سات بھارتی ریاستوں میں بغاوت ہونے والی ہے ؟
10ہفتے قبل نریندر مودی اور بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تو ختم کر ڈالی مگر حالات بھارتی حکومت سے سنبھل نہیں رہے ہیں۔ زیر قبضہ کشمیریوں کے کسی بھی ممکنہ ردِ عمل سے بچنے کے لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور ہندو بنیاد پرست جماعت " آر ایس ایس"کے وابستگان نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو میں کوئی بھی نرمی لانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
ساری دُنیا میں اس غیر انسانی بھارتی اقدام کے خلاف واویلا کیا جارہا ہے مگر بھارتی ضِد میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔ بھارتی حکمران یہ تو تسلیم کررہے ہیں کہ پانچ اگست کے غیر منصفانہ اور استحصالانہ اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حالات بہت خراب ہیں لیکن اپنے جرائم پرپردہ ڈالنے کے لیے وہ کشمیریوں کو مزید کچلنا چاہتے ہیں ؛چنانچہ کشمیریوں کے خلاف اپنے آیندہ عزائم کا اظہار کرتے ہُوئے وزیر اعظم مودی کہتے ہیں :"(مقبوضہ)کشمیر میں آرٹیکل370کی منسوخی کے بعد کشیدہ حالات کے باعث لگنے والی پابند یاں اور کرفیو مزید 4ماہ تک برقرار رہیں گی۔ "
مطلب یہ کہ مزید120دنوں کے لیے مجبور کشمیریوں کو بھارتی فوج کے سخت حصار میں رکھا جائے گا۔ آزاد و مغربی دُنیا کی طرف سے اس بھارتی ظلم کے خلاف لپ سروس تو خوب ہو رہی ہے لیکن کوئی عملی اقدام نہیں ہورہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں اس روئیے پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔
بھارتی حکمران پارٹی بھی اِسی زعم میں مبتلا ہو کر یہ کہہ رہی ہے کہ دُنیا کشمیریوں کے ریسکیو کے لیے آگے بڑھے گی نہ کشمیریوں کے حق میں پاکستانی موقف کی حمایت کرے گی۔ اِسی احساس تلے بھارتی وزیر دفاع، راجناتھ سنگھ، کا یہ تازہ بیان قابلِ غور ہے جس میں انھوں نے وزیر اعظم عمران خان سے مخاطب کرتے ہُوئے تکبر سے کہا ہے :"کشمیر کو آپ بھول جائیں۔ اس بارے میں سوچیں بھی مت۔ جہاں مرضی ہے آپ آواز اُٹھائیں، کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی ہم پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ "
یہ متکبرانہ اور پُر غرور لہجہ بھارت کی لُٹیا ڈبونے والا ہے۔ بھارت کی وہ تمام ریاستیں جنھیں بندوق اور الحاق کے نام پر بھارتی یونین کا حصہ بنایا گیا تھا، اُن سب میں یہ احساس شدت سے سر اُٹھانے لگا ہے کہ بھارتی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کے خلاف جو ظالمانہ اقدام 5اگست کو کیا ہے، عنقریب ایسے ہی کسی فیصلے کی سزا وہ بھی بھگتنے والے ہیں۔ بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستیں، جنھیں "سیون سسٹر اسٹیٹس" بھی کہا جاتا ہے۔
اس احساس سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان ریاستوں میں پہلے ہی کئی عشروں سے علیحدگی پسندی اور بغاوت کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان ساتوں بھارتی باغی ریاستوں کے نام یوں ہیں : آسام، میگھالیہ، ارونچل پردیش، منی پور، میزو رام، ناگا لینڈ اور تری پورہ۔ آسام میں تو حالات ویسے ہی بہت دگرگوں ہیں کہ وہاں بی جے پی نے لاکھوں لوگوں کو بھارتی شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے خلاف پانچ اگست کے بھارتی فیصلے کے بعدان "سیون سسٹر اسٹیٹس" میں بغاوت اور ناراضی کو مزید مہمیز ملی ہے۔ دیگر بھارتی ریاستوں کے سمجھدار بھارتی دانشور بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے خلاف بی جے پی حکومت کے فیصلے سے ان علیحدگی پسند بھارتی صوبوں میں یہ احساس جاگزیں ہو گیا ہے کہ اُن کے خلاف بھی ایسی ہی غاصبانہ واردات ڈالی جا سکتی ہے۔
مثال کے طور پر بھارت کے جنوب میں واقع تامل ناڈو ریاست کے مشہور سیاستدان، انسانی حقوق کے علمبردار اور کمونسٹ رہنما، اے مارکس، نے ایک انٹرویو میں کہا ہے :"جو کچھ آجکل کشمیر اور آسام میں ہورہا ہے، اس کو بہت جلد کیرالہ اور تامل ناڈو میں بھی دہرایا جائے گا۔ " مشہور بھارتی مسلمان تنظیم " مجلسِ اتحاد المسلمین" اور حیدر آباد سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمنٹ، اسدالدین اویسی، نے بھی کہا ہے :" پانچ اگست کو جو غیر منصفانہ اور ظالمانہ فیصلہ کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف صادر کیا گیا ہے۔
گوڈسے ( گاندھی جی کا قاتل جو آر ایس ایس کا ممبر تھا)کی اولاد کے ہاتھوں ناگا لینڈ، میزورام، منی پوراور آسام پر بھی ایسا ہی وار ہو سکتا ہے۔ "اسد الدین اویسی کے اس جرأتمندانہ بیان سے بی جے پی اور آر ایس ایس کو مرچیں تو بہت لگی ہیں لیکن واقعی حالات کے پیشِ نظر وہ خود بھی ان بگڑے اور دگرگوں معاملات کا انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
خود بھارت کے اندر اس امر پر اتفاق پایا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے بھارت کی مذکورہ ساتوں باغی ریاستوں میں علیحدگی پسندی کو فروغ ملا ہے۔ آسام اور ناگالینڈ میں تو پچھلے دو ماہ کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز اور علیحدگی پسندوں کے درمیان 21مرتبہ مسلح تصادم ہو چکا ہے۔ نقشے میں بھی دیکھیں تویہ ساتوں باغی ریاستیں فطری اعتبار سے بھی بھارت سے الگ تھلگ نظر آتی ہیں۔
ان کا کُل رقبہ 2لاکھ 62ہزار 230 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ ان کی سرحدوں کی لمبائی 5ہزار کلومیٹر سے زائد ہے اور یہ پانچ ملکوں (تبت، چین، میانمار، نیپال اور بنگلہ دیش)سے متصل ہیں۔ درجنوں بار ایسا ہو چکا ہے کہ میزو رام، منی پور اور ناگالینڈ کے باغی اور علیحدگی پسند مسلّح عناصر بھارتی فوج اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں کرنے اور انھیں خاصا جانی و مالی نقصان پہنچانے کے بعد ہمسایہ میانمار ( برما) کے جنگلوں میں جا چھپتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی بھارت کا ایک بڑا تنازع اور ناراضی یہی ہے کہ علیحدگی پسند "سیون سسٹر اسٹیٹس" کی دو ریاستوں (میگھالیہ اور تری پورہ) کے باغی بھارتی فوج کو بار بار نقصان پہنچا کر ہمسایہ بنگلہ دیش میں پناہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بھارت کی مذکورہ ساتوں باغی اور علیحدگی پسند ریاستوں میں آزادی کی تحریکوں نے، اب پانچ اگست کے بھارتی فیصلے کے بعد، زیادہ زور پکڑا ہے۔ ارونچل پردیش میں بروئے کار بوڈو سیکیورٹی فورسز، ناگالینڈ میں ناگا نیشنل سیکیورٹی کونسل اور این ایس سی این، آسام کی یونائٹڈ لبریشن فرنٹ، منی پور کی پیپلز لبریشن آرمی، میزو رام کی ایم این ایف اور تری پورہ کی نیشنل لبریشن فرنٹ و آل تری پورہ ٹائیگر فورس اور ٹی این وی ایسی علیحدگی پسند تحریکیں مزید متحرک ہو چکی ہیں۔ "جھاڑ کھنڈ مکتی مورچہ"ان کے علاوہ ہے۔ ناگالینڈ کے علیحدگی پسند لیڈرز تو بھارت سرکار سے ملنے پر بالکل تیار نہیں ہیں کہ پہلے ہی کئی بار دلّی سرکار ملاقات کے بہانے انھیں دھوکا دے چکی ہے۔
ممتاز بھارتی وکیل، بالاگوپال، اہم بھارتی جریدے (اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی) میں اپنے مضمون میں یہاں تک لکھ چکے ہیں :"اگر کوئی ایک لمحے کے لیے ہتھیاروں سے پرے دیکھ سکے تو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ کم از کم کشمیر اور ناگالینڈ میں عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ہم بھارتی نہیں ہیں اور ہمیں مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ اپنے آپ کو بھارتی سمجھیں۔ " بھارت سرکار کو واضح طور پر دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اُس نے سنگین غلطی کی ہے۔ مودی کا فیصلہ اُن کے اپنے گلے پڑنے والا ہے۔