اچھا کپتان اور بُرا منیجر
کسی بھی حکومت کی اندھی مخالفت یا اندھی حمایت دونوں ہی غلط رویے ہیں۔ کوئی بھی حکومت نہ تو مکمل طور پر بُری ہوتی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر اچھی۔ اس لئے اسے کلین چٹ دینا یا مکمل طور پر مسترد کرنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب وہ مناسب مدت گزار لے۔ عمران حکومت نہ تو بہت اچھی جا رہی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر ناکام۔ خارجہ محاذ پر اس حکومت کو نمایاں کامیابیاں ملی ہیں جبکہ معاشی اور داخلی محاذ پر یہ حکومت ناکام نظر آ رہی ہے۔ حکومتی کارکردگی دیکھنے کے بعد بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ خارجہ بلّے بلّے اور داخلہ تھلے ہی تھلے۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں متحد ہوئی ہیں اس حد تک تو ان کا آئینی، سیاسی اور جمہوری حق ہے لیکن انہوں نے نظام کے راستے میں رکاوٹ ڈالی یا پھر نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ عمران حکومت کو کام کرنے دینا چاہئے لیکن اس پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ پرفارم کرے، ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرے۔ اگر عمران حکومت کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تو ان کے حامی یہ کہیں گے کہ وہ تو نیا پاکستان بنانا چاہتے تھے سیاسی مخالفوں نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔ اپوزیشن فی الحال صرف پارلیمانی مباحث کرے، اسٹریٹ پاور کی طرف نہ جائے کیونکہ اقتصادی بحران کے اس دور میں اگر لوگ باہر نکل آئے تو معاشی اور سیاسی Melt down کا خطرہ ہے جو کسی کے لئے بھی سودمند نہیں ہو گا۔ خارجہ امور میں کامیابی کا سبب جو بھی ہے کریڈٹ عمران حکومت کو ملے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سردمہری سے گرم جوشی کی طرف آئے ہیں۔ امریکہ سختی سے نرمی کی طرف مائل ہوا ہے۔ ایران اور افغانستان کے حوالے سے پہلی بار برف پگھلنے لگی ہے۔ عمران خان کو جنرل باجوہ نے خارجہ امور پر مکمل مدد فراہم کی ہے جس کی وجہ سے غیرملکی امداد بھی بہتر ہو جائے گی۔ چین کے ساتھ سی پیک کے حوالے سے بھی مزید پروجیکٹس کی توقع ہے۔ یہ ساری خوش کن خبریں ہیں۔
مسئلہ داخلی گورننس کا ہے اور اس گورننس کے سربراہ بہرحال عمران خان ہیں۔ ایک غیرملکی سفارتکار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران بہترین کپتان ثابت ہوئے ہیں انہیں اپنے وژن اور حکمت عملی کا علم ہے اسی لئے وہ اقتدار کی منزل تک پہنچ گئے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر کپتان اچھا منیجر بھی ہو۔ عمران اچھے کپتان مگر بُرے منیجر ثابت ہو رہے ہیں اسی لئے ترجیحات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کروانے میں غیرضروری تاخیر ہو رہی ہے۔ کپتان اچھا منیجر ہو تو نائو پار لگ جاتی ہے اور اگر اچھا منیجر نہ ہو تو نائو پانی میں اترنے کے بعد ایندھن کی کمی کا شکار ہو کر گرداب میں پھنس جاتی ہے۔ کاش ایسا نہ ہو اور یہ نائو آگے سے آگے چلے کہ پاکستان ایسے کسی گرداب کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
کپتان اور منیجر کے فرق کو سمجھنے کے لئے پچھلے زمانے کے نواز شریف اور شہباز شریف میں فرق دیکھ لیں۔ نواز شریف لیڈر اور کپتان تھے اچھا یا برا وژن انہی کا تھا، شہباز شریف ایک اچھے منیجر تھے جو کپتان کے وژن پر بہت محنت سے عملدرآمد کرواتے تھے۔ تحریک انصاف کے پاس کپتان تو ہے منیجر کوئی نہیں۔ سارے کپتان اچھے منیجر نہیں ہوتے عمران کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنا سکینڈ ان کمان کسی اچھے منیجر کو بنائیں جو ان کے وژن پر عملدرآمد کروا سکے۔
کپتان کے مشورہ بین کون ہیں اور ان کے مشوروں کے باوجود تبدیلی کیوں نہیں آ رہی؟ دستیاب معلومات کے مطابق کپتان خان کو سب سے زیادہ ملنے والوں میں بینکر نعیم الحق، انفارمیشن ایکسپرٹ افتخار درانی، انفارمیشن منسٹر چوہدری فواد حسین، یوسف بیگ مرزا، طاہر اے خان، بابر اعوان اور شیخ رشید شامل ہیں۔ عام طور پر ہر روز صبح پرائم منسٹر ہائوس میں میڈیا کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے جس میں سارے متذکرہ لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اخبارات، خبروں اور ٹی وی کے علاوہ اس کمیٹی میں روزانہ کی بنیاد پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے پنج پیاروں میں بھی نعیم الحق، افتخار درانی، چوہدری فواد، پرنسپل سیکرٹری محمد اعظم اور ارباب شہزاد شامل ہیں۔ اگر گورننس ٹھیک نہیں جا رہی تو سب سے پہلا سوال تو مشیروں سے ہو گا کہ وہ صحیح مشورے کیوں نہیں دے رہے اور اگر دے رہے ہیں تو کون ان کے مشوروں پر عمل نہیں کر رہا؟ کوئی بھی کپتان خود گاڑی کا ڈرائیور نہیں ہوتا اس کے پنج پیارے مشورے دیتے ہیں اور گاڑی کی سمت انہی مشوروں سے تبدیل ہوتی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تاحال کپتان خان کی ٹیم میں کمزوریاں ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں زیادہ تر ناتجربہ کار لوگ ہیں جو پہلی بار حکومت کا حصہ بنے ہیں۔ اکثر کے پاس اختیارات نہیں ہیں اسلئے وہ چھوٹے چھوٹے مباحث میں الجھتے ہیں، میٹنگز میں لڑتے ہیں اور کوئی اجتماعی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ ہر حکومت اس مشکل مرحلے کو عبور کرنے کے لئے ماہرین کا انتخاب کرتی ہے، اب بھی ایسا ہو گا تو حکومت آگے چلے گی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت شہناز وزیر علی، نصیر اللہ بابر، رائو رشید وغیرہ جیسے منیجرز کے ساتھ چلتی تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پرنسپل سیکرٹری زاہد انور کھوسہ، فواد حسن فواد اور جی ایم سکندر جیسے لوگ چلاتے تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں بھی دھڑلے دار سلمان صدیق جیسے چیف سیکرٹری موجود تھے تبھی حکومٹ کی رٹ ہر طرف نظر آتی تھی۔ اب بیورو کریسی قلم چھوڑ ہڑتال پر ہے وہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر رہی کیونکہ نیب نے ایسا خوف پیدا کر رکھا ہے جس سے ہر کوئی فیصلہ کرنے سے ڈر رہا ہے۔ ایسے میں ایک اچھے منیجر کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے جو ٹیم کی کمزوریوں کو سمجھ کر اس میں کارکردگی کی صلاحیت پیدا کرے، اسے انسپائر کرے اور اس میں ایکسٹرا توانائی پیدا کر کے اس سے کام کروائے۔
سب کو علم ہے کہ اچھا کپتان اکیلا میچ نہیں جیت سکتا اسے اچھے بلے باز، اچھے گیند باز، اچھا وکٹ کیپر اور اچھے فیلڈر دستیاب نہ ہوں تو بات نہیں بنتی۔ سو جناب پہلے اچھا منیجر ڈھونڈا جائے اسے ٹیم بنانے کا ٹاسک دیا جائے تبھی کپتان میچ جیت سکے گا۔ یاد رہے کہ کرکٹ اور سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ کپتان کے پاس اپنی کارکردگی بہتر کرنے کے لئے صرف چھ ماہ کا وقت ہے اگر اس ششماہی میں معیشت کی حالت نہ بدلی، گورننس ٹھیک نہ ہوئی تو قوم میں بداعتمادی پھیل جائے گی، مایوسی کے اندھیرے ملک پر چھا جائیں گے ایسے میں حکومت چلانا مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ معاشی اصلاحات کا پیکیج پہلی اچھی کوشش ہے۔ اسدعمر بالآخر عوامی ردعمل سے گھبرا کر اصلاحات کی طرف آ گئے ہیں ان کے لئے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ان کے وژن میں جو کچھ اچھا موجود ہے اس پر فوراً عملدرآمد کروائیں وگرنہ نیا منیجر کپتان کی ٹیم میں بڑی بڑی تبدیلیاں کر دے گا۔