عمران خان اور جنرل باجوہ کا ایک ساتھ دَورئہ چین
یہ دو دن پاک چین دوستی اور تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کر گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دو ایام کو پاک چین سفارتی، تجارتی اور عسکری تعلقات کی تاریخ میں ایک نئے باب سے معنون کیا جائے گا۔ اِن دو دنوں کو زیادہ انفرادیت اور معنویت اس لیے بھی حاصل ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور سپہ سالارِ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اکٹھے ہی، 8 تا 9 اکتوبر 2019ء، چین کا دَورہ کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ ہنگامی اور شتابی دَورہ تھا۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ تیاریاں تو کئی ہفتوں سے جاری تھیں کہ وزیر اعظم چین عزت مآب لی کیانگ کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کو سرکاری دَورے کی دعوت آ چکی تھی۔ وطنِ عزیز کی دونوں اہم ترین شخصیات کا ایک ساتھ یہ دو روزہ دَورئہ چین اس لیے بھی نہایت اہمیت کا حامل تھا کہ خطے میں بڑی اہم تبدیلیاں تیزی سے رُونما ہو رہی ہیں۔ خطے کے دونوں اہم ممالک اور اسٹرٹیجک پارٹنرز، پاکستان اور چین، ان تبدیلیوں سے اعراض اور غفلت نہیں برت سکتے۔
ایک سال کے مختصر عرصے میں وزیر اعظم عمران خان کا یہ تیسرا دَورئہ چین تھا۔ اِس بار بھی چین میں وزیر اعظم عمران خان اور سپہ سالار جنرل باجوہ کا شاندار انداز میں استقبال کیا گیا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب اپنے ہم منصب سے بھی ملے ہیں اور طاقتور چینی صدر جناب ژی جن پنگ سے بھی۔ جنرل باجوہ اپنے چینی ہم منصب سے معانقہ، مصافحہ اور تفصیلی ملاقاتیں کرتے دیکھے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں نئے بھارتی مظالم، سی پیک پر ازسرِ نَو عہد، جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی اور افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کا بنیادی کردار اس دَورے کے اہم اور مرکزی موضوعات تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ " چین پاکستان اقتصادی راہداری" المعروف "سی پیک" اس دو روزہ دَورے کا جوہر تھا تو ایسا کہنا قطعی بے جا ہو گا نہ مبالغہ۔ بعض اطراف سے یہ ہوائی بھی اُڑائی گئی تھی کہ "سی پیک " کے حوالے سے موجود حکومت نے جس "سست روی" کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، چین اس روئیے سے نالاں اور ناراض ہے۔ ہم نے مگر دیکھا ہے کہ چین میں ہماری دونوں اہم ترین شخصیات کا جس اسلوب میں سواگت کیا گیا اور پاک چین قربتوں میں جو نئے مظاہر سامنے آئے ہیں، یہ اس امر کے شاہد ہیں کہ اگر کہیں چین کی طرف سے کچھ ناراضی اور غلط فہمی تھی بھی، وہ اب دُور ہو چکی ہے۔ ایک بار پھر بیجنگ کے " گریٹ ہال" نے پاک چین دوستی کی نئی تاریخ کو بنتے دیکھا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی بیجنگ میں موجودگی کے دوران پاکستان نے بعض ایسے فوری فیصلے کیے جنھوں نے ہمارے چینی دوستوں کے سب مبینہ گلے شکوے دُور کر دیے۔ مثال کے طور پر : سی پیک اتھارٹی کا قیام!! 8 اکتوبر کو، جب کہ وزیر اعظم چین میں تھے، صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس پر دستخط کر دیے۔ یہ آرڈیننس قومی اسمبلی اور سینیٹ اجلاس نہ ہونے پر لایا گیا ہے۔
اتھارٹی کا اطلاق پورے پاکستان میں ہو گا۔ یہ اتھارٹی 10 ارکان پر مشتمل ہو گی۔ اس کا چیف ایگزیکٹو 20 گریڈ کا سرکاری افسر ہوگا جب کہ وزیراعظم عمران خان 4 سال کے لیے اس کے چیئرپرسن ہوں گے۔ وزیراعظم ہی سی پیک اتھارٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور اس کے سبھی ارکان کی تعیناتی کریں گے۔ سی پیک سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اتھارٹی کے اکثریتی ارکان کی منظوری سے ہوگا۔
صدارتی آرڈیننس کے تحت سی پیک اتھارٹی قائم کرنے اور وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دَورئہ چین کے دوران ہی وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی نے اعلان کیا کہ حکومت نے گوادر بندرگاہ پر صنعتی یونٹس قائم کرنے کے لیے چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی (سی او پی ایچ سی) کو ٹیکس سے 23 سال تک کا استثنیٰ دے دیا ہے۔
اس کمپنی کے سربراہ زینگ بزونگ اور وزیر اقتصادی امور حماد اظہر کے ساتھ پریس کانفرنس میں علی حیدر زیدی کا کہنا تھا کہ کمپنی جو کہ پہلے ہی گوادر بندرگاہ پر کام کر رہی ہے، اسے بندرگاہ پر مشینری اور آلات نصب کرنے کے لیے ٹیکس سے 23 سال کا استثنیٰ دیا جائے گا۔ اس فیصلے سے بھی اُن تمام رکاوٹوں کا فوری خاتمہ ہو سکے گا جو "سی پیک" ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے چند ایک شکوؤں اور مبینہ سست روی کا باعث بن رہے تھے۔
اُمید کی جا رہی ہے کہ اس اتھارٹی کے قیام سے "سی پیک" کے دوسرے فیز میں مطلوبہ تیزی آئے گی۔ دراصل "سی پیک " کے آغاز ہی میں "سی پیک اتھارٹی " قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن نواز شریف حکومت بوجوہ اِسے عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ بعض اطراف سے یہ اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ یہ اتھارٹی قائم کرتے وقت اپوزیشن سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔ آجکل حکومت اور اپوزیشن میں جو شدید کشیدگی پائی جاتی ہے، ممکن ہے کہ مشورہ کیا جاتا تو معاملہ تیزی سے آگے بڑھنے کے بجائے مزید تاخیر اور انجماد کا شکار ہو جاتا۔ یہ بھی خدشات تھے کہ اپوزیشن سے اس بارے میں مشورہ مانگا جاتا تو شائد وہ انکار ہی کر دیتی، جب کہ حالات ایسے بن گئے تھے کہ چینی خوشنودی اور پاک چین تعلقات کی مضبوطی کے لیے اس اتھارٹی کا فوری قیام ناگزیر تھا۔
وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے اس تازہ ترین دَورئہ چین کو بھارت اور امریکا سمیت ساری دُنیا میں بڑی باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے ممتاز اور معروف جریدے "فارن پالیسی " نے 8 اکتوبر کو اپنے ویکلی ایڈیشن میں اس بارے One Belt، One South Asia کے زیر عنوان ایک مفصل آرٹیکل شایع کیا ہے۔
اسے روی اگروال اور کیتھرین سیلم نے مل کر لکھا ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کامرکزی نکتہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک سال میں تیسری بار چین کا دَورہ کرکے خاص طور پر بھارت کے لیے تشویش اور کئی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اور یہ کہ بھارت اس دَورے کی جزئیات سے غافل نہیں رہے گا۔ "فارن پالیسی " لکھتا ہے : "چین کا مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمائت بھارت کو بڑی اذیت دے رہا ہے۔
بھارت کو اس بات پر بھی بڑی تشویش ہے کہ چین نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت چین اپنے J16 جیٹ فائٹر طیارے پاکستان بھجوائے گا تاکہ پاکستانی جنگی طیاروں کے پائلٹوں کو تربیت دی جا سکے۔ بھارت نے پچھلے ہفتے چین سے اجازت مانگی تھی کہ وہ بیجنگ کے ایک پبلک پارک میں گاندھی جی کی سالگرہ منانا چاہتا ہے، لیکن چین نے انکار کر دیا تھا۔ بھارت نے اس انکار پر بڑی بے عزتی اور سبکی محسوس کی ہے لیکن صبر سے پی گیا۔ "عالمِ عرب کے مشہور انگریزی اخبار، گلف نیوز، نے بھی 8اکتوبر کو عمران خان کے دَورئہ چین پر ایک تفصیلی اور چبھتا ہُوا تجزیہ شایع کیا ہے۔
اس کا عنوان تھا:" وزیر اعظم پاکستان نے ایک سال میں چین کا تیسری بار دَورہ کیوں کیا ہے؟ مقاصد کیا ہیں؟"اس آرٹیکل کے لکھاری اگرچہ مسلمان لگتے ہیں لیکن مضمون کے مندرجات سے پاکستان دوستی نہیں جھلکتی۔ خصوصاً اُن کا یہ لکھنا کہ " رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں چین کی طرف سے براہِ راست سرمایہ کاری میں 77فیصد کمی آ چکی ہے۔ " واقعہ یہ ہے کہ پاک چین تعلقات کے نئے افق بہت سے ممالک کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان چین سے تو واپس آ چکے ہیں لیکن اب چینی صدر، ژی جن پنگ، دو روزہ دَورے پر بھارت پہنچ رہے ہیں۔ اُن کا دَورہ آج سے شروع ہو رہا ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ چینی صدر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حساسیت سے بخوبی واقف ہیں۔