Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Elde Rado

Elde Rado

ایل ڈے راڈو

جب زیلونی بازار سے نکل کر ٹیکسی سڑک پر چوراہے سے دایاں ٹرن لیکر ایونیو شاکاریما پر مُڑی تھی، دائیں جانب ایل ڈے راڈو نامی بڑا سٹور نظر آیا تھا، وہاں جانے کا پروگرام بنایا، رانا قمر سے ایل ڈے راڈو سٹور کا راستہ رات کو ہی پوچھ لیا تھا، میرا اور ملک یوسف کا یہ متفقہ معاہدہ تھا کہ کلاسز شروع ہونے تک شہر گھوم پھر کر دیکھتے ہیں، صبح ناشتہ کرکے ہوسٹل سے باہر نکلے اور یونیورسٹی کی سمت مُڑے، یونیورسٹی کے باہر کیوسک ایک پاکستانی کی سرمایہ کاری تھی جس پر مقامی لڑکی نے قبضہ کر لیا تھا، لکڑی کے چوکور شکل میں بنے، ساتھ یا آٹھ فٹ حجم والے کیوسک تمام رشین ریاستوں میں جابجا نظر آتے ہیں، ہنگامی ضرورت کی اشیاء جُوس، سوفٹ ڈرنکس، بریڈ، مربہ جات، چاکلیٹ، ڈبہ پیک مچھلی، سگریٹ و شراب بیچتے ہیں، مقامی برانڈ کی پیپسی، مرنڈا و دیگر مشروبات بہت سستے تھے، غالباََ تیس تنگے کی ڈیڑھ لیٹر والی بوتل تھی اور امپورٹڈ کوکا کولا 250 ملی لیٹر ایک ڈالر، اکثریت سٹوڈنٹس مقامی مشروبات کو ہی ترجیح دیتے یا جب گھر والے پیسے بھیجتے تب پہلا ہفتہ امپورٹڈ کوکا کولا اور چاکلیٹ کے مزے اڑاتے تھے، چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے ان کیوسک سے اچھی خاصی کمائی ہوتی ہے۔

ایک کیوسک پر زیادہ سے زیادہ ہزار پندرہ سو ڈالر کی سرمایہ کاری، مقامی بلدیہ سے لائسنس مقامی باشندے کے نام پر ملتا تھا، افرادی قوت بھی بآسانی دستیاب، آٹھ گھنٹے کی تین شفٹ یا بارہ گھنٹوں کی دو شفٹوں میں کام ہوتا، جب فروخت کرنا چاہو تو اچھے دام مل جاتے تھے، یونیورسٹی کے بیرونی کارنر پر واقع کیوسک پر قبضہ کرنے والی لڑکی کی ماں یونیورسٹی میں پروفیسر تھی، کیوسک کی آمدن سے ان کا لائف سٹائل ہی بدل گیا تھا، یونیورسٹی کے عین سامنے والے روڈ پر بائیں طرف ڈیپارٹمنٹس کی کچھ عمارتیں اور آگے استنبول ریسٹورنٹ، بعد میں کئی مرتبہ اس ریسٹورنٹ کو رونق بخشی، یہاں پر پہلی مرتبہ ٹرکش شاورما کھایا تھا، اس ریسٹورنٹ کا کھانا بہت لذیذ تھا۔

یونیورسٹی پار کرنے کے بعد ایک چھوٹی ذیلی سڑک سیدھی دریا کو جاتی تھی، اس کے بعد چار منزلہ بلڈنگ کے تیسرے فلور پر میر حسین کشمیری اور اکبر جلال پاکستانی کنٹریکٹر کا مشترکہ فلیٹ تھا، پہلوان کا قیام یہیں پر تھا، بعد میں یہاں بھی کئی مرتبہ جلوہ افروز ہونے کا موقع ملا، فٹ پاتھ پر چلتے عمارت کے اختتام پر سڑک کنارے ایک برگر کیوسک پہلے پہل تو یہ عام سا تھا لیکن بعد میں مینیو اور مواد کی تبدیلی سے فروخت بڑھ گئی، اس کیوسک سے مالک نے چار مزید کیوسک بنائے اور ایک اچھی سی گاڑی بھی خریدی، ایک مرتبہ وہاں سے برگر خریدے اور مالک سے سودے بازی شروع کر دی، اس نے بیس ہزار ڈالر مانگ لئے جو بہت زیادہ تھے، میں اعتراض کیا تو بولا " اتنا پیسہ اس کیوسک سے سال میں بآسانی کما لیتا ہوں"۔

بائیں ہاتھ بینک کازکومرتس یعنی قزاق کمرشل بنک، یہاں بعد میں اکاؤنٹ کھلوایا تھا، بینک کے سامنے کچھ ٹوٹی پھوٹی غیر آباد عمارتیں، تھوڑا آگے جا کر شاکاریما ایونیو کا مین چوراہا، ہم دائیں ہاتھ ہولئے، ہمارے دائیں ہاتھ ٹوٹی عمارتیں اور بائیں ہاتھ شہر کی فوجی چھاؤنی، دوسری طرف نصب گیٹ سے فوجی ٹرک آتے جاتے نظر آئے، آگے ٹوٹی ہوئی تین منزلہ عمارتوں کے گرد ایک چکر لگایا، بیرونی دیواریں کسی حد تک سلامت لیکن جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئیں، اندر ہر چیز ملیامیٹ، دوسرے اور تیسرے فلور کا فرش تک ٹوٹا تھا، یہ کے جی بی کا مقامی ہیڈکوارٹر تھا۔

آگے عمارتوں کی قطار، ایک بڑا سٹور دتسکی میر یعنی بچوں کی دنیا، ہم سنترم یعنی شہر کے وسطی علاقے میں داخل ہوچکے تھے، سٹور کی دونوں جانب مضبوط اور چوڑی سنگی سیڑھیاں بنی تھیں، یہاں داخل ہو کر دیکھا، بچوں کے کھلونوں کا بہت بڑا سٹور، زرمبادلہ تبدیل کرنے والا ایک کھوکھا، جو کرنسی تبدیل کروائی تھی وہ زیلونی بازار میں خرچ کرچکے تھے، اندر موجود لیڈی نے باہر آ کر ہمارا استقبال کیا، وہ انگریزی بول سکتی تھی، ملک یوسف اصل رنگ باز شخصیت تھا، اس نے بطور بزنس مین اپنا تعارف کروایا اور میرا بطور نیا سٹوڈنٹ، لیڈی نے اپنی بزنس وومین خالہ کا بتایا، ملک یوسف نے اس سے ملنے کی خواہش کی، لیڈی نے اسی وقت فون پر اگلے دن کی میٹنگ فکس کردی، ملک نے بھاؤ تاؤ کرکے ریٹ زیادہ لیا، اب فیصلہ ہوا کہ اضافی تنگوں سے لنچ کسی ریسٹورنٹ میں کرتے ہیں۔

دتسکی میر نامی سٹور کے بالکل عقب میں دس منزلہ رہائشی عمارت اور فرنٹ پر سڑک کی جانب دکانیں، تھوڑا آگے جا کر ایک چوراہا، بس اسٹاپ اور بائیں جانب ایل ڈے راڈو سٹور، اس طرف جانے کیلئے انڈر گراؤنڈ راستہ اختیار کیا۔

اس سٹور کا رقبہ کم و بیش ایک ایکڑ پر محیط، بیرونی طرف بس اسٹاپ، ذیلی واکنگ ٹریک پر دس بارہ میوزک کیوسک کے باہر سڑک پر بڑے سپیکر رکھ کر فُل والیم پر گانے بجاتے، پہلے پہل تو مجھے سمجھ نہ آتی تھی بعد میں خود بھی روانی سے گانے بُرے سُر تال کے ساتھ بول لیتا تھا لیکن پھر بھی استاد چاہت فتح علی سے اچھا گنگنا سکتا تھا، انڈین فلمیں اور میوزک بہت پسند کیا جاتا تھا، بالخصوص امیتابھ بچن اور متھن چکروتی کی ایک دنیا فین تھی، جمی جمی آجا آجا، آئی ایم ڈسکو ڈانسر اور آگیا آگیا حلوہ والا آگیا بہت مقبول تھے، عام کلبوں میں بھی ڈانسرز متھن چکروتی کی طرح ٹانگوں کے استعمال سے رقص کرنا پسند کرتے تھے۔

میوزک کیوسک کے بعد بڑا ذیلی ٹریک برائے پیدل افراد، آگے سٹور کی بلڈنگ سے متصل ایک بہت اعلیٰ کلاس کا ریسٹورنٹ، ان ڈور اور آؤٹ بیٹھنے کی سہولت، بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور وسیع و عریض خالی جگہ جہاں اکثر ثقافتی پروگرام ہوتے تھے، پرفارم کرنے والے زیادہ تر بغیر معاوضہ والے والنٹیئر تھے، اس دن بھی اتفاق سے ایک پروگرام تھا، دھکم پیل والا ماحول نہیں تھا، کھڑے ہو کر دیکھنے لگے، سٹیج سیکرٹری نے مائیک ہاتھ میں پکڑ کر اعلان کیا اور تالیوں کی گونج سنائی دی، ہمارے دائیں بائیں لوگوں نے ہمیں سٹیج کی طرف جانے کا اشارہ کیا، سمجھ نہ آئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، بہرکیف ہم دونوں سٹیج پر چڑھ گئے، اناؤنسر نے مائیک پکڑ کر رشین زبان میں سوال کئے جس کی خاک سمجھ نہ آئے۔

میں تھوڑا کنفیوز ہوا پھر ٹوٹی پھوٹی رشین میں چند کلمات دہرائے "یا نووی ستودنت، یا نی زنایو روسکی، سیمی پلاتنسک منے پونراوتسیا، ایتا کراسیوی گورود، لُودی توژے خراشو" یعنی میں نیا سٹوڈنٹ ہوں، میں رشین زبان نہیں جانتا، سیمی پلاٹنسک مجھے پسند آیا ہے یہ خوب صورت شہر ہے، لوگ بھی اچھے ہیں"۔ سب نے تالیاں اور سیٹیاں بجائیں، ہم سٹیج سے نیچے اتر آئے۔

اناؤنسمنٹ ہوئی، ایک ٹین ایجر ازبک رقاصہ، چُوڑی دار پاجامہ زیب تن کئے، سر پر چھوٹی سی ٹوپی جمائے، دونوں کلائیوں پر رومال باندھے، شاکا لاکا بے بی والے گانے پر اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھی، صحیح معنوں میں اعضاء کی شاعری پہلی مرتبہ لائیو دیکھی، رقاصہ اپنے فن میں طاق تھی، گانا ختم ہونے کے بعد گول دائرے میں تیز تیز گھوم گھوم کر، ہوا میں جمپ اور پھر زمین پر ہاتھوں کے بل گرنے والے سین نے حاضرین و ناظرین کے دل موہ لئے، بھرپور تالیاں بجا کر اس کے فن کی داد دی، یقیناََ رقاصہ نے کئی دن اس گانے کیلئے پریکٹس کی ہوگی، بعد میں اس رقاصہ سے دو تین مرتبہ ملاقات بھی ہوئی تھی۔

پھر ایل ڈے راڈو سٹور کے اندر گئے، اشیاء خوردونوش سستے دام دستیاب، سٹرابری فلیور والا دہی خریدا، اس کا ذائقہ مجھے بہت پسند آیا، تازہ بریڈ، تازہ گوشت، چوبیس گھنٹے دستیاب، یہاں ہمیشہ رش رہتا، تازہ اشیاء خریدنے کیلئے جلدی جانا پڑتا تھا، کون سی چیز کب ختم ہوجائے پتہ نہیں چلتا تھا۔

سٹور سے باہر نکلے، بائیں طرف دس منزلہ بلڈنگ اور نیچے فارمیسی دکانیں، چوراہے کے سرخ ٹریفک سگنل پر رکنا پڑا، ایک چیز نوٹ کی کہ ہر سواری سرخ سگنل پر ضرور رُکتی تھی خواہ پولیس والا موجود نہ بھی ہو، کوئی گاڑی زیبرا کراسنگ تک آ جاتی تو لوگ گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر اسے شرم دلاتے چہ جائیکہ وہ خود ہی گاڑی پیچھے کرتا یا کرتی۔

دوبارہ پیدل چلنے والوں کا اشارہ سبز ہونے پر ہجوم کے ساتھ سڑک پار گئے، اب دائیں بائیں سنترم ایریا کی رہائشی عمارتیں اور فرنٹ پر مختلف دکانیں، تھوڑا آگے بائیں ہاتھ پر پوسٹ آفس کا بورڈ، یہ جگہ ذہن نشین کرلی، مزید آگے بائیں طرف ٹیلی کام ہیڈ کوارٹرز اور پھر لینن پارک والا بیرونی چوراہا، آئسکریم فروخت کرنے والیاں اور چوراہے کے پار پھول بیچنے والیوں کی دکانیں، ہمارا راؤنڈ مکمل ہو چکا تھا، لینن پارک کا گیٹ آیا تو اندر داخل ہوکر سیدھا لینن سٹریٹ پر چلتے واپس ہوسٹل پہنچ گئے۔

Check Also

Lahu Garm Rakhne Ka Hai Ik Bahana

By Syed Mehdi Bukhari