کس کے ہاتھ پہ لہو تلاش کریں؟
اگر کسی مغربی ملک میں یہ سانحہ پیش آتا تو پوری حکومت لرز کر رہ جاتی لیکن یہاں تو کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی ہے۔ جو مر گئے، سو مر گئے۔ قوم "یومِ دفاع" منا رہی تھی، ضلع نارووال کی تحصیل ظفروال میں ایک ایسا خونی سانحہ وقوع پذیر ہُوا جس نے ہر آنکھ اشکبار کر رکھی ہے۔
صبح صبح رکشے پر سوار درجن بھر بچے اسکول جا رہے تھے کہ بجری سے بھرا ڈمپر ٹرک اچانک اس رکشے پر اُلٹ گیا۔ ظفروال، شکرگڑھ روڈ اسقدر خراب ہے کہ جگہ جگہ پڑے کھڈوں کے سبب یہ ٹرک غیر متوازن ہو کر رکشے پر اُلٹ گیا۔ رکشہ ڈرائیور سمیت سات پھول سے بچے تو وہیں مسل کر رکھ دئیے گئے۔ جس اذیت سے ان سات مقتول بچوں نے جان دی ہوگی۔
اس کے تصور ہی سے رُوح کانپ جاتی ہے۔ رکشہ ڈرائیور چھ بہنوں کا اکلوتا مزدور بھائی تھا۔ کوئی بھی مقامی ایم این اے اور ایم پی اے کسی کے جنازے میں شریک نہ ہُوا۔ جس جگہ یہ سانحہ پیش آیا ہے، وہیں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اوقاف سعید الحسن شاہ کا گھر ہے۔ جاں بحق رکشہ ڈرائیور کی بہنوں نے بَین کرتے ہُوئے یہ پانچ لاکھ روپے کا چیک بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
نصف درجن سے زائد معصوم، اسکول جاتے بچوں کو جس ڈمپر ٹرک نے قتل کیا ہے، اُس کے ڈرائیور کے بارے میں کوئی بات سامنے نہیں آ سکی ہے۔ اُسے حراست میں لیا گیا یا نہیں؟ اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے یا نہیں؟ کچھ بھی نہیں بتایا جا رہا۔ مقامی پولیس بھی اس پر پردہ اور مٹی ڈالنے کی اپنی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ یہ کردار دراصل پوری پنجاب پولیس کے اجتماعی کردار اور افعال کا آئینہ دار ہے۔
یہ اتفاق ہے کہ سات معصوم بچوں کے اس قتل کے سانحہ سے صرف تین دن پہلے ہی راقم اس علاقے میں موجود تھا۔ میرے ایک قریبی عزیز کا انتقال ہو گیا تھا۔ مَیں اِسی ظفر وال، شکر گڑھ روڈ سے گزر کر جنازے میں شامل ہُوا تھا۔ یہ سڑک مکمل طور پر برباد ہو چکی ہے۔ کامل طور پر ادھڑی ہُوئی۔ کوئی چھوٹی بڑی گاڑی دو تین منٹ بھی آرام سے نہیں چل سکتی۔ فٹ فٹ، ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ گہرے کھڈوں نے ٹریفک اور سواروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
صحیح معنوں میں اسے خونی سڑک کہا جا سکتا ہے کہ یہ اب تک کئی انسانی جانوں کو ہڑپ کر چکی ہے۔ اس خونی سڑک کے شمال میں محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر بھارتی سرحد ہے۔ 1971 میں بھی اِسی سرحد کو آسانی سے عبور کر کے بھارتی فوجوں نے شکر گڑھ اور ظفروال کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
وہ تو خدا غریقِ رحمت کرے ذوالفقار علی بھٹو کو جنہوں نے مسز اندرا گاندھی سے شملہ مذاکرات کے ذریعے یہ علاقہ بھارتی قبضے سے آزاد کروا لیا تھا۔ اور اب اگر خدانخواستہ بھارت سے جنگ چھڑ جاتی ہے تو ہماری فوجوںکے لیے اس سڑک پر تیزی سے حرکت کرنا اور جنگی ساز و سامان کی منتقلی ناممکن ہو جائے گی۔ لیکن کسی کو بھی اس کی تعمیرِ نَو کا خیال نہیں۔ بے بسی اور بے کسی میں مقامی شہری رو پیٹ کر اور حکومت کو کوسنے دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
پنجاب کے ضلع نارووال میں جس ظفروال، شکرگڑھ روڈ پر سات معصوم بچوں کی جان لی گئی ہے، یہ سڑک پچھلے 30 برسوں سے خراب ہے۔ کسی نے آج تک اس کی مرمت بھی نہیں کروائی لیکن مرمت کے نام پر کروڑوں روپیہ ہڑپ ضرور کر لیا گیا۔ پچھلے تین عشروں میں اس علاقے پر نون لیگ کی حکومت رہی ہے۔
یہاں سے نون لیگی ارکانِ اسمبلی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر اقتدار اور اختیار سے لطف اُٹھاتے رہے ہیں لیکن کسی نے اس ظالم اور خونی سڑک کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ دیکھتے تو تب جب عوامی نمائندوں کو عوام کی بہبود کا ذرا سا بھی خیال ہوتا۔ یہاں سے دانیال عزیز، میاں رشید، احسن اقبال، مولانا غیاث الدین اور رانا عبدالمنان نون لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے رہے ہیں لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ملی کہ اس پسلی توڑ سڑک کی بگڑی تقدیر سنوار سکیں۔ سبھی اپنے اپنے گروہی اور نجی مفادات کے تحفظ میں لگے رہے۔ یہیں ظفروال چوک سے دائیں جانب مڑتے ہی ایک سڑک سیالکوٹ جاتی ہے۔ یہ پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔
اس پر سفر کرتے ہُوئے دائیں جانب سرحد پر نصب بھارتی چوکیاں اور اونچے مچان صاف نظر آتے ہیں۔ ا سٹریٹجک اہمیت کی حامل یہ سڑک بھی کھنڈر بن چکی ہے۔ اس سڑک پر سفر کے دوران گاڑی کے تباہ ہونے کے اندیشے لاحق رہتے ہیں۔ کنگرہ موڑ اور ظفر وال شکر گڑھ روڈ پر سفر کرنے والے مسافروں کو شدید اُلٹیاں اور قے آتی ہیں۔ ناف چڑھ جاتی ہے۔ پسلیاں بھی ٹوٹ سکتی ہیں۔ پسلیاں اگر ٹوٹنے سے بچ جائیں تو ایک دوسرے میں پیوست ہو سکتی ہیں۔
اس خونی سڑک کے دائیں بائیں اب بھی نون لیگ کے ارکانِ اسمبلی کی حاکمیت قائم ہے۔ یہاں سے مولانا غیاث الدین، احسن اقبال، مہناز عزیز (دانیال عزیز کی اہلیہ محترمہ)، رانا عبدالمنان نون لیگ کے ایم این اے اور ایم پی اے ہیں۔ اب تو ان کے پاس بہانہ ہے کہ چونکہ وہ نون لیگئے ہیں، فنڈز نہیں مل رہے، اسلیے یہ اور دیگر تباہ شدہ سڑکیں کیسے تعمیر کروائیں؟ درست، لیکن پچھلے ڈھائی تین عشروں کے دوران جب مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی ان کے پاس تھیں، تب بھی ان روڈز کی طرف ان کی عدم توجہی بدستور ایسی ہی تھی۔
اِسی ظفروال، شکر گڑھ روڈ پر (مقامِ مراڑہ) صوبائی وزیر مذہبی امور و اوقاف سعید الحسن شاہ کا گھر اور ڈیرہ ہے لیکن وہ اس سڑک کی طرف جتنی توجہ دے رہے ہیں، وہ تو سات بچوں کے خونی سانحہ ہی سے عیاں ہو گیا ہے۔ ایم این اے احسن اقبال نے پچھلے نون لیگی دَور میں، جب کہ وہ مرکزی وزیر بھی تھے، نارووال شہر میں تعمیرو ترقی کے بہت سے کام کروائے لیکن وہ بھی ظفر وال شکرگڑھ روڈ بوجوہ تعمیر نہ کروا سکے اور نہ ہی مریدکے سے نارووال آنے والی سڑک پوری طرح بنوانے میں کامیاب رہے۔ احسن اقبال ظفروال سے نارووال جانے والی سڑک بھی تعمیر نہ کروا سکے۔ پسرور سے سیالکوٹ جانے والی سڑک بھی دگرگوں ہے۔
حالانکہ پچھلے نون لیگی دَور میں یہاں سے دو وفاقی وزیر بنے تھے: خواجہ آصف اور زاہد حامد۔ وہ اپنے مفادات کی آبیاری اور تحفظ تو خوب کرتے رہے لیکن دونوں وزیروں نے اس سڑک کی طرف آنکھیں بند کیے رکھیں۔ لوگ رُل گئے ہیں۔ یہاں سے کسی مریض کو کسی بھی گاڑی میں لاد کر سیالکوٹ شہر تک پہنچانا دشوار تر مہم بن چکی ہے۔ اسکول اور کالج جانے والے بچے بچیوں کو ہر روز جس قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا درد خواجہ آصف جان سکتے ہیں نہ زاہد حامد اور اُن کا اب نون لیگی ایم این اے بیٹا یہ تکلیف محسوس کر سکتے ہیں۔ اب تو اِسی علاقے سے جناب عمران خان کے دو اہم مشیرانِ کرام بروئے کار ہیں: ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈار۔ دونوں ہی مگر یہ کہتے ہیں : کیا کریں جی، فنڈز ہی نہیں ہیں، سڑکیں کہاں سے بنوائیں؟