عہد رفتہ کی داستان
شام کے ڈھلتے سائے میں، جب سورج، دن بھر کے سفر کے بعد، اپنی پناہ گاہ میں جانے سے پہلے، آخری سیڑھی پر کھڑا تھا۔ سوگواروں نے اپنے پیارے چچا چوہدری محمد یوسف کو سفر آخر کیلئے منوں مٹی کے سپرد کیا۔ مہر عبداللہ خان کا پانچواں اور آخری فرزند بھی حیات مستعار کی مدت پوری کر کے جہاں فانی سے رخصت ہوا۔ ابھی صرف ایک سال اور بائیس دن پہلے، سب سے چھوٹے چچا چوہدری رفیق طویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ والد محترم، چاچا صدیق کو تو دنیا سے گئے اب ان گنت برس بیت گئے۔ شیر دل چاچا امین تو ہمارے بچپن میں عنفوان شباب میں داغ مفارقت دے گئے تھے۔ ابھی ایک سال پہلے، شہر کی سرحد، جہاں دور پرے تاحد نگاہ پھیلے کھیتوں کھلیانوں سے جا ملتی ہے، چھوٹے سے راجباہ کے دونوں کناروں پر پھیلی، اس بستی کے چھوٹے سے قبرستان میں تقریباً اسی وقت، ہم نے چچا رفیق کو الوداع کیا تھا۔ صرف ایک سال بعد، اس شہر خموشاں میں دو قطار دور ایک نئی قبر آگے آئی ہے۔ اپنی زندگی کے بیشتر ماہ و سال ایک ہی گھر میں مشترکہ خاندان کے طور پر گزارنے والے دونوں بھای، نیم اور شرینح کے کہن سال، پیڑوں سے گھرے قبرستان میں ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ آخری آرام گا ہیں بس اتنی ہی دور جتنا ایک ہی گھر میں رہنے والوں کے کمروں کا فاصلہ۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے، ہمدم دیرینہ۔ سورج غروب ہوچکا تھا۔ لیکن ملگجا سا اجالا ابھی باقی تھا۔ قبرستان کے داخلی دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے۔ آخری قدم اٹھانے سے قبل، غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو پانی کے چھڑکائو سے گیلی مٹی کی ڈھیری دیسی گلابوں کی پتیوں سے اَٹی پڑی تھی۔ یار باش چچا یوسف کے نئے پرانے رفیقان خاص، باری باری رخصت ہورہے تھے۔
چاچا یوسف نے بڑی دبنگ اور دلیرانہ زندگی گزاری۔ ساری زندگی پاؤں میں چکر رہا۔ سیلانی طبع کے مالک تھے۔ ساری زندگی سندھ سے لیکر پنجاب تک پھیلی اپنی دوستیاں نبھائیں۔ جوانی سندھ کے ریگزاروں میں نوابی شان و شوکت سے گزاری۔ قیام پاکستان کے ابتدائی عشروں میں پنجابی آباد کاروں کیلئے وادی مہران کے حالات اتنے ساز گار نہ تھے۔ قبائلی روایتی سرداروں کو آباد کاروں کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ساری انگلیاں ایک برابر نہیں ہوتی۔ پنجابی آباد کاروں کا خاندان خیر پور میں بسنے کے بعد دن رات کی محنت شاقہ سے ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتا چلا گیا۔ چند سالوں میں صحرائی سماج میں ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ قبائلی سماج میں فیصلے طاقت کی زبان میں طے ہوتے ہیں۔ مقامی ناخدا وں کی آنکھوں میں چند سالوں میں بسی عبد اللہ جو گوٹھ نامی بستی کھٹکنے لگی۔ اس داستان کے اسرار آج بھی پوشیدہ ہیں۔ لیکن خاندانی ناموس، وقار کو چیلنج درپیش ہوا تو چچا یوسف سمیت تمام مرد ہتھیار بدست سینہ سپر ہوگئے۔ گنے کے قد آدم کھیتوں کے کنارے وہ خونی داستان لکھی گئی۔ جس نے اگلے کئی عشروں کیلئے اس خاندان کی تقدیر کا فیصلہ کردیا۔ اس حکایت خونچکاں کا شاید ہی کوئی کردار اب زندہ ہو۔ بہرحال یہ میرے باہمت، با حوصلہ ابو کی ثابت قدمی تھی۔ جو صبر کی انگلی تھامے اپنی دھن میں مصروف کار رہے۔ ہجرت کا فیصلہ تو چکا تھا۔ لیکن میدان چھوڑنے کا ہر گز نہیں۔ تمام بھائی اور جان نثاروں کی عمر قید اور پھانسیاں کیسے ریلیف اور رہائی میں تبدیل ہوئی۔ یہ طویل کہانی ہے۔ بحر حال آخر کار باقی ماندہ پونجی اونے پونے داموں بیچ کر سامان سفر باندھ لیا گیا۔ واپسی کا سفر رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں شروع ہوا۔ جو آج بھی نسل در نسل جاری ہے۔ وہ ان دیکھی بستی عبد اللہ جو گوٹھ دھرتی کے سینے اور ہمارے دلوں میں سانس لیتی ہے۔ بچی کھچی پونجی سے ضلع ساہیوال کی تحصیل پاکپتن کی چند ایکڑ زمین پر جہد بقا کا سفر شروع ہوا۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق مقابلہ ایک مرتبہ پھر انگریزوں کے پروردہ مخلوق خدا کو کمی سمجھنے والے زمین داروں سے پڑ گیا۔ فیصلہ تو آخر پنچایت میں ہوا۔ لیکن اس سے قبل رعایا کو اپنے برابر بیٹھنے کی اجاڑ ت نہ دینے والوں سے بندوق کی زبان میں بات کی گئی۔ اس معرکہ کے مرکزی کردار بھی چچا یوسف تھے۔ آنے والے ماہ و سال علاقے میں عزت و آبرو اور آن بان کے ساتھ گزرے۔ جیل کی سختیاں انسان کو تلخ مزاج، منفی سوچ کا حامل اور چڑچڑا بنا دیتی ہیں۔
لیکن چچا یوسف نہایت بے تکلفانہ، شگفتہ مزاج اور بزلہ سنج تھے۔ اگر چہ جوانی میں نہایت سرکش اور متلون مزاج تھے۔ لیکن کبھی حفظ مراتب اور بزرگوں کے احترام کا دامن نہیں چھوڑا۔ شاید جیل کی زندگی نے ان کو ہر طرح کے خوف سے آزاد کردیا تھا۔ لہٰذا کبھی کسی جاگیر دار، سرمایہ دار اور زور آور سے مرعوب ہوتے نہیں دیکھا۔ کبھی چچا سمیت کسی بھی بزرگ کی زبان سے ماضی گم گشتہ کی بڑ اور حال کا شکوہ نہیں سنا۔ سب کچھ لٹا کر بھی ملال کا شائبہ اور شکوے کی شکن مشاہدہ میں نہیں آئی۔ چچا سیاسی بیٹھکوں اور محفلوں کی جان تھی قومی اسمبلی سے لیکر یونین کونسل تک کوئی الیکشن ان کی شمولیت کے بغیر ادھورا رہتا۔ جس کی حمایت کا اعلان کردیتے اس کے جلسوں میں دبنگ تقریریں کرتے۔ اور مخالفین پر تابڑ توڑ حملے کرتے۔ ایک دفعہ خود ایک بڑے جاگیر دار خاندان کے مقابلے میں یونین کونسل کے الیکشن میں کھڑے ہوگئے۔ سارے علاقے کے زعما کی درخواست اور دبائو کے باوجود دستبردار نہ ہوئے اور بے سروسامانی کے عالم میں ایسا الیکشن لڑا کہ پورے ضلع میں گونج سنای دی۔ ساہیوال شہر شفٹ ہوئے تو یہاں بھی متحرک زندگی گزاری۔ چچا یوسف ہمارے گھرانے کے برعکس سیاسی طور پر دائیں بازو کے حامی اور پیپلز پارٹی کے بدترین مخالف تھے۔ زرداری اور بھٹو خاندان کے متعلق حقیقی اور فرضی ایسے واقعات سناتے کہ پیپلز پارٹی والے میدان چھوڑ کے بھاگ جاتے۔ چچا نے طویل اور اچھی صحت کی حامل زندگی گزاری۔ واجی نصابی تعلیم کے باوجود عمدہ ذوق مطالعہ کے مالک تھے۔ کرنٹ افیئرز سے ہر لحظہ باخبر رہتے۔ ان کی زندگی کی طویل داستان چند سطروں میں سمیٹی نہیں جاسکتی۔ وہ اب اس دنیا سے چلے گئے۔ وہ عام انسان ہوکر بھی خاص تھے۔ ان سے ہم نے آن بان، وقار اور برابری کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا چلن سیکھا۔
زندگی کی شاہراہ پر سفر جاری ہے۔ ایک پوری نسل جو ہمارے لیے جلتی کڑھتی دھوپ ٹھنڈے سائے کی مانند تھے۔ اپنی اپنی باری پر مقررہ پڑاؤ پر جا اترے۔ کبھی واپس نہ آنے کیلئے۔ اگلی ذمہ داریاں اپنے جانشینوں کو سونپ کر۔ ہمارے بزرگوں نے کوئی جائیداد، بنک بیلنس مال و مویشی کچھ نہیں چھوڑا۔ لیکن زندہ رہنے کا سلیقہ ضرور سکھایا ہے۔ ہم سب اپنی بساط کے مطابق کا زار حیات میں برسر پیکار ہیں۔ ان کا سایہ ہمارے سروں پر نہیں لیکن دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالی سب بزرگوں کی بشری لغزشیں، کوتاہیاں غلطیاں معاف فرمائیں۔ آمین