کشمیریوں کا یومِ سیاہ اور ہماری منتشر سیاست
72سال قبل یہ دلخراش سانحہ پیش آیا تھامگر لگتا ہے جیسے یہ ظلم کل ہی ڈھایا گیا ہو۔ 27اکتوبر1947ء تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے، جب تقسیمِ ہند کے فوری بعد بھارت نے کشمیریوں کی مرضی اور منشا کے برعکس کشمیر پر کامل قبضہ کرنے کے لیے فوجی دھاوا بول دیا تھا۔ نہرو اور پٹیل کی تیار کردہ اس سازش اور منصوبہ بندی میں بر صغیر کے آخری برطانوی وائسرائے، لارڈ ماؤنٹ بیٹن، بھی برابر کے شریک تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج استحصالی بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو خونریزی کررہا ہے، اس جرم میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ بھارت، برطانیہ اور کشمیر کے آخری حکمران نے مل بیٹھ کر کشمیریوں کے حق پر ڈاکا زنی کی۔ اب تو دُنیا کے ہر فورم پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت نے کشمیری حکمران، مہاراجہ ہری سنگھ، کی ایک جعلی دستاویز کا بہانہ بنا کر اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کی تھیں۔ جلیل مگر سخت علیل قائد اعظم محمد علی جناحؒ اس جارحیت کو بھلا کیسے قبول اور برداشت کر سکتے تھے؟ چنانچہ اپنے قلیل اور محدود وسائل کے باوصف، محض اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر، کشمیر پر بھارتی فوجی جارحیت کا جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
لاریب عظیم قائد کا فیصلہ بجا بھی تھا اور بروقت بھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جارح بھارت کی عددی، مالی اور فوجی برتری کی اساس پر کشمیر میں ہمارے اہداف پورے نہ ہو سکے۔ یہ امر بھی کیا کم ہے کہ صرف جہادی جذبوں سے سرشار افواجِ پاکستان اور قبائلی مجاہدین نے آزاد کشمیر کا خطہ حاصل کر لیا اور دُنیا پر واضح کر دیا کہ کشمیر کے بارے میں عالمی و حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ جب تک یہ فیصلہ کشمیریوں کی اُمنگوں اور آدرشوں کے مطابق صادر نہیں ہوگا، جنوبی ایشیا کامل اور صادق امن کی جنت سے دُور ہی رہے گا۔ اُس متفقہ فیصلے تک مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور دُنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ہر سال 27اکتوبر کی آمد پر بھارت کے خلاف یومِ سیاہ منا کر عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے رہیں گے۔
اگر ہم تحریکِ پاکستان کے ایک ممتاز رکن اور حضرت قائد اعظم کے ایک جانثار، سردار شوکت حیات خان، کی تصنیف The Nation That Lost Its Soul ( باب ہشتم) کا تفصیلی مطالعہ کریں تو یہ اولوالعزم جہادی داستان ہمارے سامنے پوری طرح کھلتی ہے کہ کس طرح قائد اعظمؒ کے حکم پر، ہر لحاظ سے بے وسیلہ ہونے کے باوجود، پاکستان نے کشمیر پر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ اس معرکے میں افواجِ پاکستان کے جنرل کیانی دارا، جنرل خانزادہ، بریگیڈیئر شیر خان اوربریگیڈیئر اکبر خان نے جان لڑا دی تھی۔ ہمارے غیور قبائلیوں کے ساتھ ساتھ سوات کے باسی قبائلیوں نے بھی بسالت اور بہادری کی نئی داستانیں رقم کیں۔
سردار شوکت حیات خان ( مرحوم) نے یہ حیرت انگیز واقعہ بھی لکھا ہے کہ تمام تر مزاحمتوں اور مسائل کے باوصف انھوں نے کس ہو شیاری سے لاہور کے شاہی قلعہ میں پڑی دیسی ساخت کی 40 ہزار بندوقیں حاصل کیں اور کشمیر کے محاذ پر بروئے کار افواجِ پاکستان کے جوانوں اور قبائلی مجاہدین تک پہنچائیں۔ گویا 27 اکتوبر کا دن اس بات کی بھی یاد دہانی ہے کہ پاکستان نے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ روزِ اوّل سے جو عہد کر رکھا ہے، وہ اب بھی قائم ہیں۔ پاکستان نے واقعی معنوں میں اس عہد سے کبھی سرِ مُو انحراف یا کمی نہیں کی ہے۔
دو دن بعد بھارت کے خلاف پھر یومِ کشمیر منایا جا رہا ہے۔ اس یومِ سیاہ میں شدت اور حدت اس لیے بھی زیادہ ہوگی کہ 5 اگست کے ظالمانہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ و مودی حکومت کے فیصلے کے بعد یہ پہلا یومِ سیاہ ہو گا۔ پچھلے11ہفتوں سے بھارت نے تقریباً ایک کروڑ کشمیریوں کو محصور اور محبوس کر رکھا ہے۔ کرفیوکی گرفت میں نرمی کرنے کے بجائے مزید سختی کر دی گئی ہے۔ ساری باضمیر دُنیا بھارت کے خلاف سراپا احتجاج ہے لیکن مودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ اس تازہ 27 اکتوبر کو بھارت بھر میں دیوالی بھی منائی جا رہی ہے۔ گویا اس 27 اکتوبر کو خوں آشام بھارتی ہندو کشمیریوں کے خون سے چراغاں کریں گے۔
ویسے تو پچھلے 72برسوں سے نجانے کتنے کشمیریوں کی زندگیوں کے چراغ بھارتی قابضین نے گُل کر دیے ہیں لیکن یہ جو تازہ 11ہفتے گزرے ہیں، ان میں تو مقبوضہ کشمیر کے ہر باسی کی زندگی بھارت کے ہاتھوں اجیرن اور قیامت بنا دی گئی ہے۔ جو تھوڑی بہت خبریں کسی بہانے محصور کشمیر سے باہر آ رہی ہیں، انھیں پڑھ اور سُن کر آنکھیں لہو کے آنسو بہاتی ہیں۔ بے بسی اور بے کسی یہ ہے کہ عالمِ اسلام کے وہ طاقتور ممالک جو مظلوم کشمیریوں کے لیے ریلیف کا موجب بن سکتے ہیں، وہ بھارت پر مطلوبہ دباؤ ڈانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ مبینہ طور پر ان دولتمند مسلم ممالک کی طرف سے پاکستان کو پٹی پڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ وہ عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر بارے اپنی آواز مدھم رکھے۔
ابھی تک او آئی سی کا کردار بھی پاکستان اور کشمیریوں کی اُمنگوں کے مطابق سامنے نہیں آ سکا ہے۔ یہ شکر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی میں پُر شکوہ اور جرأتمندانہ خطاب سے اقوامِ عالم پر بھارتی ظلم کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اس تقریر کے کارن ہی آج امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر، کشمیریوں کے مصائب، پانچ اگست کے استحصالی فیصلے اور محصور کشمیر پر بحثیں ہو رہی ہیں۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم، جناب مہاتیر محمد، نے کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں جو زبردست اسٹینڈ لیا ہے، بھارت اس پر سخت آتش زیرپا ہے۔ بھارت نے ملائیشیا سے سالانہ 10ارب ڈالر کے پام آئل نہ لینے کی دھمکی بھی دی ہے لیکن مہاتیر محمد نے بھارت کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں اپنے الفاظ واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ مہاتیر محمد کا کہنا ہے : "ہم اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹتے اور نہ ہی اسے تبدیل کرتے ہیں۔ " کاش، کشمیریوں کے لیے ایسا ہی محکم لہجہ عرب و خلیجی مسلمان حکمران بھی اختیار کرتے!!
مقبوضہ کشمیربارے عرب حکمران ایسا لہجہ اختیار کرتے تو شائد کشمیریوں کو پھر کبھی یومِ سیاہ منانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ایسا شومئی قسمت سے ہو نہیں سکا ہے۔ یہ "عدم محبت" کشمیر کاز کو نقصان اور ضعف پہنچانے کا باعث بنی ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں بھی آجکل بعض ایسے مظاہر رُو بہ عمل ہیں جو کشمیر کاز کے لیے ضرر رساں بن رہے ہیں۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت، مظفر آباد، میں 22 اکتوبر2019ء کو جو مظاہرہ کیا گیا اور اس مظاہرے پر مقامی پولیس نے جو دھاوا بولا، اسے کسی بھی طرح پار کے کشمیریوں کے لیے مفید نہیں کہا جا سکتا۔ جس کشمیری تنظیم نے یہ مظاہرہ کیا ہے، وہ کشمیریوں کی دوست نہیں ہے کہ اس مظاہرے کی بنیاد پر بھارتی میڈیا نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا ہے۔ وطنِ عزیز میں نواز شریف، مریم نواز اور آصف زردار ی کی بحثیتِ قیدی اسپتالوں میں مبینہ سنگین صورتحال میں داخلوں نے جس سیاسی انتشار کو جنم دے رکھا ہے، اس کے بھی کشمیر کاز پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا "آزادی مارچ" بھی حکومت کے اعصاب پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان صاحب بھلا کیونکر کشمیر کاز پر اپنی توجہ مرتکز کر سکتے ہیں؟