داریوں کا تعین کیا گیا۔ اس قانون کے تحت غیر فیاضی اور غیر منافع بخش پروجیکٹ کے لیے عطیات دینے کے قواعد وضوابط نافذ کیے گئے۔ سماجی اور اقتصادی ماہرین کی کوششوں سے ملک کے مختلف شہروں میں قائم چیمبرز آف کامرس اور ملکی سطح پر قائم ان چیمبرزکی فیڈریشن کے عہدیداروں اور مزدور یونینوں میں آگاہی کی مہم چلائی گئی اور چیمبرز آف کامرس کی ذمے داری طے ہوئی۔ وہ اداروں کی سماجی واقتصادی ذمے داری کے لیے احتسابی عمل اور شفافیت کو یقینی بنائیں۔
امریکا میں ہونے والی نائن الیون کی دہشت گردی نے پوری دنیا کو تبدیل کردیا۔ امریکا کی حکومت نے نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث منظم القاعدہ کی مالیاتی رسد کے بارے میں طویل تحقیقات کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس دہشت گرد تنظیم کا مالیاتی نظم ونسق دنیا بھر سے ملنے والے عطیات سے چلتا رہا ہے۔
طالبان کے خودکش حملوں، پاکستان، مصر، انڈونیشیا، جرمنی، فرانس، برطانیہ، امریکا، صومالیہ اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ان تخریبی کارروائیوں کے پس پردہ زیر زمین نیٹ ورک کی مالیاتی رسد دنیا بھر سے موصول ہونے والے عطیات سے ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور امریکا میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کے سرے پاکستان سے جوڑے گئے۔ اس صورتحال نے ایک نئی مشکل پیدا کردی۔ پہلے پرویز مشرف حکومت نے فیاضی کے ذریعہ ملنے والے عطیات کو تخریبی کارروائیوں میں استعمال ہونے سے روکنے کے لیے قانون سازی کی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹی ایکسچینج (S.E.C.P) نے دہشت گردوں کی مالیاتی رسد کو روکنے کے لیے سخت قواعد و ضوابط نافذ کیے۔ 2013ء میں ان اداروں نے سی ایس آر والنٹری گائیڈ لائن (CSR Voluntary Guideline) تیار کی۔ یہ گائیڈ لائن 2009ء میں جاری ہونے والے کمپنیز سی ایس آر جنرل آرڈر (Companies CSR General Order CEO) کے مطابق تیارکی گئی۔ ان گائیڈ لائن کے تحت ہر کمپنی کو پابند کیا گیا کہ وہ سی ایس آرکی سرگرمیوں کے لیے ہر مالیاتی سال میں مختص کیے جانے والے فنڈز کے مندرجات کو عام کرے۔
اس گائیڈ لائن پر عملدرآمد کی صورت میں CSR کے لیے مختص فنڈز کسی مخفی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہوسکے۔ 1984ء کے کمپنیز ایکٹ میں مزید ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم کا مقصد پبلک کمپنیوں کو اپنی سماجی و اقتصادی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے عمل کو زیادہ شفاف بنانا تھا۔ حکومت نے بعض رفاہی ٹرسٹ پر پابندی عائد کی جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ ٹرسٹ مذہبی دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے پاکستان میں قائم کئی سماجی تنظیموں اور ٹرسٹ پر پابندی عائد کر دی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے تنظیموں اور رفاہی ٹرسٹ کی املاک کو قبضے میں لیا۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد پاکستان امریکا اور اتحادی افواج کا حصہ بنا۔ پاکستان نے امریکا اور اتحادی فوجوں کی اس جنگ میں بھرپور مدد کی۔ کابل کے تخت پر حامد کرزئی برسر اقتدار آئے۔ کابل میں لڑی جانے والی لڑائی کوئٹہ اور پشاور کے راستہ کراچی پہنچ گئی، یوں پاکستان براہ راست دہشت گرد ی کا نشانہ بنا۔
دہشت گردوں نے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا۔ جلسے اور جلوسوں پر خودکش حملے ہوئے۔ سیاسی وسماجی شخصیات، وکلاء، شعراء، اساتذہ، ڈاکٹروں، سرکاری افسروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، حتیٰ کہ پولیس اسٹیشن اور فوجی تنصیبات پر بھی حملے ہوئے۔ اس جنگ میں ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے مگر امریکا اور یورپی ممالک کی طرف سے ایک سازش کے تحت پاکستان پر دہشت گردی کی سر پرستی کا الزام لگایا گیا۔ بھارت اور امریکا کے ایماء پر اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ایشیا اور مشرق بعید کی ٹاسک فورس نے پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کی مالیاتی رسدکو روکنے کے لیے گرے ایریا میں شامل کیا اور پاکستان کے مالیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مختلف پابندیاں عائد کیں۔
برسر اقتدار حکومتوں نے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کیے۔ پاکستان میں کام کرنے والے ہر بینک کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے صارفین کا بائیومیٹر ک کرائیں اور صارف کے تمام کوائف جس میں انکم ٹیکس، رجسٹرڈ نمبر بھی شامل ہیں، اسٹیٹ بینک کو فراہم کریں۔ ایف اے ٹی ایف نے 40 ہزار روپے کے انعامی بونڈ ختم کرنے کی سفارش کی۔ موجودہ حکومت نے منی لانڈرنگ روکنے کے لیے 40 ہزار روپے کے انعامی بونڈ منسوخ کردیے۔
اب ایف اے ٹی ایف نے بچت کی مختلف اسکیموں کی نگرانی کا ایک نظام تجویزکیا جس کے تحت بچت اسکیم کے اداروں کو پابند کیا گیا کہ اپنے تمام صارفین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات اور صارف کا بائیو میٹرک اسٹیٹ بینک کو فراہم کریں۔ ان تمام اقدامات کا فائدہ یہ ہوا کہ بھارت اور امریکا کی کوششوں کے باوجود پاکستان کو مکمل طور پر بلیک لسٹ نہیں کیا گیا۔ ان اقدامات میں ایک اقدام عطیات کے عمل کو شفاف بنانا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان میں کارپوریٹ سماجی و اقتصادی ذمے داری CSR کا تصور عام کیا جارہا ہے، اگر اس تصور کو تمام ادارے اپنالیں تو نہ صرف غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد میں کمی ہوگی بلکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی نگرانی سے نکل جائے گا اور پاکستان پر عائد پابندیاں ختم ہوجائیں گی جس سے مجموعی طور پر ملک کی معیشت بہتر ہوگی۔