وینڈی شرمین کا دَورئہ پاکستان : مقاصد کیا ہیں؟
پاک امریکا تعلقات بوجوہ خوشگوار نہیں ہیں۔ افغانستان میں قیامِ امن، طالبان کو امریکیوں سے ملوانے اور اگست 2021کے وسط میں امریکی و اتحادی افواج کو افغانستان سے بحفاظت نکلنے میں پاکستان نے امریکا کی ہر ممکنہ امداد کی۔ امریکا پھر بھی پاکستان سے خوش نہیں ہے۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کی بنیاد پر امریکی انتظامیہ اور کئی امریکی کانگریس ارکان نے پاکستان پر دل شکن الزامات عائد کیے ہیں۔ 22امریکی کانگریس مینوں نے باقاعدہ پاکستان کے خلاف چارج شیٹ تیار کی ہے۔ امریکی افواج کے چند سینئر ذمے داران نے بھی افغانستان میں اپنی خفت مٹانے اور شکست کا بدلہ چکانے کے لیے نزلہ پاکستان پر گرایا ہے۔ جناب عمران خان کی حکومت اور وزارتِ خارجہ نے ان جملہ امریکی الزامات کا جواب زیر لب اور بین السطور ہی دیا ہے۔ شائد وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا بھی تھا کہ امریکی تہمتوں کا جواب سختی سے نہ دیا جائے۔
پاکستان، پاکستانی عوام اور پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان کو اس بات کا بھی بجا شکوہ ہے کہ جب سے جو بائیڈن صاحب امریکی صدارت کے تخت پر براجمان ہُوئے ہیں، انھوں نے پاکستان کے وزیر اعظم سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا ہے۔ اِسی پس منظر میں کئی غیر ملکی صحافیوں نے اِسی بارے عمران خان سے سوالات بھی کیے ہیں۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔
پاکستان کو اس بات کا بھی رنج اور شکوہ ہے کہ اِسی عرصے کے دوران امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، سے فون پر بھی تین چار بار گفتگو کی ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل جو بائیڈن نے واشنگٹن میں مودی سے براہِ راست ملاقات بھی کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن، بھارت کا دو بار دَورہ بھی کر چکے ہیں لیکن وہ پاکستان آنے سے گریزاں رہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسئلہ افغانستان اور افغانستان کے طالبان کی وجہ سے امریکا نے پاکستان سے منہ موڑ رکھا ہے۔
اور اب امریکی نائب وزیر خارجہ، وینڈی شرمین، دو روزہ دَورے پر اسلام آباد قدم رکھ رہی ہیں۔ لیکن یہ محترمہ بھی شیڈول کے مطابق اپنے سات رکنی وفد کے ساتھ پہلے بھارت پہنچیں۔ بھارت میں اُن کا سفارتی قیام تین روزہ تھا۔ اُن کے وفد میں تین ایسے افراد بھی شامل تھے جو امریکا اور بھارت کے درمیان تجارت کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ افراد وینڈی شرمین کی قیادت میں ممتاز ترین بھارتی تاجروں اور صنعت کاروں سے کئی گھنٹے ملا ہے۔ وینڈی شرمین کا دَورئہ بھارت خاصا متنوع اور وسیع تھا۔ انھوں نے بھارتی وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی۔
وہ بھارتی سیکریٹری خارجہ، ہرش وردھان شرنگلا، سے بھی ملیں اور بھارتی وزیر خارجہ، جے شنکر، سے بھی تین گھنٹے بات چیت کرتی رہیں۔ نئی دہلی میں انھوں نے بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر، اُجیت ڈوول، سے مبینہ طور پر بھارتی اور امریکی سیکیورٹی پر خاص گفتگو کی۔ ممبئی میں وینڈی شرمین نے جس ممتاز ترین بھارتی بزنس کمیونٹی سے ملاقات کی، اس کا اہتمام USIBCنے کیا تھا۔ اس فورم میں امریکا اور بھارت کے ایسے بڑے بڑے کاروباری افراد شامل ہیں جن کا کاروبار امریکا اور بھارت میں پھیلا ہُوا ہے۔
بھارتی اخبارات اور میڈیا نے وینڈی شرمین کے تین روزہ دَورے کی بھرپور کوریج کی ہے۔ اس کوریج کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ افغانستان کے نئے طالبان حکمران، افغانستان کی موجودہ صورتحال اور افغانستان میں پاکستان کے کردار کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ انڈین میڈیا کے مطابق: وینڈی شرمین نے دَورئہ بھارت میں چار باتوں پر زور دیا (1) انڈین سیکیورٹی کو ترجیح دی جائے گی (2) افغانستان میں طالبان کے اندازِ حکومت بارے بھارتی تشویشات نظر انداز نہیں کی جا سکتیں (3) طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں امریکا اور بھارت کو جلدی نہیں ہے (4) طالبان کے افغانستان کو دہشت گردوں کی جنت نہیں بننے دیا جائے گا۔
" ٹائمز آف انڈیا" نے 7 اکتوبر 2021 کو اپنے صفحہ اوّل پر وینڈی شرمین کے حوالے سے یہ خبر نمایاں طور پر شایع کی:" امریکی نائب وزیر خارجہ، وینڈی شرمین، نے بھارتی وزیر خارجہ کی موجودگی میں کہا کہ افغان طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرکے دکھائیں، محض باتیں نہ کریں۔ ابھی کوئی ملک طالبان کے افغانستان کو جائز حکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ طالبان کو افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کو نمایاں طور پر تسلیم کرنے اور ان کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔"
ایسے تناؤ کے ماحول میں اب امریکی نائب وزیر خارجہ، وینڈی شرمین، پاکستان تشریف لائی ہیں۔ جناب عمران خان کی حکومت اس پر بھی خوش ہے کہ کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار ہمارے ہاں آیا تو سہی۔ امریکی وزیر خارجہ اگر نہیں تو نائب امریکی وزیر خارجہ ہی سہی۔ حکومت کی مسرت کا عالم یہ ہے کہ ایک سرکاری چٹھی میں مبینہ طور پر اسلام آباد کے ایئر پورٹ حکام کو ہدایات دی گئیں کہ وینڈی شرمین اور اُن کے وفد کو اعلیٰ پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے، اُ ن کی جسمانی اور سامان کی تلاشی بالکل نہ لی جائے۔
حتیٰ کہ انھیں سیکیورٹی چیکنگ کے مخصوص دروازے میں سے بھی نہ گزارا جائے۔ اور جو بائیڈن کی امریکی حکومت کا حال یہ ہے کہ جناب عمران خان کے وزیر صاحب ابھی ستمبر کے پہلے ہفتے نیویارک کے جے ایف کے ایئر پورٹ پر اُترے تو اُن کی سخت تلاشی لی گئی۔ مبینہ طور پر انھیں ایئر پورٹ کے امیگریشن سیکشن میں بلا وجہ بٹھائے رکھا۔ اور آزمائش کا یہ سلسلہ تب ختم ہُوا جب نیویارک میں پاکستان کے قونصل خانے کی ایک اعلیٰ شخصیت کو درمیان داری کرنا پڑی۔ امریکا کو Absolute Notکہنے والے اب نائب امریکی وزیر خارجہ صاحبہ کو یوں استقبال کررہے ہیں کہ آنکھیں فرشِ راہ ہیں۔
وینڈی شرمین ایسے حالات میں پاکستان آئی ہیں جب پاکستان میں (1) پنڈورا پیپرز کا غلغلہ بلند ہے (2) جب پاکستان میں اعلیٰ سطح کے فوی افسران کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ ایک نئی تقرری کا تو ہر جانب شور ہے (3) جب وطنِ عزیز میں "نیب" قوانین میں ترمیمات کے حوالے سے عمران خان حکومت نے ایسے فیصلے کیے ہیں کہ اپوزیشن سخت ناراض ہے اور کہہ رہی ہے کہ ان ترمیمات کی شکل میں دراصل عمران خان نے خود کو ہی این آر او دے دیا ہے (4) جب نون لیگی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن اور اعلیٰ عدلیہ کی عمارت کے سامنے مریم نواز صاحبہ کی (متنازعہ) پریس کانفرنس نے ایک مخصوص ردِ عمل پیدا کررکھا ہے۔
یہ تبدیلیاں، تبادلے اور شورو غوغا پاکستان کا دو روزہ دَورہ کرنے والی نائب امریکی وزیر خارجہ اور اُن کے سات رکنی وفد کے کانوں میں بھی پڑ رہا ہوگا۔ اندازے اور قیافے لگائے جارہے ہیں کہ وینڈی شرمین کایہ دَورئہ پاکستان، افغانستان میں جاری نئی صورتحال اور طالبان کے اندازِ حکمرانی پر تفصیلی بات چیت کرنے کے بارے میں ہوگا۔
یہ وزٹ امریکی وزارتِ خارجہ کے پاکستان بارے آیندہ لائحہ عمل طے کرنے کی راہیں ہموار کرے گا۔ اس لیے ہمارے حکام کو اپنے حواس پر قابو پاتے ہُوئے اعلیٰ تر سفارتی انداز میں پاکستان کے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے کہ اگر پاکستان کے مفادات محفوظ ہیں تو وہ کسی کے مفاد کا بھی تحفظ کرنے کا اہل ہو سکے گا۔ ہمیں دوسروں کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادنے سے پرہیز اور احتراز کرنا چاہیے۔ ہمیں کمزوری کے ایام میں طاقتور ہونے کی بڑ بازی سے بھی گریز پاہونا پڑے گا۔