بھارتی وزیر خارجہ کو سمجھا جائے
وزیر اعظم جناب عمران خان رواں ماہ کے آخری ہفتے نیویارک پہنچ رہے ہیں۔ وہ 27ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی آتشناک صورتحال کے پیشِ نظر یہ خطاب خاصا اہم ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی نیویارک میں اُن کے ساتھ ہوں گے۔
اجیت ڈوول بھی وہیں ہوگا جس کی ایما اور ڈیزائن پر مقبوضہ کشمیر میں نئی قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ، ایس جے شنکر بھی وہیں ہوں گے۔ شنکر جی بڑے گھاگ وزیر خارجہ ہیں کہ وہ کیریئر ڈپلومیٹ بھی ہیں اور امریکا میں بھارتی سفیر بھی رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نئی دہلی میں امریکا کے آدمی ہیں۔
اِن حقائق کی موجودگی میں ضروری ہے کہ سبرامینیم جے شنکر کے بارے جانا جائے کہ یہ آدمی دراصل ہے کون؟ شنکر جی کے ماضی کا کھوج افتخار گیلانی صاحب نے خوب لگایا ہے۔ جناب افتخار گیلانی مقبوضہ کشمیر کے معروف اخبار نویس، مصنف اور مشہور کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے قریبی عزیز ہیں۔
انھیں کئی بار بھارتی حکومت نے بے بنیاد الزامات کے تحت جیل میں بھی ڈالا لیکن اُن کا قلم نہیں روکا جا سکا۔ افتخار گیلانی نے ماہنامہ" ترجمان القرن"( جولائی 2019ء ) میں بھارتی وزیر خارجہ، سبرامینیم شنکر، کے بارے میں جو انکشاف خیز مضمون لکھا ہے، یہ اس لیے بھی ہم سب کے لیے پڑھنے کے لائق ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ستمبر کے آخری ہفتے امریکا روانہ ہو رہے ہیں۔ اس مضمون کے آئینے میں ہم بھارتیوں کے امریکیوں سے قریبی تعلقات کی کہانی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی روشنی میں ہم پاک، امریکا تعلقات کی نئی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ افتخار گیلانی صاحب لکھتے ہیں:
" مودی کی کابینہ میں ایک اور اہم وزیر سبرامنیم جے شنکر ہیں۔ بھارتی محکمہ خارجہ میں امریکی ڈیسک کے سربراہ کے طور پر وہ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ (کانگریس) کے چہیتے افسر تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے؟ انھوں نے ’ ’بھارت، امریکا جوہری معاہدہ" کو حتمی شکل دینے اور اس کو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
2013ء میں من موہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سیکریٹری کے لیے تجویز کیا، مگر کانگریس پارٹی نے سخت مخالفت کی جس پر سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکریٹری بنایا گیا۔ تاہم، جنوری 2015ء میں امریکی صدر بارک اوباما کے بھارتی دورے کے بعد نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکریٹری خارجہ بنایا دیا۔ تب جے شنکر امریکا میں بھارت کے سفیر تھے اور اوباما کے دورے کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔
جے شنکر کو خارجہ سیکریٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کا نگریسی لیڈروں نے اس لیے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکا نواز افسر کو اس اہم عہدے پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانب دارانہ تصویر متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکا کے ساتھ قربت کو طشت از بام کر دیا تھا۔ بتایا گیا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ 2004ء تا 2007ء جے شنکر بھارتی دفترخارجہ میں امریکی ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکی سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔ "
افتخار گیلانی صاحب بھارتی وزیر خارجہ بارے مزید انکشاف کرتے ہُوئے لکھتے ہیں : "19دسمبر2005ء کو ایک کیبل میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو بھارتی خارجہ سیکریٹری شیام سرن کے دورئہ امریکا کے ایجنڈے کے بارے میں معلومات دی تھیں۔
امریکی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف سے واقفیت خارجہ سیکریٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی، مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانے نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویے کو لگام دینے کے لیے امریکا کی معاونت کرنے کی پیش کش کی ہے۔ گویا ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکا کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔
ایک اور کیبل میں اپریل 2005ء میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بے کے معاملے پر بھارت، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دے گا، جنھوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی اطلاع تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ "
جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹر ٹیجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انھوں نے 1977ء میں دفترخارجہ میں ملازمت شروع کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹرٹیجک اٹانومی کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد ہی جے شنکر نے کارپوریٹ گروپ ٹاٹا کے بیرون ملک مفادات کے ڈویژن کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا۔ اس حوالے سے بھارتی فضائیہ کے لیے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لیے امریکی فرم لاک ہیڈ مارٹن کے لیے وکالت کا کام کر رہے تھے۔
افتخار گیلانی اپنے مذکورہ مضمون میں مزید انکشاف کرتے ہیں:"1980 ء میں واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ہی امریکی انتظامیہ نے سبرامینیم جے شنکرپر نظر کرم کی بارش کر کے ان کی ایک دوست کے رُوپ میںشناخت کی تھی، اور بعد میں ان کے کیریئر کو آگے بڑھانے میں خاصی مدد کی۔ امریکا میں بطور بھارتی سفیر، انھوں نے مقامی بھارتی نژاد افراد کو جمع کرکے نئے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرکے ان کا دل جیت لیا۔ ان کے دَور میں بھارت نے امریکا کے ساتھ دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے، جن میں امریکی افواج کو خطے میں رسل و رسائل کی سہولتیں فراہم کرنا اور فوجی اطلاعات کا تبادلہ شامل ہیں۔
ان معاہدوں کے مسودات بھارتی دفترخارجہ کے بجاے واشنگٹن سے ہی تیار ہوکر آئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جے شنکر کی تعیناتی کا ایک اور مقصد اجیت ڈوول کو قابو میں رکھنا ہے۔ وہ مودی کے رفقا میں خاصے طاقتور ہوگئے تھے۔ جے شنکر کے لیے سب سے بڑا امتحان ایران سے تیل، چاہ بہار بندرگاہ اور روس سے ایس 400میزائل شیلڈ خریداری کے سلسلے میں امریکا سے مراعات حاصل کروانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو ایران سے تیل کی خریداری کے متعلق خبردار کیا ہے جس پر بھارت ایرا ن کے تیل کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، مگر چاہ بہار بندر گاہ اور میزائل شیلڈ کے سلسلے میں امریکی معاونت کا خواست گار بھی۔ "
بھارتی وزیر خارجہ، سبرامینیم جے شنکر، کی جو "خصوصیات" بیان کی گئی ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور امریکی خفیہ اداروں کے خاصے قریب بھی ہیں اور کسی قدر اُن کے معتمد بھی۔ اس ماحول میں جب کہ واشنگٹن میں پاکستان کی کوئی ایک بھی باقاعدہ لابیسٹ فرم بروئے کار نہیں ہے، جے شنکر کی بات پر زیادہ کان دھرا جاتا ہے۔
وہ واشنگٹن کے پاور کوریڈورز اور میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چند دن قبل امریکا کی طرف سے بھارت کو جو جدید جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کیے گئے ہیں، اس ڈِیل کو کامیاب بنانے میں بھی شنکر جی کا بنیادی کردار ہے۔ ایسے ماحول میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کونیویارک اور واشنگٹن میں پاکستان کے مقدمات لڑنے کے لیے خاصی محنت اور توانائی کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے ستمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والا اُن کا دَورئہ نیویارک پاکستان اور کشمیریوں کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔