پٹواری بمقابلہ یوتھیا
پٹواری۔ تمہاری حکومت ناکام ہوچکی ہے، ڈالر آئوٹ آف کنٹرول ہے، مہنگائی بےقابو ہے، تمہارا خان ناکام ہوچکا، اب جان چھوڑو تاکہ ملک آگے چلے۔
یوتھیا۔ تم لوگوں نے جو دس سال میں بویا وہ ہم کاٹ رہے ہیں، تمہارے لیڈروں نے لوٹ مچا رکھی تھی یہ اُسی کے نتائج ہیں۔
پٹواری۔ تم لوگ وہی ممی ڈیڈی ہی نکلے، نہ عقل نہ مت، نہ تجربہ، نہ ہی کوئی وژن۔ نوماہ گزر گئے، ماضی کے قصے مت سنائو تم لوگوں نے اب تک کیا کیا ہے؟
یوتھیا۔ ہم تو آپ کے بوئے کانٹے چن رہے ہیں، خان سچا ہے، اُس جیسا ایماندار کوئی نہیں ہے، انتظار کرو خان سب ٹھیک کردے گا۔
پٹواری۔ تم لوگ سنجیدہ ہو ہی نہیں، ملک کا معاشی مسئلہ قومی بحران بن چکا ہے مگر آپ کپتانی چپل رنگ برنگے شلوار قمیض پہنے اور کالی عینک لگا کے جعلی مسیحا بنے پھرتے ہیں، آپ نے اب تک خرابی کے علاوہ کیا کیا ہے؟
یوتھیا۔ ہم نے ملک کی سمت درست کی ہے، کرپشن کے راستے بند کردئیے ہیں، کرپٹ لیڈروں کو سزا دلوارہے ہیں، قومی وقار بحال کیا ہے، ہم پر غداری کا کوئی الزام نہیں، اداروں کا ہم پر مکمل اعتماد ہے۔
پٹواری۔ سیاسی مخالفوں کے ساتھ یہ طریقہ کار جمہوریت کے لئے تباہ کن ہے، زرداری سندھ میں مقبول ہے تو نواز شریف پنجاب میں۔ اُن کے ساتھ اِس سلوک سے لوگ بیگانگی کا شکار ہورہے ہیں، باقی رہی غداری کی بات تو یہاں تو مادرِ ملت فاطمہ جناح پر یہ الزام لگ چکا ہے، اِس الزام کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے۔
یوتھیا۔ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے، سجن جندال سے ملاقاتوں کا مقصد کیا تھا؟
پٹواری۔ تمہیں عقل ہی نہیں، اُن ملاقاتوں کا مقصد پاک بھارت تعلقات بہتر بنانا تھا، اِس معاملے پر عمران خان اور اداروں کا موقف بھی وہی ہے جو نواز شریف کا تھا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ سے حکومت چل نہیں رہی۔
یوتھیا۔ اسد عمر گریٹ تھا، اُس نے روپیہ کی قیمت 180روپے تک گرانے سے انکار کردیا تھا، اِس لئے مجبوراً رضا باقر اور شبر زیدی کو لایا گیا ہے، رضا باقر پیپلز پارٹی کے سابق مرحوم رہنما اور سفیر ایم ایس باقر کا ہونہار بیٹا ہے، سیاست اور معیشت کو سمجھتا ہے، یہ بحران کو حل کردے گا بس تھوڑا صبر کرلو۔
پٹواری۔ اسد عمر تو پی ٹی آئی کا شو بوائے تھا، اُس کی ناکامی تمہاری جماعت کی ناکامی ہے، اب مانگے تانگے کی ٹیم لے آئے ہو یہ تو آئی ایم ایف کی ٹیم ہے، کہاں گئی تمہاری جھوٹی اور جعلی نیشنلزم؟
یوتھیا۔ ہم نے کوئی منی لانڈرنگ تو نہیں کی؟ ہمارے لیڈر کے بیرونِ ملک اثاثے تو نہیں ہیں۔ آپ اپنے لیڈر کو کیوں نہیں کہتے کہ پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو اثاثے واپس لائے۔
پٹواری۔ یار کہیں تو بخش دو، اندرونِ ملک بزنس کرنے نہیں دیتے، باہر جاکر بزنس کیا اُس پر بھی آپ کو اعتراض ہے۔ رہنے کے لئے گھر کے سوا ہمارے سارے اثاثے بزنس میں ہیں۔ ہر دو تین سال بعد لیڈروں کو جلا وطنی کاٹنا پڑے تو کیا وہ بیرونِ ملک گھر بھی نہ بنائیں؟
یوتھیا۔ سیاست پاکستان میں اور سرمایہ کاری باہر؟ یہ لوٹی ہوئی دولت ہے وگرنہ خان کی طرح آپ کا سب کچھ پاکستان میں ہوتا؟
پٹواری۔ پہلے الزام لگتا تھا کہ یہ امیر اِس لئے ہیں کہ اندرونِ ملک اپنی صنعتوں کو حکومت سے فائدے اور سہولتیں دلواتے ہیں، اب ہم بیرونِ ملک بزنس لے گئے تو اعتراض کردیا کہ یہ لوٹی ہوئی دولت ہے؟ لوٹنے کا کوئی قانونی ثبوت؟
یوتھیا۔ منی لانڈرنگ تو ہوئی ہے یہ سراسر غیر قانونی ہے، پاکستانی سرمایہ باہر لےجایا گیا اور جائیدادیں خریدیں گئیں، آپ بزنس نہیں کرتے بلکہ پاکستان سے کما کر باہر چھپا دیتے ہیں۔
پٹواری۔ تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک ایک بھی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے کوئی کمیشن یا رشوت ثابت ہو۔ یہ سب الزامات ہیں اور سراسر جھوٹے ہیں، کئی حکومتیں کئی ایجنسیاں تحقیقات کرچکیں، کچھ نہیں نکلا۔
یوتھیا۔ وائٹ کالر کرائم کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے مگر اخلاقی طور پر کیا لیڈر کو منی لانڈرنگ کرنی چاہئے؟ بیرونِ ملک اثاثے بنانا چاہئیں؟ سیاست تو معاملہ ہی اخلاقی برتری کا ہے۔
پٹواری۔ واہ بھئی واہ، آپ میں اخلاقی سوال کہاں آگیا۔ آپ کی سیاست میں اخلاق بھی ہے؟ گالم گلوچ اور جھوٹ؟ آپ اخلاقیات کی بات نہ کرو ورنہ آپ کے پول کھلے تو آپ چھپتے پھریں گے۔
یوتھیا۔ فی الحال تو آپ کے احتساب کی باری ہے جیل بھگتیں، ہم کسی صورت این آر او نہیں دیں گے۔
پٹواری۔ مسئلہ قید، جیل یا احتساب کا نہیں، ووٹ کی عزت کا ہے، سویلین حکمرانی کا ہے؟ ایک تو تم لوگوں کو عقل ہی نہیں ہے۔
یوتھیا۔ ایک تو تم خوامخواہ جمہوریت کے مامے بنے ہوئے ہو، کچھ لفافہ صحافی بھی تمہارے ساتھ ہوئے ہیں، آج بھی جمہوری حکومت ہے، سارے فیصلے منتخب وزیراعظم خان صاحب خود کررہے ہیں، ادارے اُن کے پیچھے کھڑے ہیں۔
پٹواری۔ تم لوگ بدنیت اور منافق ہو، تمہیں کوئی لایا ہے، کسی ایک یا دو سیاستدانوں پر جھوٹے الزامات کی وجہ سے جمہوریت کو ہدف بنانا تمہاری بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، آصف زرداری اور نواز شریف پر الزامات لگا کر دراصل جمہوریت کو بدنام کرنا مقصود تھا اور آپ اِس گیم میں کسی کے آلۂ کار بنے ہوئے ہو۔
یوتھیا۔ تمہیں لفافہ صحافیوں نے اٹھا رکھا ہے ورنہ تمہاری سیاسی موت ہوچکی ہے اگر زندہ ہو تو کوئی تحریک چلا کر دکھائو، کوئی جلسہ، جلوس کرو، تم صرف اپنی دولت بچانے میں لگے ہوئے ہو۔
پٹواری۔ ہم بھی پہلے بھولے ہوتے تھے، آزاد صحافیوں پر شک کرتے تھے، تنقید برداشت نہیں کرتے تھے، اِسی نے ہمیں زوال تک پہنچایا، تمہارا رویہ بھی ہمارے والا ہے، تمہارا انجام بھی جلد ہمارے والا ہوگا۔
یوتھیا۔ لفافہ صحافیوں کی تنخواہیں کم کردی جائیں اور میڈیا کا منہ بند کردیا جائے تو ملک سے بیشتر خرابیاں دور ہوجائیں گی۔
پٹواری۔ تنخواہیں تو آپ بند کرچکے، میڈیا بند کرنے سے آنکھیں بند نہیں ہوں گی، خرابیاں آزادی اظہار سے ختم ہوتی ہیں، چھپانے اور دبانے سے نہیں۔
یوتھیا۔ ساری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کررہی ہے اور آپ لوگ یہاں بیٹھے اُن سازشوں کو تقویت دے رہے ہو۔ امریکہ، افغانستان اور بھارت کھلے دشمن ہیں، ایران اور چین پر بھی مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کو قومی خطرات کا احساس تک نہیں بس اپنے پیسے بچانے کی فکر ہے۔
پٹواری۔ یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے، بینظیر بھٹو یہی کہتی شہید ہوگئی، نواز بھی یہی کہتا رہا کہ پالیساں بدلو، اب حصار تنگ ہوگا تو خود مجبور ہوں گے، اب آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے ہو؟ بھارت اور مودی کے دروازے پر کیوں دستک دے رہے ہو؟
یوتھیا۔ یہ پیپلز پارٹی، یہ (ن)لیگ ان کی وطن سے وفاداری مشکوک تھی آخر کوئی قومی پالیسی ہوتی ہے، اپنے راز ہوتے ہیں، اسٹرٹیجی ہوتی ہے، یہ دونوں جماعتیں تو مغرب کی ایجنٹ تھیں، ہم میڈ ان پاکستان ہیں۔
پٹواری۔ آپ سے بات کرنا ہی فضول ہے، فصل پکے گی تو خود ہی عذاب بھگتو گے، یاد رکھو پہیہ گھومتا رہتا ہے، آج ہماری کل تمہاری باری ہے۔