قبائلی اضلاع کے انتخابات: کریڈٹ افواجِ پاکستان کو
آتش فشاں بنے اس پاکستانی خطے ( سابق فاٹا) کے بارے میں کبھی کوئی یقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ یہ صوبہ خیبرپختونخوا میں ضَم ہو جائے گا؟ کیاکوئی کہہ سکتا تھا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے کی ایجنسیاں کبھی باقاعدہ اضلاع بن جائیں گی؟
کوئی حق الیقین کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ کبھی یہاں باقاعدہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نگرانی میں، انتخابات کا ڈول بھی ڈالا جائے گا؟ یہ سب بظاہر ناممکنات اور اَن ہونیاں ہماری آنکھوں کے سامنے ہونیاں اور ممکنات کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔
پچھلی اور موجودہ حکومت نے ’فاٹا" کو خیبر پختونخوا میں ضَم کرنے کے فیصلے میں غیر معمولی استقلال کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے میں برکت ڈالی ہے۔ اور اُن سب قوتوں، گروہوں اور شخصیات کو پسپائی اختیار کرنا پڑی جنھوں نے "فاٹا" کے خیبرپختونخوا میں ضَم کرنے کے فیصلے کی ہر سطح پر مخالفت کی تھی۔ "فاٹا" کا "کے پی کے" میں ضَم ہونا اور اب قبائلی اضلاع میں کامیاب صوبائی انتخابات کا انعقاد اس امر کا مظہر ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان پر اﷲ کریم کا خاص کرم ہے۔
اور یہ ملک تاابد قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا تھا۔ ہم صمیمِ قلب اور فخر سے یہ کہہ سکتے کہ اگر افواجِ پاکستان کے افسروں، جوانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جملہ وابستگان اور مقامی محبِ وطن قبائلیوں نے محض استحکامِ پاکستان اور یکجہتیِ پاکستان کی خاطر اپنی قیمتی جانوں اور زندگی بھر کے کمائے گئے مال کی قربانیاں نہ دی ہوتیں تو آج یہاں صوبائی انتخابات ہورہے ہوتے نہ یہاں امن کا پھریرا لہرا رہا ہوتا۔ ہمارا سلام اور سیلوٹ ہے افواجِ پاکستان کے اُن جوانوں کو جنھوں نے بے دریغ اپنے خون کے نذرانے پیش کرکے معاندینِ پاکستان کو شکستِ فاش دی ہے۔
دو دن پہلے خیبرپختونخوا اسمبلی میں سابقہ "فاٹا" کے قبائلی اضلاع ( خیبر، باجوڑ، مہمند، کُرم، اورکزئی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، فرنٹیر ریجن) کو نمایندگی دینے کے لیے پہلی بار جوانتخابات منعقد ہُوئے ہیں، انھوں نے درحقیقت امن کی فتح کا پرچم لہرایا ہے۔ یہ انتخابات فی الحقیقت دہشتگردی، دہشتگردوں، امن دشمنوں اور دشمنانِ پاکستان کی شکست ہے۔
اُن لوگوں نے بھی حصہ لیا ہے جنھوں نے انضمام کی مخالفت کی تھی۔ مثلاً: حمید اللہ جان آفریدی وغیرہ۔ قبائلی اضلاع سے خیبر پختون خوا اسمبلی کی 16 جنرل اور 5مخصوص نشستوں کے لیے انتخاب ہُوئے ہیں۔ باجوڑ کے لیے تین، مہمند دو، خیبر تین، کُرم دو، اورکزئی ایک، شمالی وزیرستان دو، جنوبی وزیرستان دو اور فرنٹیئر ریجنز ایک۔ ان میں 4 مخصوص نشستیں خواتین اورایک نشست اقلیتوں کے لیے مخصوص ہے۔
قبائلی اضلاع میں 1897پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے۔ ان میں 554 کو انتہائی حساس اور461کو حساس قرار دیا گیا تھا۔ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے تو تمام پولنگ اسٹیشن حساسیت کی کیٹگری میں شامل تھے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ قبائلی اضلاع کی16جنرل نشستوں کے لیے مجموعی طور پر 297 امیدواروں نے حصہ لیا۔ مستحسن بات یہ ہے کہ ملک کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا ہے۔
اُمید افزا بات یہ بھی ہے کہ سخت کنزرویٹو ماحول کے باوصف دو خواتین نے بھی جنرل نشستوں پر الیکشن لڑا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون ( ناہید آفریدی) ضلع خیبر سے اے این پی کے ٹکٹ پر اور دوسری خاتون(مسز مالسا) ضلع کُرم سے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر مرد اُمیدواروں کے مدِمقابل آئیں۔ 28لاکھ سے زائد ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد 11لاکھ 30 ہزار 529 جب کہ مرد ووٹرز کی تعداد 16لاکھ 71 ہزار 305تھی۔ پاک فوج نے یہاں اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا ایک بار پھر منوایا ہے۔
ہفتہ رفتہ کے دوران پورے (سابقہ فاٹاکے) تمام قبائلی اضلاع میں زبردست انتخابی گہماگہمی رہی۔ باعثِ مسرت بات یہ ہے کہ تقریباً اکثریتی اُمیدواروں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مروجہ ضوابط کی پابندی کی۔ اہل پاکستان کے لیے یہ انتہائی مسرت و شادمانی کا موقع تھا کہ ماضی میں دہشتگردی کا گڑھ کہلانے والے یہ علاقے پہلی بار قومی دھارے میں شامل ہورہے ہیں۔ 20جولائی 2019 بروز ہفتہ قبائلی اضلاع میں کئی مقامات پر یہ مناظر دل افروز تھے کہ غیور قبائلی اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہُوئے قومی پرچم بھی اُٹھائے ہُوئے تھے۔
اس علاقہ کو دہشتگردوں سے پاک اور ان کی خفیہ کمین گاہوں کو ختم کرنے کے لیے پاک فوج نے مشکل ترین جنگ لڑی ہے۔ کامیاب ہو کر اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہُوئی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف آپریشنوں کے دوران ہزاروں دہشتگردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا۔ دہشتگردوں کی خفیہ کمین گاہوں سے جدید ترین خطرناک جنگی اسلحہ کے علاوہ لاکھوں ڈالرزاور دیگر غیر ملکی کرنسیاں بھی برآمد کرکے ضبط کی گئیں۔
اِسی پُر خطر علاقہ میں دہشتگردوں کی قائم کردہ متعدد اسلحہ ساز فیکٹریوں کو بھی تباہ کیا گیا۔ شائد دنیا کی عسکری تاریخ میں یہ جنگ سب سے زیادہ پیچیدہ اور مہلک تھی؛ چنانچہ ُدنیا بھر کے عسکری حلقوں نے بجا طور پرسراہتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ سرحد کے دوسری طرف اتحادی افواج تقریباً ایسی ہی جنگ لڑ رہی تھیں لیکن اپنے بے پناہ مالی و عسکری وسائل کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہیں۔
افواجِ پاکستان نے اِسی فاٹا یا قبائلی اضلاع کے سرحدی علاقوں میں دہشتگردوں کی آمدورفت اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا بھی سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ سرحد پار سے شدید رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں لیکن ہماری جری افواج نے 2611کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ بند نہیں کیا ہے۔
انشاء اللہ آیندہ سال آزمائشوں سے بھرا یہ پراجیکٹ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ فی الحال پاک فوج، پاک افغان سرحد پر 462 کلومیٹر جب کہ صوبہ بلوچستان کے علاقہ میں 181 کلومیٹر باڑ لگا چکی ہے۔ اِنہی سرحدوں پر 843 چیک پوسٹیں بھی تعمیر کی جارہی ہیں۔ ان میں سے 233 چیک پوسٹوں کی عمارتیں مکمل ہوچکی ہیں جب کہ بقیہ 140 کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔ پاک فوج کی شاندار کارکردگی کے نتیجے میں اس علاقہ میں امن بحال ہونے کے بعدپختون جرگے کی درخواست پر 2016 میں 31 فیصد چیک پوسٹیں ختم کردی گئی تھیں۔
یہ ختم ہونے سے علاقہ میں تجارتی سرگرمیوں میں خاصا اضافہ ہُوا۔ پاک فوج کے زیر انتظام اب تک اس علاقہ میں 8 سو کلومیٹر نئی سڑکیں تعمیر کی جاچکی ہیں۔ دہشتگردی کی جنگ کے دوران اس علاقہ میں تباہ ہونیوالے تعلیمی اداروں کو بھی ہمارے عسکری اداروں نے بحال کردیا ہے جب کہ ان علاقوں میں کئی کیڈٹ اسکولوں کا بھی اجرا کیا گیا ہے۔
ان کیڈٹ کالجوں میں اکثریت پختون طلبا کی ہے۔ یہ مقامیوں کے لیے نعمتِ کبریٰ ہے۔ اب انتخابات کی شکل میں، ماضی میں دہشتگردی اور شورش کا گڑھ سمجھے جانے والے اس علاقہ کے غیور پختونوں کو طویل مشکلات کے بعد پہلی بار پاکستانی ریاست کی مین اسٹریم میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ شاباش ہے وزیر اعظم جناب عمران خان کو بھی جو ہمارے (نئے) قبائلی اضلاع کو ہر لحاظ سے پاکستان کے بقیہ علاقوں کے مساوی لانے کی عملی کوششیں کررہے ہیں۔ قبائلی اضلاع سے منتخب ہونے والے نئے ارکانِ اسمبلی پر ہمیں کامل اعتبار ہونا چاہیے کہ یہ سب پاکستان کی بہتری اوراستحکام کے لیے اپنا مفید کردار ادا کر یں گے۔ انشاء اللہ۔