مہنگائی کے اسباب کا خاتمہ
ٹماٹرکی قیمت آسمان تک پہنچی۔ گندم، چاول، دالوں اور گوشت حتی کہ ادویات کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دورہو گئیں۔ پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے نے اشیاء کی قیمتوں کو مزید بڑھا دیا۔ نان بائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھا دی، پھلوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ حکومت نے لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بس کے ٹکٹ کی قیمت بڑھا دی۔
پورے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ گئے۔ کمشنر کراچی کے اعلانات کے باوجود دودھ فروشوں نے سرکاری نرخ پر دودھ کی فروخت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وفاقی وزراء اور حکومت کے مشیر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کے دعوے کرتے رہے مگر خزانہ کے مشیر ڈاکٹر حفیظ شیخ، اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے مہنگائی کو روکنے میں حکومت کی ناکامی کا اقرار کر لیا۔
خزانہ کے مشیر ڈاکٹر حفیظ شیخ اور وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایک پریس کانفرنس میں فرمایاکہ بھارت سے تجارت کی بندش، موسمیاتی تبدیلیاں اور صوبوں کے مڈل مین پر کنٹرول کرنے میں ناکامی وہ بنیادی وجوہات ہیں جو مہنگائی کا سبب بن رہی ہیں۔
محکمہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق نومبر میں ٹماٹر 436.88 فیصد، پیاز 156 فیصد، چینی 33.41 فیصد مہنگی ہوئی۔ بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ ایک سال میں کھانے پینے کی ایشیا کی قیمتیں 19.4 فیصد تک بڑھ گئیں۔ اس طرح افراط زر کی شرح 12.47 فیصد تک پہنچ گئی جو گزشتہ نو سال میں سب سے زیادہ ہے۔
اس سے قبل حکومت کے ایک اقتصادی مشیر رزاق داؤد نے جن کا تعلق ملک کے چند امیر خاندانوں میں سے ایک ہے کا کہنا تھا کہ مہنگائی پر فوری قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ اس سال بھارت سے پلوامہ میں دہشتگردی کے واقعے کے بعد تعلقات سرد ہونا شروع ہوئے۔ فروری میں دونوں ممالک کی فضائی فوج کے پائلٹوں میں ڈاگ وار کے بعد تعلقات صفر کے قریب پہنچ گئے۔
جب وزیر اعظم مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھارتی یونین کے آئین میں ترمیم کی اور کشمیر میں کرفیو لگا کر مکمل طور پر لاک ڈائون کر دیا گیا تو پاکستان نے بھارت سے سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس کے آمد و رفت پر پابند ی لگا دی۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلوا لیا۔ وفاقی حکومت نے اس وقت فیصلہ کیا کہ بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی، یوں بنیادی اشیاء کی تجارت کے ساتھ بھارت سے ادویات کی درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی۔
حکومت نے اگرچہ بھارت سے تجارت پر پابندی کو بھارت کی معیشت کے لیے بہت بڑا جھٹکا قرار دیا تھا مگر چند ہی ہفتوں کے بعد اس فیصلے کے نقصانات سامنے آنے لگے۔ بھارت سے کتے کے کاٹے کی ویکسین سمیت اہم ادویات اور ان کا خام مال پاکستان آتا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت معطل ہونے سے پورے ملک میں کتے کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت پیدا ہو گئی۔
ملک کے بڑے شہروں اور دور دراز علاقوں میں کئی افراد یہ ویکسین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور بھارت سے خام مال نہ آنے سے کئی ادویات پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت نے محسوس کیا کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کی بھارت سے درآمد کی فوری اجازت دی جانی چاہیے اور ادویات کے خام مال کی درآمد کو بھارت سے تجارت پر پابندی کے پروٹوکول سے مستثنی قرار دیا گیا۔ مگر کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان مواصلاتی رابطے منقطع ہیں اس بناء پر بھارت کے تاجروں کو وفاقی حکومت کے اتنے اہم فیصلے سے آگاہی نہ ہو سکی۔ بھارت سے تجارت منقطع ہونے کا نقصان صرف درآمد کنندگان کو ہی نہیں ہوابلکہ اشیاء برآمد کرنے والے تاجروں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔
سندھ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق پروفیسر ڈاکٹر بدر سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ کا ضلع خیرپور کھجور اور اس کی مصنوعات کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ خیرپور ضلع میں پیدا ہونے والی اعلیٰ معیار کی کھجور اور اس کی مصنوعات دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں۔
بھارت خیرپورکی کھجوروں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ بھارت ہر سال کئی عرب ممالک کی کھجوریں درآمد کرتا ہے۔ ڈاکٹر بدر سومرو کا کہنا ہے کہ کھجور اور چھوارے وغیرہ ہندوئوں کی عبادت کے دوران سوغات کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس بناء پر ان کی بھارت میں بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ بھارت سے تجارت پر پابندی کا نقصا ن خیرپور ضلع کے ہاریوں کو ہوا۔ ضلع خیرپور صرف اس سال ایک ارب روپے سے زیادہ کی آمدنی سے محروم ہو گیا۔ ہاریوں کے علاوہ پاکستانی درآمد کنندگان بھی متاثر ہوئے۔ ادویات کی کمپنیوں نے دبئی کے راستہ خام مال درآمد کرنا شروع کیا۔ یوں ایک دوائی پر آنے والی لاگت بڑھ گئی۔ اس طرح عام آدمی براہ راست متاثر ہوا۔
حفیظ شیخ نے مہنگائی کی وجوہات میں سے ایک موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا۔ بھارت اور پاکستان پڑوسی ملک ہیں۔ دونوں ممالک کی ایک ہزار کلومیٹر سرحد ایک دوسرے سے متصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بھارت میں ماحولیات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان کی موحولیات پر پڑتا ہے۔
پاکستان کے ماحولیاتی افسروں کا کہنا ہے کہ موسم سرما کے آغاز پر پاکستان کی سرحد سے متصل بھارتی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ وغیرہ میں کسان دھان کا کوڑا جلاتے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں اور صنعتی اداروں سے خارج ہونے والی گیس ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتی ہے۔
بھارت کے حکام اس طرح کے الزامات سرحد کے دوسری طرف آباد کسانوں پر عائد کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کی ذمے داری دونوں ممالک پر عائد ہوتی ہے۔
خزانہ کے مشیر کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں نامعلوم وجوہات کی بناء پر مڈل مین کا کردار ختم نہیں کر پا رہیں۔ اب بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں مڈل مین کا حد سے زیادہ منافع کمانا اجارہ داری کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔ مگر زرعی معیشت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں میں بڑے بڑے خاندان جن میں سے کچھ وفاق اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں مڈل مین کی سرپرستی کرتے ہیں، یوں کسان کو نہ تو صحیح قیمت ملتی ہے اور نہ شہر کے صارف کو کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ایک کانفرنس میں اپنے مقالے میں بتایا کہ کہ آئی ایم ایف نے پاکستان میں غربت اور بیروزگاری کے اعداد و شمار پر خاموشی اختیار کر لی اب تک بارہ لاکھ افراد اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ہزاروں نوجوان بیروزگاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
گزرتی ہوئی اقتصادی بدحالی نے نچلے اور متوسط طبقے کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے اور غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی اور خراب اقتصادی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسباب ختم کیے جائیں جو اس کا محرک بن رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے سمیت تمام ان اقدامات پر عمل درآمد ہونا چاہیے جن سے معاشی و اقتصادی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ حکومت نے کشیدگی کی صورتحال میں سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور راہداری کو دوبارہ تعمیر کر کے ایک جرات مند قدم اٹھایا ہے۔ اب ایسے ہی جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔