جماعتِ اسلامی کی ’’غیر جانبداری‘‘ اور حکمت یار کی دعوت
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی مکمل ہو گیا ہے۔ افواہوں کے جن جھکڑوں، الزامات کے جن طوفانوں اور مبینہ سازشوں کی جن یلغاروں کے درمیان سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی منتخب ہُوئے ہیں، ان سب کا احوال ہمارے سبھی قارئینِ کرام خوب جانتے ہیں۔ الزامات کی دھول ابھی تک اُڑائی جا رہی ہے۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب والے دن پولنگ بوتھ میں نصب متعدد خفیہ کیمروں کا جو انکشاف ہُوا، اس نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان متنازع کیمروں کی تنصیب بارے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات تھوپتے رہے۔
ایک وزیر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ان کیمروں کی موجودگی اور تنصیب پر شور مچانا "فضول" سی بات ہے، ایسے کیمرے تو بچے لیے پھرتے ہیں۔ چلیے، قصہ تمام ہُوا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے جن دو سینیٹر صاحبان (مصطفی کھوکھر اور مصدق ملک) نے ان خفیہ کیمروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشاندہی کی تھی، حکومتی شور میں اُن کی آواز دب کررہ گئی۔ بعد ازاں سینیٹر حضرات نے کسی بھی خوف کے بغیر، اپنے "ضمیر کی آواز پر"، ووٹ کاسٹ کیے۔
یہ عمل اپنے انجام اور اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ حالات اور فضائیں جیسی کیسی بھی تھیں، جیتنے والے صاحبان (صادق سنجرانی و میرزا محمد آفریدی) کو ہماری طرف سے مبارکباد۔ ہارنے والے یہ معاملہ عدالت میں لے جانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جماعتِ اسلامی پاکستان نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ جماعتِ اسلامی کے پاس سینیٹ کی ایک سیٹ ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد کا یہ ایک ووٹ پی ڈی ایم کے کام آیا نہ حکومتی اتحاد کے کھاتے میں گیا۔ اس ضمن میں جماعتِ اسلامی کے ترجمان، قیصر شریف، کا ایک بیان یوں سامنے آیا:"چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ الیکشن میں جماعتِ اسلامی اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہُوئے حصہ نہیں لے گی۔" گزشتہ کچھ عرصہ سے امیر جماعتِ اسلامی، محترم سراج الحق، ملک بھر میں کیے جانے والے اپنے جلسوں میں حکومت اور پی ڈی ایم، دونوں کو یکساں رگڑ رہے ہیں۔
موصوف اپنے خطابات اور بیانات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے پائے گئے ہیں کہ پی ڈی ایم اور حکومت دراصل ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں، اس لیے کوئی بھی ہمارے تعاون کا حقدار نہیں ہے۔ جب تک جماعتِ اسلامی اتحادی سیاست کا حصہ رہی، پارلیمنٹ میں اسے حصہ ملتا رہا۔ اور جب سے جناب سراج الحق کی قیادت میں جماعت نے سولو فلایٹ کا شوق پالا ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی جماعتِ اسلامی نے ایک وکھری راہ اپناتے ہُوئے اپنا ووٹ کسی کو نہ دے کر "منفرد مثال" قائم کی ہے۔
ووٹ کے اس زیاں اور ضیاع کو جماعت نے خود کو "غیر جانبداری" سے موسوم کیا ہے۔ انتخابات کے دوران "غیر جانبداری" کے نام پر ووٹ نہ دینا چہ معنی دارد؟ اب اگر عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور لوگ جماعتِ اسلامی والی "غیر جانبداری" کا مظاہرہ کرتے ہُوئے جماعتِ اسلامی کے اُمیدوار سمیت کسی بھی انتخابی اُمیدوار کے حق یا مخالفت میں ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ہیں تو پھر اس ضمن میں جماعتِ اسلامی کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ لاتعداد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جماعت ِ اسلامی کی اس "غیر جانبداری" نے حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جماعتِ اسلامی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اس لیے بھی حصہ ڈالنا مناسب خیال نہ کیا ہو کہ جماعتِ اسلامی گزشتہ کچھ دنوں سے افغانستان کے سابق جنگجو لیڈر، گلبدین حکمتیار صاحب، کے استقبال کی تیاریاں کررہی تھی۔ پاکستان رواں حساس لمحات میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان صلح جوئی کی سنجیدہ کوششیں کررہا ہے۔ یہ سعی بھی کی جارہی ہے کہ جو بائیڈن کی نئی امریکی انتظامیہ سے احسن اسلوب میں سارے معاملات طے پا جائیں تاکہ افغانستان عشروں بعد ہی سہی، پھر سے امن و آشتی کا گہوارہ بن سکے۔
جناب گلبدین حکمتیار اور موجودہ افغان طالبان قیادت کے درمیان تعلقاتِ کار مناسب وموزوں نہیں ہیں۔ ایسی فضا میں حکمتیار کی پاکستان آمد میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ یہ درست ہے کہ ماضی قریب میں بھی جماعتِ اسلامی کے گلبدین حکمتیار اور اُن کی "حزبِ اسلامی" سے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ ماضی میں بھی حکمتیار صاحب منصورہ لاہور میں مدعو کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب حالات ذرا مختلف ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ان حالات میں حکمتیار صاحب، افغانستان میں قیامِ امن کے لیے، پاکستان کا کیا ہاتھ بٹا سکتے ہیں؟
جماعتِ اسلامی سنجیدہ جماعت ہے۔ سیاست بھی کرتی ہے اور اس کا مذہبی تشخص بھی ہے۔ حکمتیار صاحب کو منصورہ میں مدعو کیا جانا کسی حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ گلبدین حکمتیار دو دن پہلے، 13مارچ 2021 بروزہفتہ منصورہ میں تشریف لائے۔ جماعتِ اسلامی کے ترجمان قیصر شریف صاحب اور جماعت کے سیکریٹری جنرل جناب امیر العظیم صاحب کی جانب سے مجھے بھی دعوت نامہ آیا۔ دونوں احباب کا شکریہ۔ مگر خاکسار بوجوہ اس ِ استقبالیہ تقریب میں شریک نہ ہو سکا۔ کوئی پانچ ماہ قبل، اکتوبر2020 کے وسط میں، بھی حکمتیار صاحب پاکستان تشریف لائے تھے۔
تب بھی وفاقی دارالحکومت میں جماعتِ اسلامی کی قیادت نے (سابق ایم این اے میاں محمد اسلم کے دولت خانے پر) اُن کے لیے ایک محدود سی مجلس کا اہتمام کیا تھا۔ بلا شبہ گلبدین حکمتیار کا اسمِ گرامی ایک معروف اور محترم نام ہے۔ 80 اور90 کے عشروں میں، سوویت یونین کی افواج کے خلاف افغانستان کے پہاڑوں اور جنگلوں میں لڑی جانے والی وہ جنگ جسے "جہادِ افغانستان"کا نام دیا گیا، گلبدین حکمتیار اور اُن کے جنگجوؤں کا کردار اس میں نمایاں تھا۔
حکمتیار اُن ایام میں افغانستان کے 10بڑے "مجاہدین لیڈرز" میں شمار ہوتے تھے۔ مگر سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد جب برباد شدہ افغانستان کا اقتدار انجینئر گلبدین حکمتیار اور انجینئراحمد شاہ مسعود کے ہاتھ لگا تو افغانستان نے بربادیوں کی نئی داستانیں رقم ہوتے دیکھیں۔ اِنہی دونوں کی غلطیوں کے کارن افغان طالبان، کٹے پھٹے افغانستان کے مطلع پر طلوع ہُوئے اور چھا گئے۔ اس ماحول میں گلبدین حکمتیار کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ اُن کا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایران میں پناہ گزین ہونا ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ تھا۔ اور مدتوں بعد اُن کا واپس افغانستان آنا اور کابل میں براجمان ہونا اس سے بھی بڑا اشارہ تھا۔ جناب اشرف غنی اور افغان طالبان قیادت کے درمیان کیسے تعلقات ہیں، یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ایسے حالات میں انجینئر گلبدین حکمتیار کا منصورہ تشریف لانا پاکستان کے کتنے مفاد میں ہے؟ سوال تو یہ ہے۔