اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے ناممکن !
عالمِ اسلام اور اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہے۔ ارضِ فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی مظالم اور استحصالی ہتھکنڈے اس قدر شدید اور اتنے زیادہ ہیں کہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی اکثریت اسرائیل کو بطورِ ایک جائز مملکت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کے باوجود کسی کو چاہے کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے، عالمِ عرب کے ایک معروف مسلم ملک، متحدہ عرب امارات، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے جب یو اے ای اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ کورونا (کووِڈ19) پر مشترکہ تحقیقی کاوشیں کرنے کے لیے تو یہ دونوں ملک اکٹھے بیٹھ چکے ہیں۔ مبینہ طور پراسرائیل کی مشہور خفیہ ایجنسی "موساد" کا سربراہ متحدہ عرب امارات کا پہلا دَورہ بھی کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے عالمِ عرب کے ایک اور مسلم ملک، عمان، سے بھی رابطہ کیا ہے اور بحرین ایسے چھوٹے مگر دولتمند عرب مسلمان ملک سے بھی نامہ و پیام جاری ہے۔
مصدقہ خبریں ہیں کہ اسرائیلی وزیر خارجہ (گابی اشکنیزی)نے عمان کے وزیر خارجہ ( یوسف بن علاوی بن عبداللہ) سے مفصل ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے سفارتی مصافحے کے بعد پورے عالمِ اسلام میں ایک ہیجان کی سی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ہر مسلمان مضطرب ہے، حالانکہ اس سے قبل مصر، اردن اور ترکی بھی اسرائیل سے سفارتی، سیاحتی، دفاعی اور تجارتی تعلقات استوار کر چکے ہیں۔ پھر ابوظہبی اور تل ابیب کے سفارتی مصافحے اور معانقے پر یہ اضطراب و ہیجان کیوں؟ ۔ ہمارے امیرِ جماعتِ اسلامی، محترم سراج الحق، اور امیرِ جے یو آئی ایف، حضرت مولانا فضل الرحمن، تو شبہات کا اظہار کر چکے ہیں کہ نئے حالات میں شائد ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ اسرائیل بارے نرم گوشہ رکھ رہے ہیں۔
ایسے پُر شور اور پُر شبہ ماحول میں وزیر اعظم عمران خان نے غیر مبہم الفاظ میں کہا ہے: "پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے۔ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے، جب تک فلسطینیوں کو اُن کا حق نہیں ملتا۔"وزیر اعظم مزید مستحکم لہجے میں کہتے ہیں : " قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو حق ملے گا تو اسرائیل کو تسلیم کریں گے۔ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو مقبوضہ کشمیر کو بھی چھوڑدینا ہوگا کیونکہ دونوں کا معاملہ یکساں ہے۔ فلسطین کے بارے میں ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے۔ میرا ضمیر کبھی بھی فلسطین کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔" فلسطین نے اس پر خان صاحب کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب کے اس بیان سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں اُن کا ذہن صاف اور ابہام سے پاک ہے۔ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کی اکثریت اسرائیل کو اُسی طرح ایک غاصب ملک سمجھتی ہے جس طرح مقبوضہ کشمیر بارے بھارت کو ایک غاصب مملکت سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں حل طلب تنازعات اسلامیانِ عالم کے لیے نہایت حساس موضوعات ہیں۔ اپنی کئی کمزوریوں کے باوجود یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہمارے حکمران کشمیر و فلسطین سے دستکش ہو جائیں۔ یہ تنازعات حل ہوں گے تو ہی جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں امن کی فضاؤں کا راج ہوگا۔
اسرائیل مگر بضد اور مُصر ہے کہ وہ امریکی آشیرواد اور پشت پناہی سے عالمِ عرب کو مجبور کر دے گا کہ وہ اُسے ایک جائز مملکت تسلیم کرلیں۔ امریکی صدر اپنے داماد و مشیر جیرڈ کشنر، جو ایک معروف امریکی یہودی خاندان کا فرد ہے، کی وساطت سے اسرائیلی لابنگ کررہے ہیں کہ جانتے ہیں کہ یوں اگر امریکی و اسرائیلی یہودی خوش ہو جائیں تو دوسری بار کی امریکی صدارت اُن کی جھولی میں آگرے گی۔
اسرائیل کا یہ دعویٰ محض کھوکھلی بَڑ نہیں ہے کہ "متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین اور عمان بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔" حیرت خیز بات یہ ہے کہ اس بیان پر بحرین اور عمان کی طرف سے تردید یا تصدیق میں کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ اس خاموشی کا دراصل مطلب کیا ہے؟ نوبت ایں جا رسید کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور وہائیٹ ہاؤس کے ترجمان، جیرڈ کشنر، نے 19اگست2020کو امریکی صحافیوں کو دی گئی ایک بریفنگ میں تحکم سے کہا: " یہ سعودی عرب کے مفاد میں ہوگا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے، جیسا کہ متحدہ عرب امارات نے کیا ہے۔
یہ اقدام سعودی عرب کے دفاع اور کاروبار کے لیے بہت اچھا ہوگا۔"یہ تو نہایت اچھا ہُوا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ ( شہزادہ فیصل بن فرحان)نے ترنت جواب دیا ہے: "جب تک یہودی ریاست، اسرائیل، فلسطینیوں سے امن معاہدے پر دستخط نہیں کرتی، اسرائیل سے تعلقات ممکن نہیں۔"واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے باہمی معاہدے پر عربوں کی ایک بڑی تنظیم(GCC) میں سے بحرین اور عمان نے تو اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن کویت اور قطر ابھی تک خاموشی کی چادر اوڑھے ہُوئے ہیں۔ عالمِ عرب کے کنٹرولڈ میڈیا میں یو اے ای اور اسرائیل کے " امن معاہدے" بارے کم کم اختلافی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اس کے برعکس ایرانی اور ترک میڈیا اس معاہدے بارے خاصا مشتعل محسوس ہورہا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل کی عسکری طاقت کے سامنے عالمِ عرب پورے قد کے ساتھ کھڑا ہونے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ ترپن سال قبل عالمِ عرب کے تین ممالک ( مصر، اردن، شام) نے ہمت اور اتحاد سے اسرائیل پر بیک وقت حملہ کیا تھا لیکن اسرائیل نے پلٹ کو ان تینوں کو نہ صرف عبرتناک شکست دی بلکہ تینوں اسلامی ممالک کے کئی علاقوں پر فوجی قبضہ بھی کرلیا۔ مصر اور اُردن کے کئی زیر قبضہ علاقے تو اسرائیل نے "مہربانی" سے چھوڑ دیے لیکن شام کے پہاڑی علاقے (گولان ہائٹس) ابھی تک اُس کی گرفت میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر شام، اردن اور مصر میں آمریتیں نہ ہوتیں تو شائد جمہوریت اور عوامی طاقت سے تینوں ممالک کے عوام غاصب اسرائیل کے سامنے ڈٹے رہتے۔
بد قسمتی سے یہ تینوں ملک اب بھی جمہوریت کی نعمت سے محروم ہیں ؛ چنانچہ ان کی طاقت اور مزاحمتی قوت بھی ہمارے سامنے ہے۔ پھر جمہوری اور جوہری اسرائیل کے سامنے عالمِ عرب کے حکمران کس طرح ہمت و قوت سے ڈٹ سکتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ عراق و شام کے ڈکٹیٹروں نے اسرائیل کے مقابل اپنے عوام کو مایوس کیا ہے۔ جمال عبدالناصر، صدام حسین اور حافظ الاسد اسرائیل کے سامنے ریت کے ٹیلے ثابت ہُوئے۔ بس ڈینگیں اور بڑھکیں مارتے رہے۔ جب وقتِ قیام آیا تو عشروں تک عوام کی گردنوں پر سوار یہ آمر مسلمان حکمران اسرائیل کے سامنے "سجدے "میں چلے گئے۔
اسرائیل کے خلاف نہ جمال ناصر کی "طاقتور ایئر فورس" بروئے کار آئی، نہ صدام حسین کے سکڈ میزائل کام آ سکے، نہ حافظ الاسد کی " بعث پارٹی " نے وطن پر قربان ہونے کی ہمت کی اور نہ اردن کے شاہ حسین کی ہاشمی بادشاہت اسرائیل کے سامنے دَ م مار سکی۔ سب بھوسہ ثابت ہُوئے۔ اسرائیل نے عراقی ایٹمی پلانٹ تباہ کر ڈالا لیکن صدام کچھ بھی نہ کر سکا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل سے شکست کے بعد بھی یہ چاروں آمر حکمران مدتوں اقتدار سے چپکے رہے۔ تو کیا اس پس منظر میں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ اپنائی ہے؟ اگرچہ متحدہ عرب امارات میں 15لاکھ سے زائد پاکستانی مزدوری کررہے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان فلسطینیوں کی طرف پشت کرکے فی الحال اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔