Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Syed Qasim Ali Shah
  3. Nazriyat Ko Kaise Tora Jaye?

Nazriyat Ko Kaise Tora Jaye?

نظریات کو کیسے توڑا جائے؟

گذشتہ آرٹیکل میں انسان کے خیالات و نظریات بننے کی ابتدا کے بارے میں تفصیلی بات کی گئی تھی، آج کی نشست میں "پرانے نظریات کو ختم کرنے اور نئے نظریات بنانے" کے موضوع کو سپردِ قلم کیا جارہا ہے۔

مشہور ٹرینر ٹونی روبنس کہتا ہے کہ"انسانی ایقان اور نظریات کی مثال اس میز کی طرح ہے جس کی چار ٹانگیں ہیں۔ میز اپنی چار ٹانگوں کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ انسان کے غلط نظریات کی بھی چار ٹانگیں ہوتی ہیں۔ ایک ٹانگ تجربات کی ہے، دوسری سیکھنے کی ہے۔ تیسری مشاہدے کی جبکہ چوتھی ان چیزوں کی ہے جوہم نے دیکھا، سنا یاہمیں بتایا گیا۔ اگر میز کو گرانا ہے بالفاظ دیگر اپنے نظریات کو ختم کرنا ہے تو ان پر سوال اٹھاؤ، کہ کیا میرے نظریات اور مشاہدات حقیقت کے مطابق ہیں؟ میں جو سوچتاہوں کیا وہ ٹھیک ہے؟ میرے پاس موجود علم ٹھیک ہے؟ میں چیزوں کو جس زاویے سے دیکھتا ہوں کیا وہ سب کا ہے یا صرف میرا؟"

ممکن ہے جو آپ کی معلومات ہوں وہ درست نہ ہوں۔ ممکن ہے کہ واقعات کو جو معانی آپ نے دیے ہوں وہ درست نہ ہوں۔ آپ چیزوں کو جس زاویے سے دیکھتے ہیں، دوسرے کے لیے وہ زاویہ نہ ہو، کیونکہ جب زاویہ بدلتا ہے تو نظارہ بھی بدل جاتاہے۔ جب بھی آپ سوال اٹھائیں گے تو آپ کے غلط نظریات کمزور ہونا شروع ہوجائیں گے۔

زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے انسان کو نیا نظریہ اورنیازاویہ چاہیے۔ یہ صرف تعلیم سے نہیں ملتا، بہت سارے لوگ پی ایچ ڈیز ہیں مگر ان کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا جبکہ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو انگوٹھا چھاپ ہیں مگر وہ جس انداز سے جیتے ہیں لوگ ان پر رشک کرتے ہیں۔ زندگی کی مثال سو روپے کے نوٹ کی طرح ہے جس نے ختم ہوجانا ہے۔ یہ نوٹ اس دنیا میں موجود ہر انسان کو ملا ہے۔ اب اس کو کس نے کس طرح استعمال کیا یہ اس کی اپنی کامیابی ہے۔ دنیا کا ہر باشعور انسان یہ سوچتا ہے کہ میں محدود وقت کے لیے آیا ہوں۔ اگر آپ نے اپنی حقیقت جاننی ہے تو اپنی تنہائی پر غور کریں۔ جیسے آپ تنہائی میں ہوتے ہیں وہی آپ کی حقیقت ہے۔ اگر آپ کو تنہائیاں بے چین رکھتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر کچھ خرابی ہے اگر آپ اپنی تنہائیوں کو انجوائے کرتے ہیں تو آپ مثبت انسان ہیں۔

انسان کے نظریات اس کو آگے بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اگرآپ کی زندگی کی گاڑی کا ہینڈ بریک غلط نظریات کے ہاتھ میں ہے تو آپ جتنا چاہیں سپیڈ دیتے رہیں گاڑی نہیں چلے گی، جیسے ایک شاعر کا شعر ہے :

میں خود ہی ہوں اپنے آپ کے پیچھے پڑا ہوا

میرا شماربھی تو میرے دشمنوں میں ہے

انسا ن کے اندر جہالت کے ہوتے ہوئے اس کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ میرے پاس جتنے بھی لوگ کاونسلنگ کے لیے آتے ہیں ان کے دشمن میں نے باہر نہیں بلکہ ان کے اندر دیکھے ہیں۔ غلط شخص کو تباہ کرنے کے لیے اس کا اپنا رویہ ہی کافی ہوتا ہے۔

بوسیدہ نظریات، ایڈورڈ ڈی بونو کے نزدیک:

مشہور مغربی مفکر ایڈورڈ ڈی بونو کہتے ہیں کہ "انسانی ذہن کی مثال ریت کی طرح ہے۔ جس پربارش کا ایک قطرہ گرا، اس نے معمولی سا سوراخ کیا، پھر دوسرا تیسرا، چوتھا اور چند ساعتوں کے بعد وہاں ایک راستہ بن گیا۔ اس کے بعدمزید قطروں سے دوسرے الگ الگ راستے بن گئے۔ اب اس کے بعد اگر کوئی قطرہ گرتا ہے تو وہ سوراخ نما راستے میں گرکر اسی میں بہہ جاتاہے۔"انسانی ذہن میں بھی تجربات اور واقعات سے راستے بنے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ جب کوئی نئی چیز انسان دیکھے تو اس کے لیے نیا راستہ بناکر وہاں سے گزاردے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے اوروہ انہیں راستوں سے گزرجاتی ہے جو پہلے سے بنے ہوتے ہیں۔ غلط وہ نہیں جس کو دنیا غلط کہے بلکہ غلط وہ ہے جو حقیقت میں غلط ہے۔ آپ بھی صرف دنیا کے کہنے پر کسی کو غلط مت قرار دیں بلکہ اپنے علم، عقل اور تجربے کی بناپر فیصلہ کریں۔

نئے افکار ونظریات کیسے بنائے جاسکتے ہیں؟

اپنی ذات اور خیالات کا محاسبہ کرنا انسان کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ جب بھی آپ کو معلوم ہو کہ آپ کے کچھ نظریات اور خیالات ایسے ہیں جو آپ کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں تو ان کو فوری طورپر ختم کردیں اور نئے افکار کی تلاش شروع کردیں۔ مندرجہ ذیل عوامل ایسے ہیں جن کی بدولت انسان نئے افکار بناسکتا ہے:

تجربات ومشاہدات:

دنیا میں جن لوگوں کے پاس تجربہ اور مشاہدہ نہیں ہے ان کا علم نہیں بڑھتا اور نہ ہی ان کی بات میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ علمی اور ذہنی وسعت کے لیے نئے تجربات اور مشاہدات کیجیے اور جو چیزیں آپ کو مفید معلوم ہوں ان کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرکے ان پر عمل پیرا ہوں۔

مطالعہ :

انسان اگر کتاب سے دور ہو تو اس کی مثال کنویں میں رہنے والی مخلوق کی طرح ہوتی ہے، جس کا علم اور مشاہدہ کنویں سے باہر نہیں جاسکتا۔ یاد رکھیں کہ کنویں میں قید لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آسمان کی کیا وسعتیں ہیں۔ کیونکہ ان کو آسمان اتنا ہی دِکھتا ہے جتنا کنواں میں سے نظر آتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا تالا اور مقفل اگر ہے تو وہ دماغ اور ذہن کا ہے، جو کہ کنویں میں رہنے والے انسان کے دماغ پر لگاہوتا ہے۔ دماغ کا تالاانسان کو اپاہج بناتا ہے، یہ انسان کی جرأت چھین لیتا ہے اور جب انسان کی جرأ ت ختم ہوجاتی ہے توپھر وہ نئے راہوں کی جستجو میں نہیں نکل سکتا۔ دماغ کا تالا کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اچھی اور بہترین کتب کا مطالعہ کرے، اس طرح جہاں وہ کنویں کی قید سے آزا د ہوگا، وہی نئے نظریات بھی بناسکے گا۔

نیا سوال:

نیا سوال اٹھانے سے بھی انسان کے نئے نظریات کے راستے بنتے ہیں۔ سوال برائے سوال کبھی بھی آپ کو فائدہ نہیں دے سکتا۔ سوال وہ ہے جو پہلے آپ اپنے آپ سے پوچھیں، اس کو چند دن اپنے کلیجے سے لگاکررکھیں او ر سوچیں کہ یہ واقعی سوال ہے؟ میرے ذہن میں ایک دفعہ ایک سوا ل پیدا ہوا کہ شاعرکے پاس جودرد ہوتا ہے یہ پیدائشی ہوتا ہے یا حالات سے بنتا ہے۔ سب سے پہلے میں نے اس کے لیے مناسب انسان ڈھونڈا، کیونکہ کسی بھی شخص سے غیر متعلقہ سوال پوچھنا، توہین کے مترادف ہے۔ میں امجد اسلام امجد صاحب کے پاس چلاگیا، ان کے سامنے سوال رکھا تو انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا پھر بولے :دوبارہ سوال پوچھو! میں نے سوال دہرایا تو بولے کہ" ان کا دردہوتا پیدائشی ہے مگر حالات اس کو نکھاردیتے ہیں۔"مجھے یہ جواب سن کر تسلی ہوگئی کیونکہ جس انسان سے میں نے پوچھا تھا وہ اسی شعبے کے ماہر ترین شخص تھے۔

مولانا رومی ؒ کہتے ہیں کہ سیکھنے کے لیے سوال ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ ہم جب ترکی گئے اور ان کی مزار پر حاضری کے لیے پہنچے تو وہاں ایک چھوٹاسا دروازہ تھا جس سے انسان پورے قدکے ساتھ اندر داخل نہیں ہوسکتاتھابلکہ سر کو جھکانا پڑتا تھا، جس سے انسان کے جسم سے سوالیہ نشان کی علامت والی شکل بن جاتی۔ یوں انہوں نے مرنے کے بعد بھی یہ پیغام دیا کہ اگر آپ کو کچھ سیکھنے کی طلب ہے تو پہلے سوال بنو، اس کے بعد ہی کچھ مل سکے گا۔ انسان پہلے سوال بنے تب کائنات جواب دیتی ہے۔

پہلے تواپنے آپ کو ایک آئینہ بنا

وہ خود نکل کہ آئیں گے تیرے حجاب سے

سوال کرنا اور غور وتدبرکرنا مومن کا شیوہ ہے۔ قرآن میں سات سو چھپن بار اللہ نے غور وتدبرکی دعوت دی ہے۔ کبھی فرمایا "عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔" کبھی فرمایا:"کاش تم غوروفکر کرتے۔" جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں مگر غور و فکر نہیں کرتے۔ ہم لوگ صرف دوسروں کی نقالی یا تقلید کرتے ہیں حالانکہ تقلید میں کوئی عظمت نہیں ہے۔ آج اگر علامہ اقبال کی کوئی نقل پید ا ہوجائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ انسان کو عظمت تب ملتی ہے جب وہ منفردہو۔ سوال آپ کے نظریات کے لیے نیا چینل کھولتا ہے لیکن نئی راہیں تب کھلیں گی جب آپ کے اندر جرأت ہو۔ اگر جرأ ت اور ہمت نہیں ہے تو پھر نیا کچھ بھی نہیں آئے گا۔

اپنے ساتھ بیٹھ کر خود سے سوال کریں کہ میں کیا ہوں اور کہاں سے آیا ہوں؟ یہ بات یاد رکھیں کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیشہ اپنی موجودہ کیفیت کو جانچنا ہوتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ میں جو کررہا ہوں یہ وہی کررہا ہوں جہاں میں نے جانا ہے؟ اس آگے والے وقت کو آج اپنے ذہن میں رکھ کر سوچیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جب لوگ اپنا وزیٹنگ کارڈ بنواتے ہیں تو اس پر مختلف طرح کے عہدے اور منصب لکھتے ہیں، حالانکہ انسان کی اصلیت وہ نہیں ہوتی بلکہ انسان دراصل وہ ہے جو قبر میں جانے کے بعد ہے۔ جب لوگ کہیں کہ فلاں انسان بہت اچھا تھا۔ جو چراغ تب جلنے ہیں آپ کووہ آج جلانے پڑیں گے۔ اس کے بعد اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ میں کہاں کہاں غلطی کررہا ہوں۔ اس شخص کے ایمان پر شک کیا جانا چاہیے جو ایک ہی غلطی بار بار کر رہا ہے۔ کیونکہ اگر آپ کی عقل خود آپ کے کام نہیں آرہی تویہ بہت بڑا المیہ ہے۔

قرآن پاک میں بار بار صبر کا حکم اس لیے ہے کہ ممکن ہے کہ جو Perception تم بنارہے ہو وہ درست نہ ہو، اور اس لیے بھی کہ تم انتظار کرو کہ اللہ کی رحمت نکل کر سامنے آجائے۔ اہل ایمان کوصبر کا حکم دیا گیاہے برداشت کا نہیں، کیونکہ برداشت میں امید نہیں ہوتی جبکہ صبر میں اللہ کی رحمت سے امید ہوتی ہے۔ امید کے ساتھ درد ایسی چیز ہے جو آپ کواللہ کے قریب پہنچادیتی ہے۔ لیکن اگر صرف درد ہے اور اس کے ساتھ امید نہیں ہے تو یہ برداشت ہے جو انسان کو اللہ سے دور کردیتی ہے۔

آپ روزانہ تیس منٹ غورو خوض کی عادت ڈالیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ کچھ عرصے بعد آپ کی زندگی کی ترجیحات متعین ہوگئی ہوں گی، اور پھر یہ اتنی مضبوطی اختیار کرلیں گی کہ باہر کی دنیا میں کچھ بھی ہوجائے آپ اپنے مقصد اور ترجیح سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ غور و خوض سے آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ اصل میں کیا ہیں؟ پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ ایک مخصوص گھر میں کیوں پیدا ہوئے؟ خاص طرح کے واقعا ت آپ ہی کے ساتھ کیوں ہوئے؟ خاص طرح کے لوگ آپ کی زندگی میں کیسے آئے؟ جب انسان اپنی زندگی کو سمجھ لے تب ہی وہ دانشور ہوتا ہے اورتب ہی وہ دوسروں کو سمجھاسکتا ہے۔

سوچنے کے لیے بہترین وقت رات کو آنکھیں بند کرنے سے پانچ، دس منٹ پہلے کا وقت ہے۔ اس میں آپ سوچیں کہ آج آپ پراللہ کا کتنا فضل رہا۔ کون کون سے کام او ر لوگ تھے جنہوں نے آج آپ کی زندگی میں آپ کو آسانیاں دیں اور آ پ کو آگے بڑھایا۔ آج کتنا کچھ ایسا تھا جو اچھا ہوا، کتنی جگہوں پر اللہ نے پردے ڈالے، کتنارزق اورکتنی عزتیں ملی، کتنے مواقع ملے اور کتنا کچھ آج نیا سیکھا؟

دوسرا وقت صبح اٹھنے کے فوراً بعد کا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ذہن ہلکی غنودگی میں ہوتاہے اس وقت آپ جو کچھ سوچتے ہیں اور ذہن کوجو پیغام دیتے ہیں وہ اس کو جلدی قبول کرلیتا ہے۔ جب آپ یہ سوچیں گے تو آپ کے دل سے تمام شکوے اور شکایات ختم ہوجائیں گے اور آپ سکون و اطمینان محسوس کریں گے۔ تیسرا وقت وہ ہے جب آپ اکیلے ہوتے ہیں۔ تمام چیزوں اور مصروفیات سے لاپروا ہوکر جب آپ اپنے ساتھ سوچتے ہیں تو اس میں یہ ضرورسوچیں کہ میرے کون سے غلط نظریات اور افکار ہیں جنہوں نے مجھے پیچھے رکھا ہے، اپنا محاسبہ کریں اور ایسے تمام خیالات سے پیچھا چھڑاکر اپنے دل و دماغ کو اس بے فائدہ بوجھ سے ہلکاکردیں تاکہ آپ دین و دنیا کی کامیابیاں سمیٹ سکیں۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari