مودی کے اقدام سے بھارتی دانشور مایوس ہیں
ڈاکٹر پرتاپ بھانو مہتہ بھارت کے ممتاز دانشوروں میں سرِ فہرست ہیں۔ سیاسیات و سماجیات اُن کے مرغوب موضوعات ہیں۔ انھوں نے برطانیہ کی مشہور جامعہ، اوکسفرڈ یونیورسٹی، سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی۔ نئی دہلی کے معروف تھنک ٹینک "سینٹر فار پالیسی ریسرچ" کے صدر بھی رہے۔ جب دیکھا کہ اس ادارے میں حکومتی مداخلت اور ڈکٹیشن بڑھ گئی ہے تو مستعفی ہو گئے۔ آجکل ہریانہ میں"اشوکا یونیورسٹی" کے وائس چانسلر ہیں۔ اُن کی تصنیف The Burden of Democracy بڑی وقیع ہے۔
ڈاکٹر پرتاپ بھانو مہتہ ایسی شخصیت ہیں جو تقریر اور تحریر میں حریف کا ذکر کرتے ہُوئے بین السطور لہجہ اختیار کرتی ہیں نہ کسی طاقتور کا خوف انھیں راستی سے منحرف کرتا ہے۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو زبردستی بھارت میں ضَم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ایک بھارتی تھنک ٹینک نے اس فیصلے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ڈاکٹر پرتاپ مہتہ نے اس اقدام کا نام لیے بغیر بھارتی حکومت، مودی کی ذہنیت اور بھارت میں بڑھتی فاشزم کا گہری نظر سے تجزیہ کیا ہے جس میں کئی پیغامات پوشیدہ ہیں۔
ڈاکٹر پرتاپ بھانو مہتا نے کہا : " فکر کی بات یہ نہیں ہے کہ بھارتی جمہوریت خطرے میں ہے، بلکہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بہتری کی امید بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آنے والے برسوں میں ہمارے ہاں جمہوریت بچے گی بھی یا نہیں؟ گزشتہ چند عشروں میں جو ماحول بنا، جو اُمیدیں پیدا ہوئیں، سب داؤ پر لگی ہیں۔ ہماری جمہوریت کے ساتھ کچھ ایسا ہو رہا ہے جو جمہوریت کی رُوح کو نگلتا جا رہا ہے۔ ہم غصے میں جلتے، بل کھاتے دلوں، چھوٹی ذہنیت اور گھٹیا رُوح والے ملک کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جمہوریت تو آزادی، رواداری اور کشادگی کا نام ہے جہاں یہ اہم ہوتا ہے کہ لوگ کہاں جا رہے ہیں، اُن کی منزل کیا ہے، نہ یہ کہ وہ ماضی میں کہاں سے آئے ہیں۔ قوم پرستی یا اپنی قوم کے مفادات کا والہانہ جذبہ اب ثابت کرنے کی چیز ہو گئی ہے۔ قوم پرستی کا جذبہ اب لوگوں کو تقسیم کرنے اور انھیں الگ الگ خانوں میں بانٹنے میں صَرف کیا جا رہا ہے۔ آپ جتنی چاہیں بھارت میں قوم پرستی کی باتیں کر لیں لیکن یہ معاملہ اب آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ہر سماج میں پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ ہر حکومت اپنے حساب سے سچائی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے۔ ہر حکومت اپنے فائدے کے لیے خاص ماحول بنانا چاہتی ہے۔ لیکن بھارت میں صداقت اور اقلیتوں کے حقوق کو ضعف زیادہ پہنچا ہے۔ "
پرتاپ بھانو مہتا نے اپنے چشم کشا خطاب میں مزید یوں کہا:"ہمیں اشاروں کنایوں میں احکامات دیے جا رہے ہیں کہ آپ سوچیے نہیں، سرکار کے تازہ اقدام پر سوال نہ پوچھیے، ورنہ آپ ملک مخالف قرار دے دیے جائیں گے۔ اِس نئے دَور میں پبلک ڈسکورس کا یہ ڈھانچہ بنایا جا رہا ہے۔ پہلے کبھی انڈیا میںایسا نہیں ہوا۔ جمہوریت کا سب سے اہم عنصر آزادی ہے اور یہ عنصر بھارت میں غصب کیا اور چھینا جا رہا ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں غریب اور اقلیتی گروہوں کی مدد کرنے والے لوگ جیلوں میں جا چکے ہیں۔ درحقیقت اب انڈیا کی کوئی بھی حکومت، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو، شہری آزادیوں کی بات نہیں کرتی۔ شہری آزادیوں کے تحفظ کے موضوع پر حکومت حزبِ اختلاف اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو ساتھ لے کر نہیں چلنا چاہتی۔
بھارت میںجمہوریت اور صداقت کے بارے میں بات کرنا اب بہت خطرناک ہو گیا ہے۔ یاد رکھیے، صداقت گئی تو آزادی بھی گئی۔ جدید بھارت میں ہم دیکھتے ہیں کہ اقتداری و سیاسی طاقت کے لیے مذہب کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ مذہبی رہنما بھی اقتدار کے سامنے جھک رہے ہیں۔ جھوٹے وعدوں پر حکومت کرنے اور غاصبانہ اقدامات کا رواج بڑھ رہا ہے۔ جب ملک کے محافظ اور مقتدر ترین لوگ ہی آپ کو ڈرانے دھمکانے کا کام شروع کر دیں اور لوگوں کو ملک مخالف اور غدار قرار دیں تو کیا بچے گا؟ اگر یہی روش جاری رہی تو آپ اپنی آزادی اور صداقت کو کھو دیں گے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت میں سچ کہنے، سچ لکھنے اور سچ سننے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ "
ڈاکٹر پرتاپ بھانو مہتہ ایسے معروف بھارتی دانشور کے یہ الفاظ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ مقبوضہ کشمیر کے خلاف تازہ بھارتی واردات کو اِنہی الفاظ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ راستباز بھارتی دانشور بھارتی جمہوریت سے مایوس بھی ہیں اور نالاں بھی۔ اس بھارتی جمہوریت نے دِلّی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے مشہور طالب علم راہنما، کنہیا کمار، سے جو بہیمانہ سلوک کیا ہے، وہ تو سارے بھارت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کنہیا کا قصور یہ تھا کہ وہ یونیورسٹی کی حدود میں مذہب اور ذات پات سے بلند رہ کر جمہوری سلوک کی بات کرتا تھا۔
یہی کنہیا کمار انتخابات میں مودی اور بی جے پی کے مقابل کھڑا ہُوا تو امتیاز پسند بھارتی جمہوریت کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے۔ یہ بھارتی جمہوریت ہے جس نے مہاراشٹر میں گوری لنکیش جیسی جمہوریت پرست صحافی کا خون پی لیا۔ اُس بہیمانہ قتل پر جب ممتاز بھارتی دانشوروں، شاعروں، اساتذہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے شدت پسند اور قاتل جماعت کے ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے جلسے جلوس کیے تو انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ آج بھی گوتم نولکھا، سودھا بھردواج، ورنن گھونسلو، ارون فریریا، کرانتی ٹکلا، شہلا رشید، مہت پانڈے، نیہا ڈکشٹ، نکل سنگھ ساہنی، ہریش آیار، نینا راؤ ایسے دانشور جیلیں اور کچہریاں بھگت رہے ہیں۔ جی این سائے بابا ایسے دانشور بھی جیل میں ہیں۔ سائے بابا کا ’جرم، یہ تھا کہ وہ بھارت میں مذہب اور ذات پات کی تفریق کیے بغیر مساوات کی بات کرتے تھے۔
جمہوریت دشمنوں نے مگر دہلی یونیورسٹی کے اس مشہور پروفیسر اور دانشور کی زبان بند کروانے کے لیے اُن پر جھوٹے مقدمے بنائے۔ پروفیسر جی این سائے بابا آج بھارت ( ناگپور ) کی بدنامِ زمانہ جیل میں قید ہیں اور مفلوج ہو چکے ہیں۔
ایک مشہور انڈین اخبارکی سابق ایڈیٹر اورمشہور بھارتی دانشور، مالنی پارتھا سارتھی، نے بھی مذکورہ بالا تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہُوئے کہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر جمہوریت سے دشمنی کرنے والے بھارتی سیاستدانوں نے بھارتی آئین سے کھلواڑ کر کے کشمیریوں کے حقوق ( آرٹیکل 370اور 35اے) پر جو تازہ ڈاکہ ڈالا ہے، یہ اقدام بھارتی جمہوریت اور بھارتی سیکولرازم کی لُٹیا ڈبو دے گا۔
مشہور بھارتی قانون دان اور دانشور، اے جی نورانی، نے اپنی تازہ کتاب(The RSS : A Menace to India) میں بھارتی متعصب و مقتدر جماعت کے مقبوضہ کشمیر پرکی گئی بد نیتیوںکے جس طرح پرخچے اُڑائے ہیں، وہ بھی بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے کافی ہے۔ سچ یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور عمران خان کے لیے نئے چیلنج کھڑے کر دیے ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا آسان نہیں ہے۔