بھٹو نہیں رہے لیکن ان کا دورابھی تک جاری ہے
5جنوری کو ذوالفقار علی بھٹو کی 93یوم پیدائش ہے اور میرے سامنے اس خط کے اقتباسات رکھے ہوئے ہیں جس میں وہ اپنی بیٹی اور سیاسی وارث بے نظیر بھٹو سے مخاطب ہیں " تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی اور تمہاری دادی نے غربت کی سیاست کا سبق دیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ صرف عوام پر یقین رکھو، ان کی نجات اور مساوات کے لئے کام کرو۔ تم بڑی نہیں ہو سکتیں، جب تک تم زمین کو چومنے کے لے تیار نہ ہو۔ تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتیں جب تک تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو۔
ایک عہد رخصت ہو چکا ہے اور ایک باب بند ہو چکا ہے مگر جدو جہد جو کبھی نہیں رکتی۔ بھٹو صاحب بھی جلدی میں تھے، 1927میں اس دنیا میں آئے اور 1979میں اس دنیا سے چلے گئے۔ کسی سانس آرام نہیں کیا اور انہیں کسی پل چین نہیں ملا۔ پاکستان ایک انتہائی مشکل ملک ہے اور اس کی حکمرانی خطرات سے بھر پور ہے اورحکمرانی میں ہمیشہ موت اور ناکامیاں انتظار میں رہتی ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو لوگوں کو جگاتے جگاتے ہمیشہ کے لئے سو گئے۔ بے نظیر بھٹو کو تو اپنی ساری جوانی جمہوریت کی نذر کرنی پڑی اور اس سفر میں انہیں غم کے جنگلوں سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے دکھ اور خون کے کتنے دریا عبور کئے۔ بھٹو نے اپنی بیٹی کے لئے ایک متحرک سرگرم اور مقبول پارٹی کو ورثہ میں چھوڑا۔ 1977کے نتیجے کے مطابق اور آئین کی رو سے انہیں 1982تک حکومت کرنا تھی۔ لیکن دھاندلی کے الزامات کے تحت قومی اتحاد کی جماعتوں نے تحریک شروع کردی، شاید بھٹو سمجھتے تھے کہ اگر وہ قومی اتحاد کے رہنمائو ں کو مذاکرات کی میز پر لے آئیں گے تو سیاسی خلفشار دور ہو جائے گی مگر پھر 5جولائی 1977کا دن آ گیا اور فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھٹو سازشوں کا شکار ہو ئے؟ کیا ان کی غلطیاں انہیں لے بیٹھی؟ کیا ان کے ساتھیوں کے غلط رویئے ان کے اقتدار کا سورج غروب کر گئے؟ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بھٹو کو سی آئی اے نے اقتدار سے الگ کروایا۔
سی آئی اے کی کامیابی کی داستان اس وقت شروع ہو تی ہے، جب بھٹو صاحب اقتدار میں آکر سی آئی سے کے ایجنٹوں کے نرغے میں پھنس گئے۔ پاکستان کے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے ساتھ یہ ہوتا آیا ہے کہ وہ انتہائی نیک اور مخلصانہ جذبوں کے ساتھ آئے لیکن بعد میں اپنے طبقاتی کردار کے باعث اور ایوان اقتدار میں موجود سرکاری گماشتوں کے ہاتھوں کھلونا بن جانے کے بعد عوام سے رابطہ ختم کر بیٹھے اور بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ بھٹو نے ایوب خان جیسے مضبوط حکمران سے ٹکر لی۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات ان کے ساتھ نہیں تھے۔ بیورو کریسی اورفوج ان کے ساتھ نہ تھی، صرف عوام ان کے ساتھ تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بھٹو کو اقتدار ملاتو ان کے ہاتھ میں اختیارات کی تمام کنجیاں تھیں، اس وقت پاکستان کے عوام یہ توقع کر رہے تھے کہ بھٹو نہ صرف ملک کا وقار بلند کرینگے بلکہ ان کے مسائل بھی حل کرینگے۔ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے تھے۔ عام پاکستانی کو امید تھی کہ بھٹو پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنا دینگے۔ جون 1927سے لیکر 1971تک مسٹر بھٹو کی تاریخ کا ایک دور گزر گیا۔ تاریخ نے ان سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا تھا۔ بھٹو کو اقتدار ملا تو ان کے دل اور ذہن میں تیسری دنیا کی قیادت کی خواہش اور عزم موجود تھا۔ شاہ فیصل، کرنل قذافی، سوئیکارنو، یاسر عرفات، بومدین، شیخ زائد بن سلطان النہیان جیسے اسلامی دنیا کے حکمران ان کے ذاتی دوست تھے۔ بھٹو صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے۔ اس بات پر پوری اسلامی دنیا بشمول پاکستان میں یہ تصور چمک رہا تھا کہ اسلام ہی مسلمانوں کا دین ہے اور اس کی تعلیمات کو اپنی گائیڈ لائن سمجھتے تھے۔
یہ ایک حقیقت تھی کہ بھٹو تیسری دنیا کو ایک مدبر کے طور پر منظم کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن شاید اس وقت بھٹو صاحب سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ اپنی پارٹی کی تنظیم اور حکومت پر بالادستی کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ 1972سے 1977تک بھٹو اور عوام کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کے بے شمار جتن کئے گئے۔ پھر بڑی ہوشیاری سے ان کے گرد ایسے لوگ جمع کر دیئے گئے جو ہدایات کہیں اور سے لیتے تھے۔ 1973تک بھٹو پاکستان کا وقار بہت بلند کر چکے تھے۔ بھٹو بتدریج مسلم ممالک میں بڑی قدر و منزلت کی نظر سے دیکھے جانے لگے تھے۔ امریکیوں کی بھٹو کی یہ حیثیت کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور یانا فلاسی لکھتی ہیں بھٹو غیر ضروری خود اعتمادی کا شکار ہو گئے تھی۔ وہ بلاشبہ ایک ذہن و فطین انسان تھے اور دنیا کے بدلتے حالات پر وہ ہنری کسنجر کی طرح تبصرہ کرتے تھے۔ اپنی بات کہنے اور دلیل کے ساتھ سمجھانے میں وہ چارلس ڈیگال کے ہم پلہ تھے۔ وہ کنیڈی کی طرح خوبصورت لباس زیب تن کر تے تھے۔ وہ چو این لائی سے سب سے زیادہ متاثر تھے۔
بھٹو صاحب کے جیل میں آخری دنوں کی یادوں کو جمع کرنے لئے میں نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل کے اس وقت کے سپر نٹنڈنٹ یار محمد سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ یار محمد نے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ موت سے پہلے جیل میں بھٹو صاحب پر تشدد کیا گیا تھا۔ ہاں بھٹو سے آخری ملاقات کے بعد بے نظیر بھٹو میرے دفترمیں آئیں تھیں اور انہوں نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے بات کرنا چاہتی ہیں لیکن اس وقت یہ ممکن نہیں تھا۔ دونوں ماں بیٹی غم سے نڈھال تھیں اور اسی رات بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یار محمد نے بتایا پھانسی گھاٹ تک بھٹو صاحب کے حوصلے بلند تھے۔ بارش ہوئی تھی اس لئے انہیں اسٹریچر پر لٹا کر پھانسی گھاٹ تک لایا گیاتھا۔ ان کے آخری الفاظ Finish it تھے، اسکے بعدانکا ایک دور ختم ہو گیا۔ بھٹو نہیں رہے لیکن ان کا دور ابھی بھی جاری ہے اور ان کا سحر ابھی تک چھایا ہوا ہے۔