مادری زبانوں کا ادبی میلہ
21 فروری 1952 ایک تاریخ سازدن ہے۔ اس دن کی اہمیت نہ صرف پاکستان کے شہریوں کے لیے ہے بلکہ اب 21 فروری دنیا بھر کے لیے اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ 21 فروری 1952 کو ڈھاکا کے طالب علموں نے اپنی مادری زبان بنگالی کو قومی زبان بنانے کے لیے جلوس نکالا۔ ڈھاکا کی انتظامیہ نے طلبہ کی اس جرات پر ان سے زندگی کا حق چھیننے کا فیصلہ کیا۔
پولیس کو طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے اندھادھند فائرنگ کے احکامات دیے۔ اس فائرنگ کے نتیجہ میں متعدد طلبہ شہید ہوئے۔ پھر حکومت کو طلبہ کے اس مطالبہ کو ماننا پڑا۔ پاکستان کے 1956 کے آئین میں اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو قومی زبان کی حیثیت دیدی گئی۔ 90 کی دھائی میں اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو نے 21فروری کو مادری زبانوں کا دن قرار دیا۔ انڈس کلچر فورم اسلام آباد میں ثقافتی سرگرمیوں کا بڑا محرک ہے۔ انڈس کلچر فورم کے ندیم نیاز پہلے صحافی تھے۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔ اب سول سوسائٹی میں متحرک ہیں۔ سینئر صحافی مظہر عارف اب اسلام آباد کے ہوگئے ہیں۔ وہ سرائیکی کے ادیب اور اردو انگریزی کے صحافی ہیں۔
آج کل میڈیا پر تحقیق کے ادارہ Alternative Research Initiative کے نگراں ہیں۔ یہ صاحبان اسلام آباد میں گذشتہ پانچ برسوں سے پاکستان کی مادری زبانوں کا ادبی میلہ برپا کررہے ہیں، یوں اس سال بھی اسلام آباد میں پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کا ادبی میلہ منعقد ہوا۔ اس میلے کے لیے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی نئی نگراں ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کونسل کے دروازے کھول دیے۔ جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم Fried Rich Human Foundation اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے بھرپور تعاون کیا، یوں 21سے 23 فروری 2020 تک جاری رہنے والے اس میلہ میں مختلف زبانوں سے متعلق 20 کے قریب سیشن منعقد ہوئے۔ پاکستان میں بولنے والی 22 کے قریب زبانوں کے 100 کے قریب ادیب، شعراء، دانشور اور صحافی زبانوں سے متعلق امور اور مختلف زبانوں میں شایع ہونے والی کتابوں پر بحث ومباحثہ میں مصروف رہے۔
معروف شاعر انور شعور نے اپنی شاعری اور خیالات سے علیحدہ سامعین کو محظوظ کیا۔ اس میلہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ایک سیشن کے علاوہ جس میں جرمن ماہر شریک تھیں باقی تمام سیشن کی کارروائی اردو زبان میں ہوئی۔ معروف صحافی زبیدہ مصطفی نے اس میلہ کا افتتاح کیا۔ زبیدہ بنیادی طور پر انگریزی زبان میں لکھتی ہیں۔ مگر زبیدہ مصطفی مادری زبانوں میں تعلیم دینے کی سب سے بڑی حامی ہیں۔ انھوں نے اپنے کلیدی خطبہ میں فرمایا کہ بچے اپنی مادری زبان میں جلد سیکھتے ہیں مگر ہمارے ملک میں اب تک مادری زبان میں بچوں کی تعلیم کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ انھوں نے ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے اپنی مادری زبانوں کو اپنایا اور دنیا بھر میں شایع ہونے والی کتابوں کے ترجمے کیے۔
آج یہ ممالک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے ہیں۔ زبیدہ کا کہنا تھا کہ 21 فروری 1952 کو ڈھاکا کے طالب علموں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے بنیادی حق کو تسلیم کرایا۔ اب بنگلہ دیش ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کررہا ہے۔ اس میلے کے روح روا نیاز ندیم کا استدلال تھا کہ ہم پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قابل عزت جانتے ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ بچوں کو مادری زبانوں میں تعلیم دی جائے تو ان کی صلاحیتیں زیادہ بہتر ہوسکتی ہیں۔ سینئر صحافی مظہر عارف نے میلہ کے مقاصد کو یوں بیان کیا کہ مختلف زبانیں مختلف ثقافتیں ہی حقیقی پاکستان ہیں اور ان زبانوں اور ثقافتوں کو تحفظ فراہم کرکے ہی وفاق کا حقیقی تصور ابھر سکتا ہے۔
معروف دانشور انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن آئی اے رحمن نے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم سے منسوب سیشن کی صدارت کرتے ہوئے زبانوں کے ارتقاء پر روشنی ڈالی۔ رحمن صاحب کا استدلال تھا کہ عربی زبان کی عمر پندرہ سو سال ہے جب کہ پاکستان میں بولنے والی زبانوں کی تاریخ 2 ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے مگر پاکستان بننے کے بعد مقامی زبانوں اور ثقافتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ انھوں نے تاریخ کے گوشہ کھنگالتے ہوئے بتایا کہ پہلی قانون ساز اسمبلی کی ایک رکن بیگم شائستہ اکرام اﷲ تھیں۔ شائستہ اکرام اﷲ کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا۔ وہ پہلی مسلمان خاتون تھیں جنھوں نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
انھوں نے پاکستان بننے کے فورا بعد ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں یہ مدعا پیش کیا کہ بنگالی زبان کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بیگم شائستہ کے دلائل کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ شائستہ آپ ایک عورت ہیں خاموش رہیں۔ آئی اے رحمن کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ اس ملک میں بولنے والی تمام زبانوں کو تسلیم کرے اور ان کی ترقی کی ذمے داری قبول کرے۔ انھوں نے پاکستان کے آئین کی مختلف دفعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا آئین ملک میں بولنے والی زبانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس بناء پر ریاست پابند ہے کہ ہر زبان کی سرپرستی کرے۔ رحمن صاحب نے مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بالادست طبقات انگریزی کو اس بناء پر اہمیت دیتے ہیں کہ وہ عوام سے فاصلہ رکھنا چاہتے ہیں، اگر ہر شخص ایک ہی زبان بولے اور لکھے گا تو پھر یہ طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔ رحمن صاحب نے مزید فرمایا کہ مقامی زبانوں کو تسلیم کرنا جمہوری حقوق کا محور ہے۔
جب تک ہر شخص کو اس کی مادری زبان میں تعلیم کا حق نہیں ملے گا جمہوری نظام کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ رحمن صاحب نے مزید فرمایا کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دور میں صوبہ میں بولے جانے والی تمام زبانوں میں تعلیم کا حق تسلیم کیا، یوں ان کی جمہوری حکومت نے ایک ایسی مثال قائم کردی جس کی نہ صرف ستائش کرنی چاہیے بلکہ باقی حکومتوں کو ان کی پیروی کرنی چاہیے۔
بلوچی زبان کے ادیب ڈاکٹر مالک بلوچ خاص طور پر تربت سے اس میلہ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ان کی بلوچی زبان میں افسانوں کی کتاب مارشٹ کی تقریب اجراء بھی اس میلہ کا حصہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں مادری زبانوں میں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تھا مگر حکومت کے خاتمہ کے بعد بلوچستان کی تمام زبانوں میں شایع ہونے والی کتابوں کو گودام میں چھپادیا گیا۔ پختون خواہ کے سیاسی رہنما افراسیاب خٹک کی پشتو کی کتاب کی رونمائی بھی عمل میں آئی۔ انھوں نے اپنی گرج دار تقریر میں کہا کہ پاکستان کی تمام زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے کر ملک مستحکم ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں عوام کو ان کی مادری زبان کے استعمال اور ترویج سے روکا نہیں جاسکتا۔ معروف سندھی دانشور اور صحافی سہیل سانگی نے ایک سیشن میں کہا کہ سندھی اخبارات ترقی پسند نظریات کی ترویج کرتے ہیں۔ حکومت سندھی اخبارات کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے جس کی بناء پر وفاقی حکومت اور سندھ کے عوام میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے بتایا کہ گذشتہ دور حکومت میں انھوں نے مقامی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کا بل سینیٹ میں پیش کیا تھا مگر اکثریت کی بنیاد پر اس بل کو مسترد کیا گیا۔ اختتامی اجلاس میں تمام شرکاء نے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ اردو کے ساتھ ساتھ ملک میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔
آخری اجلاس میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے فرمایا کہ ملک کا تعلیمی نظام مساوی نہیں ہے۔ حکومت زبانوں پر ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کرے گی۔ ان کا استدلال تھا کہ ملک میں ایک ہی نظام تعلیم نافذ کیا جائے گا تاکہ تفریق مکمل ہوسکے مگر ابھی میلہ ختم ہی ہوا تھا کہ وفاقی حکومت نے ایک سرکلر کے ذریعہ حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ سندھ کی یونیورسٹیوں میں سندھی اجرک کا دن اور بلوچ کلچر کے دن جیسے تقریبات پر پابندی لگائی جائے۔ وفاقی حکومت کے سرکلر میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کی تقریبات سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے۔ اسلام آباد میں زبانوں کا میلہ اس ملک کی یکجہتی کے لیے نیک شگون ہے۔ 20 کے قریب زبانوں کا ادیبوں اور دانشوروں کا جمع ہونا اور ادبی ثقافتی مسائل پر بحث و مباحثہ ایک نئے مستقل کی نوید دے رہا ہے۔