خواتین مارچ کی کامیابی
استحصال، جبر اور فرسودہ روایات کے خلاف خواتین کی تحریک نے پاکستان میں ایک نئی کامیابی حاصل کی۔ ایک مذہبی جماعت والے بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر سڑکوں پر نکل آئے۔ اسلام آباد میں خواتین کے جلوس پر سنگ باری کی گئی۔
کراچی میں بھی جلوس میں شریک خواتین کو مخالفانہ نعرے سننے پڑے۔ دھمکیوں اور خوف کے ماحول میں رہتے ہوئے ہزاروں خواتین اور مردوں نے خواتین کا عالمی دن منایا۔ سکھر میں شریک ہونے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق سندھی مڈل کلاس سے تھا۔ کراچی میں محنت کش خواتین نے کراچی پریس کلب کے سامنے ایک شاندار اجتماع منعقد کیا۔
خواتین پر سنگ باری صرف اسلام آباد میں ہی نہیں ہوئی بلکہ سوویت یونین کی سابق ریاست کرغرستان کے دارالحکومت بشکیک میں بھی مردوں نے خواتین پر پتھراؤکیا۔ بشکیک کی پولیس نے کئی درجن خواتین کو ہی حراست میں لیا۔ یہی صورتحال الجزائر میں ہوئی، مگر اب مذہبی عناصر خواتین کی بین الاقوامی تحریک کے اثرات کو قبول کرنے لگے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی تقریر قابل غور ہے۔ انھوں نے خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی اس فرد کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دے گی جو جائیداد میں سے بہنوں اور بیٹیوں کو حصہ نہیں دے گا۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی خواتین کا ایک جرگہ 8 مارچ کو جلوس نکالنے والی خواتین سے مذاکرات کرے گا۔ ان کا مدعا تھا کہ " میرا جسم، میری مرضی" کا نعرے لگانے والی عورت شاید طلاق یافتہ ہو، یوں وہ یہ نعرے لگا رہی ہوں۔
دائیں بازو کے اکابرین کی جدید سائنسی اور جدید نظریات کو پہلے مسترد کرنے اور اس کو قبول کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مسلمانوں کو انگریزی کی تعلیم کا درس دینے والے سرسید احمد خان نے جب مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ انگریزی کی تعلیم حاصل کریں تو علماء ان کے خلاف ہوگئے۔ اس دور کی تاریخ کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید احمد خان کے خلاف 15ہزار علماء نے فتوے جاری کیے۔ انھیں کافر قرار دیا گیا۔ جب 20 ویں صدی کی پہلی دہائی میں برطانوی ہند حکومت نے ستی کی رسم کے خاتمہ اور کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون نافذ کیا تو نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح واحد مسلمان تھے جنہوں نے اس قانون کی بھرپور حمایت کی۔
اپنے اس مؤقف کی بناء پر بعض مولوی صاحبان کی تنقید برداشت کرنی پڑی۔ جناح نے ایک خوبصورت پارسی لڑکی رتی سے شادی کی تو رتی ان کی سیاسی زندگی کا حصہ بن گئی۔ رتی جدید مغربی لباس زیب تن کرنے کی بناء پر بمبئی میں مقبول تھی، بعض مذہبی رہنماؤںکی طرف سے جناح کو دوبارہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ر تی کے علیحدہ ہونے کے بعد انھوں نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ فاطمہ کو ہمرکاب کیا۔ فاطمہ جناح نے کبھی پردہ نہیں کیا۔ وہ تحریک پاکستان کے دوران اپنے بھائی کے شانہ بشانہ کام کرتی رہیں۔ رجعت پسندوں کو فاطمہ کا یہ کردار پسند نہیں تھا۔
پاکستان بننے کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد ہوئے۔ بلدیہ کراچی میں خواتین کے لیے نشستیں مختص کی گئیں۔ ایک مذہبی و سیاسی جماعت نے ان انتخابات میں مردوں کی نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے مگر خواتین کی نشستوں پر کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا کیونکہ اس وقت وہ جماعت خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں سمجھتی تھی۔ پھر اس جماعت نے پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں اپنی خواتین کے جلوس نکالے۔
جب سابق صدر پرویز مشرف نے بلدیاتی نظام نافذ کیا اور پہلی دفعہ 33 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مختص کی گئیں تو اس جماعت نے اس مخلوط نظام کو مسترد کر دیا۔ اس وقت اس جماعت کے رہنما الزام لگاتے تھے کہ حکومت ملک میں مخلوط نظام قائم کرنا چاہتی ہے مگر بعدازاں وہ جماعت والے پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے حامی ہوگئے۔
اسی طرح ایک اور مذہبی و سیاسی جماعت والوں کی بھی داستان کچھ یوں ہی ہے، جب متحدہ حزب اختلاف نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تو ایک مذہبی جماعت کے قائد نے ایک مرد کے مقابلہ میں عورت کی حمایت کا فیصلہ کیا مگر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی محمود اور ان کے ساتھیوں نے فاطمہ جناح کی حمایت سے انکار کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ خاتون اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدر نہیں ہوسکتی۔ جنرل ایوب خان نے عائلی قوانین نافذ کیے۔ ان قوانین کے تحت نکاح اور طلاق کے معاملات کو پہلی دفعہ دستاویزی شکل دی گئی۔ مرد کے دوسری شادی کے حق کو پہلی اہلیہ کی منظوری سے مشروط کیا تو دائیں بازوکی جماعتوں نے ان قوانین کی مخالفت شروع کر دی۔
عائلی قوانین کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 17فیصد نشستیں مختص کیں تو ایک مذہبی و سیاسی رہنما نے خواتین کے کوٹہ کو اسلام اور جمہوریت کے خلاف جانا۔ جے یو آئی نے تو خواتین کو سیاسی عمل سے دور کرنے کے لیے ایک اور مثال قائم کی۔ 2017 میں پشاور میں ہونے والے تاسیسی اجلاس جس میں بھارت اور سعودی عرب کے جید عالم شریک ہوئے تھے۔
اپنی کسی خاتون کارکن کو اس اجلاس میں شرکت کا موقع نہیں دیا جب خواتین کی عدم شرکت کے بارے میں مولانا سے سوال کیا گیا تو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ اور ان کے ساتھی خواتین کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان جماعتوں نے شہروں میں توخواتین کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے پر اعتراض نہیں کیا مگر بلوچستان کی پختون بیلٹ خیبرپختون خوا اور قبائلی علاقوں میں ہمیشہ خواتین کو ووٹ دینے سے روکا۔ جب الیکشن کمیشن نے انتخابات کے عمل میں خواتین کے ووٹوں کولازمی قرار دیا اور الیکشن کمیشن نے قبائلی علاقے میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے پر انتخابی نتائج کو مسترد کرنا شروع کیا تو ان جماعتوں نے مجبوراً خواتین کو ووٹ ڈالنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
ان مذہبی و سیاسی جماعتوں نے گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مخالفت کی مگر جب ذرائع ابلاغ خاص طور پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے پولیو کے قطرے نہ پلانے کے معاملہ پر توجہ دی تو ان جماعتوں نے پولیو کے قطرے پلانے کی مخالفت ترک کردی مگر جب بھی پولیو ورکرز کو مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کیا تو ان جماعتوں نے مکمل خاموشی اختیارکی۔ ماہرین اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک خواتین کو مردوں کے برابر حقوق نہیں ملیں گے اور خواتین میں خواندگی کی شرح مردوں کے برابر نہیں ہوگی تو غربت کے خاتمہ کا مرحلہ نہیں آئے گا۔
خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، علاج کرانے، اپنی پسند سے شادی اور طلاق، وراثتی جائیداد میں حصہ، اپنی مرضی سے علاج، مردوں کے برابر اجرت اور بچوں کی تعداد طے کرنے کا حق نہیں ملے گا اور خواتین کے حالات کار بہتر نہیں ہونگے۔ یوں ملک غربت کا شکار رہے گا۔
مگر رجعت پسند عناصر خواتین کی زندگی کے ہر شعبہ میں شمولیت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خیالات کو تقویت دینے کے لیے مذہبی بیانیہ کو استعمال کرتے ہیں مگر جس طرح خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھ رہی ہے اور وہ معاشرہ میں مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہیں، ان رجعت پسندوں کے عزائم عیاں ہورہے ہیں۔
خواتین کو اپنی جدوجہد کو مزید تقویت دینی چاہیے۔ معاشرہ کے تمام طبقات کو خواتین کی جدوجہد کا حصہ بنانے کے لیے بہتر سیاسی ابلاغ کی حکمت عملی اختیارکرنی چاہیے۔ خواتین کی جدوجہد درست سمت جاری رہی تو یہ رجعت پسند عناصر اپنے مؤقف اسی طرح تبدیل کریں گے جس طرح ان کو سرسید احمد خان، محمد علی جناح اور جمہوریت کے بارے میں اپنے خیالات کو تبدیل کرنا پڑا تھا۔ یقیناً وہ وقت قریب ہے۔