ضمنی انتخابات یا حکومت بارے ریفرنڈم؟
19فروری2021 کو پنجاب کی مشہور تحصیل، ڈسکہ این اے75، میں ضمنی انتخاب کا میدان لگ رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشست کو فتح کرنے کے لیے نون لیگ، پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کے اُمیدوار میدان میں ہیں۔ کچھ آزاد امیدوار بھی قسمت آزمائی کے لیے موجود ہیں۔
پیپلز پارٹی کی ایک خاتون اُمیدوار بھی مقابلے کے لیے نکلی تھیں لیکن اُن کا راستہ پی ڈی ایم قیادت نے روک دیا۔ گویا مقابلہ نون لیگ اور پی ٹی آئی میں ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اقتدار اور اختیار کے تخت پر براجمان ہے۔ اس پس منظر میں وہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کا میدان اپنے حق میں مار لینا چاہتی ہے۔ فتح حاصل کرنے کی یہ مہم مگر خاصی اوکھی ہے۔
پی ڈی ایم کی اتحادی طاقت یہاں نون لیگی اُمیدوار کے لیے بروئے کار آ رہی ہے۔ ڈسکہ ویسے بھی پنجاب کے اُن اضلاع میں شامل ہے جہاں نون لیگ کو غلبہ اور مقبولیت حاصل ہے۔ مقبولیت اور محبوبیت کی اس طاقتور فضا کو اپنے حق میں پلٹنا پی ٹی آئی کے لیے بڑا دشوار ہے۔ ضلع سیالکوٹ، ضلع نارووال اور ضلع گوجرانوالہ پنجاب کے وہ اضلاع ہیں جہاں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو بہت بُری طرح شکست ہُوئی تھی۔
اِنہی انتخابات میں ڈسکہ کے مذکورہ حلقے (این اے75) میں نون لیگی اُمیدوار (سید افتخار الحسن شاہ عرف ظاہرے شاہ) نے بھاری اکثریت سے پی ٹی آئی کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ ظاہرے شاہ نے پچھلے تین عشروں میں ڈسکہ میں اِسی حلقے سے مسلسل کبھی ایم این اے اور کبھی ایم پی اے کی حیثیت میں فتح حاصل کیے رکھی۔ افتخارشاہ کے وفات پا جانے سے نون لیگ کی یہ سیٹ خالی ہو گئی تھی۔ اب نون لیگ نے اِسی سیٹ پر افتخار الحسن شاہ مرحوم کی صاحبزادی، نوشین افتخار شاہ، کو مقابلے کے لیے میدان میں اُتار رکھا ہے۔ نوشین صاحبہ کے بالمقابل پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی ہیں۔ ملہی صاحب کمزور شخص نہیں ہیں۔
پچھلے جنرل الیکشنز میں گوجرانوالہ ڈویژن میں پی ٹی آئی فتحیاب نہیں ہو سکی تھی لیکن پچھلے ڈھائی برسوں کے دوران پی ٹی آئی نے ضلع سیالکوٹ، ضلع نارووال اور ضلع گوجرانوالہ (ڈسکہ جس کا مشہور جزو ہے) میں اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی ہے۔
سیالکوٹ شہر کے آس پاس سے عمران خان نے اپنے لیے دو مشیرانِ خاص کا انتخاب تو ضرور کیا لیکن اس اقدام سے مقامی اضلاع میں پی ٹی آئی کو سیاسی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ بے تحاشہ مہنگائی، بڑھتی بے روزگاری اور ترقیاتی کاموں کی عدم موجودگی نے ویسے ہی حکومت کے لیے مخصوص جذبات پیدا کررکھے ہیں۔ ان کی موجودگی میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار کو ووٹ دینا دل گردے کا کام ہے۔ بعض قوتوں نے ڈسکہ میں نون لیگی اُمیدوار کی اعانت کے لیے آنے والی نون لیگی قیادت کو میدان سے دوڑانے اور فرار کرانے کے لیے اپنے حربے بھی آزمائے ہیں مگر بات بنی نہیں ہے۔
مثال کے طور پر وزیر آباد سے نون لیگی رہنما عطاء اللہ تارڑ کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری و مبینہ تشدد اور پھر فوری رہائی۔ ڈسکہ میں نون لیگ اگرچہ خاصی مضبوط ہے لیکن اس کے باوجود نون لیگ نے اپنی الیکشن کمپین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نون لیگ کے صوبائی صدر، رانا ثناء اللہ، مسلسل مذکورہ حلقے میں نون لیگی جلسوں کے روحِ رواں بنے رہے۔ پی ڈی ایم کے کئی قائدین بھی نون لیگی اُمیدوار کے دست و بازو بن کر دکھائی دیے ہیں۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ صاحب۔
قمر زمان کائرہ 13فروری کو ڈسکہ کے اُس جلسہ میں بھی موجود تھے جس سے محترمہ مریم نواز شریف نے خطاب کیا۔ اس جلسے میں اے این پی کے مشہور سیاستدان میاں افتخار حسین صاحب بھی مریم نواز کے ساتھ ڈائس پر دیکھے گئے۔ یہ اتحادی اظہار دراصل نون لیگی اُمیدوار، نوشین شاہ، کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے بھی ضروری تھا اور یہ دکھانا بھی مقصود کہ پی ڈی ایم کے اتحاد، سوچ اور یکجہتی میں کوئی دراڑ نہیں ہے۔ لاریب 13فروری کو مریم نواز کے پون گھنٹہ خطاب نے ڈسکہ میں نون لیگی ووٹروں کے دلوں کو خوب گرمایا۔ اس جلسے کی بھرپور کامیابی نے یہ بھی ثابت کیا کہ محترمہ مریم نواز واقعیGreat Crowd Pullerہیں۔ اُن کے خطاب نے ڈسکہ سے متصل، وزیر آباد، میں ہونے والے صوبائی ضمنی انتخاب(پی پی51) پر بھی خاص اثرات مرتب کیے ہیں۔
یہ سیٹ بھی نون لیگی ایم پی اے (شوکت منظور چیمہ)کی وفات سے خالی ہُوئی تھی۔ اب یہ ضمنی الیکشن اُن کی بیوہ (طلعت چیمہ) نون لیگ ہی کے ٹکٹ پر لڑ رہی ہیں۔ طلعت چیمہ بھی اپنی کامیابی کے لیے بڑی پُر اُمید ہیں۔ اُن کے مدِ مقابل پی ٹی آئی کے چوہدری محمد یوسف ہیں۔ چوہدری یوسف کے سب سے بڑے سیاسی سپورٹر معروف بزرگ سیاستدان حامد ناصر چٹھہ ہیں۔ چٹھہ صاحب کا بیٹا پچھلے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہار گیا تھا۔ وزیر آباد میں نون لیگی اُمیدوار کے حق میں مریم نواز کی پنجابی میں کی گئی تقریر کا سحرتوڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات کی کمپین میں پی ٹی آئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بھرپور بیانات پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ہمت افزائی کا باعث بنتے رہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی کی پریس کانفرنسوں میں محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نظر آتی رہیں۔
وزیر اعظم صاحب کے(سابق) معاونِ خصوصی، عثمان ڈار صاحب پی ٹی آئی کے اُمیدواروں کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔ انھوں نےNA 75کے ضمنی انتخاب سے ایک ہفتہ قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا تھا تاکہ پوری دلجمعی کے ساتھ پی ٹی آئی کی فتح یقینی بنا سکیں۔ پی ٹی آئی کی خاتون لیڈر، زاہدہ لطیف، اپنی 200جانباز اور کمٹڈ ساتھیوں کے ساتھ ڈسکہ اور وزیر آباد میں موجود رہیں۔ اس طاقت اور حکومتی آشیرواد کے باوجود مقابلہ کرتے ہُوئے پی ٹی آئی کو بہرحال دانتوں پسینہ آرہا ہے۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ نون لیگی امیدوار(نوشین شاہ) سیاسی اور خاندانی اعتبار سے نہایت مضبوط ہیں۔
انھیں میدان سے آؤٹ کرنا سہل نہیں ہے۔ وہ ڈسکہ کے مشہور ترین نقشبندی پیر خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ محترمہ کے دادا(پیر فیض الحسن شاہ) بھی معروف سیاسی و مذہبی شخصیت رہے ہیں۔ فیض الحسن شاہ صاحب مرحوم تو صدر ایوب خان کے مقربین میں شامل رہے ہیں۔ اُن کا ذکر جنرل ایوب خان نے اپنے مشہور روزنامچوں (Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan) میں بھی کیا ہے۔ جس خاندان کی جڑیں اپنے علاقے میں اسقدر مضبوط اور گہری ہوں، اُس کے کسی فرد کو انتخابی میدان میں شکست دینا خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔ پچھلے ڈھائی برسوں کے دوران پی ٹی آئی نے عوام میں جو "نیک نامی" کمائی ہے، یہ بھی توان ضمنی انتخابات میں اپنا رنگ دکھائے گی۔ یوں دیکھا جائے تو ڈسکہ اور وزیر آباد کے یہ دونوں ضمنی انتخابات آج عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کے لیے عوامی ریفرنڈم بھی ہوں گے۔