جمہوری حکومتوں کے 10 سال
گزشتہ 10سال ملک میں جمہوری حکومتوں کا اقتدار قائم رہا۔ جمہوریت کے تسلسل کا عوام کو فائدہ ہوا۔ ملک کی معیشت کی صورتحال بہتر رہی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے عوام کی بہبود کے لیے پالیسیاں بنائیں۔ 1988سے 1999تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کا راج رہا، مگر یہ حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکیں۔
دستیاب اعداد وشمار سے استفادہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران مجموعی طور پر شرح پیداوار 3 فیصد رہیں جب کہ اس سے پہلے کے دس برسوں میں شرح پیداوار ایک فیصد سے زائد تھی۔
اعدادوشمار یہ بھی ظاہرکرتے ہیں کہ جمہوری حکومتوں نے افراط زرکوکم کرنے کی کوشش کی۔ افراط زر مجموعی طور پر 2.5 فیصد تک رہی جب کہ اس سے پہلے کے 10 برسوں میں افراط زر 7.9 فیصد تک رہی۔ ان 10 برسوں میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) کی امداد پر انحصارکیا۔
پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف سے 7.6 بلین ڈالر قرضہ لیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (Extended Fund Facility)کا معاہدہ کیا اور 6.2 بلین ڈالرکا قرضہ حاصل کیا۔ آئی ایم ایف نے تین سال بعد ہی پیپلز پارٹی سے قرضہ کے معاہدے پر نظرثانی کی۔ مسلم لیگ ن نے آئی ایم ایف کے پروگرام پر کامیابی سے عملدرآمد کیا۔ تحریک انصاف کے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے امداد کے معاملہ کو ایک سال تک التواء میں ڈالا، پھر وزارت خزانہ کے مشیر ڈاکٹر حفیظ شیخ نے یہ معاہدہ کیا۔
معاصر انگریزی اخبار میں ایک کالم نویس لکھتی ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں مہنگائی کی شرح کم رہی مگر تحریک انصاف کے اقتدارکے پہلے سال ہی مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی جب برسر اقتدار آئی تو جنرل پرویز مشرف صدرکے عہدے پر فائز تھے۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی وغیرہ کی مدد سے قومی اسمبلی میں صدر پرویز مشرف کے مواخذے کی تحریک پیش کی۔
پرویز مشرف اس وقت اپنے ’دوستوں، کے سرد رویے کو محسوس کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ وکلاء تحریک اور مسلم لیگ ن کے دباؤ پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کیا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے 2005میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کی پاسداری کی اور آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔
اس ترمیم کے بعد صدرکے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کے اختیارات ختم ہوئے۔ وزیر اعظم مکمل طور پر با اختیار ہوگئے۔ اس ترمیم میں شہریوں کے جاننے کے حق (Right to know) کو آرٹیکل 19-A کے تحت تسلیم کیا گیا۔ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 25-A کے تحت ریاست پابند ہوئی کہ ہر شہری کو میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرے گی۔ پاکستان کے تمام صوبوں کو وہ مکمل خودمختاری حاصل ہوئی جس کا وعدہ 23مارچ 1940کو لاہور میں منظور ہونے والی قرارداد میں کیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت قومی مالیاتی ایوارڈ کا فارمولہ تبدیل ہونے سے پسماندہ صوبوں کو زیادہ فنڈز ملنے لگے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسی کا بنیادی محور دیہی معیشت کو بہتر بنانا تھا۔ اس پالیسی کی بناء پر نیٹ کیپیٹل شہری سیکٹر سے دیہی سیکٹر کی طرف منتقل ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں دوسرے اور تیسرے درجے کے شہروں میں خاص طور پر پنجاب میں جائیداد کی قیمتیں اور زرعی زمینوں کی قیمتیں بڑھیں۔ 2010میں کم سے کم تنخواہ 7 ہزار تھی جو 17500 روپے ہوگئی۔
پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں سو فیصد تک اضافہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے برطانیہ کی طرح سوشل سیکیورٹی نیٹ(Social Security Net)کی پالیسی رائج کی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔
یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے خالق معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی تھے۔ پروگرام کے تحت مستحق خواتین کو ہر ماہ ایک ہزار روپے دیے جاتے تھے، پھر اس رقم میں اضافہ کیا گیا۔ یہ پروگرام مکمل طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں پر مشتمل تھا اور اس خطے میں خواتین کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے ایک اعلیٰ پروگرام قرار دیا جاسکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس پروگرام کو برقرار رکھا جائے اور اس کا نام تبدیل کر دیا جائے مگر وزیر اعظم نواز شریف نے اس پروگرام کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پروگرام کے دائرہ کار میں مزید افراد کو شامل کیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 80 ہزار مستحقین کے نام خارج کر دیے۔
حکومت کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشترکا کہنا ہے کہ یہ افراد مستحقین کی تعریف پر پورے نہیں اترتے تھے مگر حکومت مزید مستحق افراد کو اس پروگرام کا حصہ بنائے گی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں جوڈیشل ایکٹو ازم کی ایک نئی شکل سامنے آئی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو تا برخاست عدالت کی سزا دی گئی۔ وہ اپنے عہدے سمیت عوامی عہدے کے لیے 5 سال تک نااہل قرار پائے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس فیصلے کو فوری طور پر قبول کرلیا۔
پیپلز پارٹی کے دور میں آزادئ صحافت کو بھرپور تقویت ملی۔ اخبارات کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا نے ایسا تنقیدی ماحول بنایا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی مگر حکومت نے آزادئ صحافت پر قدغن لگانے پر نہیں سوچا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے چین سے پاک چین اقتصادی راہداری کا معاہدہ کیا یوں گوادر سے چین کے صوبے سنکیانگ تک سڑکوں کا جال بچانے کے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ میاں شہباز شریف کے عام آدمی کو ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے لاہور میں میٹرو بس ٹریک کی تعمیر شروع ہوئی۔ ملتان اور راولپنڈی و اسلام آباد میں میٹروبس کے ٹریک تعمیر ہوئے۔
ان منصوبوں کی بناء پر عام آدمی کو 20 روپے میں ایئرکنڈیشن بس کے ذریعہ مختصر دورانیہ میں اپنی منزل تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔ اس کے ساتھ میاں شہبازشریف نے لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ ٹرین زیر زمین اور زمین کے اوپر دوڑے گی۔ سی پیک کے تحت اس منصوبہ کی تکمیل سے لاہور شہر پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے دنیا کے جدید شہروں کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ مسلم لیگ ن کے دور میں عوام کے جاننے کے حق کی تسکین کے لیے پنجاب میں انفارمیشن کمیشن قائم ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختون خوا میں ایسا ہی کمیشن قائم کیا۔
اس کمیشن کے ذریعے عوام کو صوبے کے معاملات کے جاننے کا حق ملا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری چند مہینوں میں وفاق میں انفارمیشن کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی کی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میں جوڈیشل ایکٹو ازم کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ پاناما کیس پر مسلم لیگ کی عرضداشت پر سماعت ہوئی اور میاں نواز شریف کو اقامہ حاصل کرنے پر نا اہل قرار دیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں میں خارجہ پالیسی خاصی کامیاب رہی۔ دونوں حکومتوں نے پڑوسی ممالک بھارت، افغانستان اور ایران سمیت دیگر ممالک سے تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے بنیادی اقدامات کیے۔ افغانستان اور ایران کے صدور پاکستان آئے۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے لاہورکا دورہ کیا۔
پاکستان کی ان ممالک سے تجارت کا حجم بڑھ گیا۔ بھارت سے کشیدگی کی سطح کم ہوئی۔ ان 10برسوں میں بری طرز حکومت کے مسائل خاصے خراب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں صورتحال زیادہ ابتر رہی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کی بہبود کے لیے مثالی قانون سازی ہوئی۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے خواتین کے حقوق کے لیے ایک اعلی قسم کا قانون بنایا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی اسکیم شروع کی۔ یہ اسکیم اب سندھ میں بھی رائج ہوئی۔ یوں مجموعی طور پر یہ 10 سال جمہوری تسلسل کے ساتھ اداروں کے استحکام، بنیادی حقوق کے تحفظ اور غریب عوام کے حالات کارکو بہتر بنانے کے تناظر میں بھی ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی حکومتوں سے بہتر ثابت ہوئے۔