Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Afghanistan Ki Haqiqat

Afghanistan Ki Haqiqat

افغانستان کی حقیقت

افغانستان کے معاملے میں محبِ وطن پاکستانی اہلِ علم و دانش کا یہی خیال ہے کہ افغانستان نے ہمارے احسانات کو بھلا کر خود ہمیں ہی دانت دکھانا شروع کر دیے ہیں اور جب سے طالبان کی حکومت آئی ہے، پاکستان کے ساتھ نمک حرامی کا رویہ اختیار کیا ہے۔ یہ بات پاکستانیوں کے نقطۂ نظر سے تو درست ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ حقیقت بھی ہو۔ ہمیں کچھ لمحے کے لیے سوچنا چاہیے کہ افغانستان کے لوگ آخر ہم سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے دلوں اور ذہنوں میں پاکستان دشمنی رچ بس چکی ہے؟ کیا فطرتاً پیدائش سے ہی ان کے خمیر میں پاکستان دشمنی شامل ہوگئی یا کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں؟ اس کے علاوہ ہمیں کچھ لمحے کے لیے بھارت کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ ہم بھارت کو دشمن کیوں تصور کرتے ہیں؟ کیا ہم میں فطری طور پر بھارت سے نفرت شامل ہوگئی یا کسی اور وجہ کی بنا پر ہم نے بھارت کو دشمن ملک گردانا؟

اگر بھارت کے معاملے میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بھارت نے ہمیشہ ہمیں نقصان ہی پہنچایا، ہمیں دنیا میں رسوا کرنے کی کوشش کی، کشمیر پر ناحق قبضہ جما بیٹھا وغیرہ وغیرہ، اس لیے بھارت ہمارا دشمن ہے، تو ایک علم و فہم اور احساس کی نعمت سے مالا مال ذہن یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگا کہ ہم نے افغانستان کے ساتھ کیا کیا۔

کیا افغانستان کے اندرونی معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے رہے؟ کیا اقتدارِ کابل کے فیصلے پشاور میں طے نہیں ہوتے تھے؟ کیا افغانستان کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا بے دردی سے قتل عام کرنے والے امریکی فوجیوں کو ہم نے راستے اور اڈے مہیا نہیں کیے؟ کیا سوویت یونین کی افغانستان میں درندگی کے دوران ہم نے موقع غنیمت جان کر ایٹم بم نہیں بنایا؟ کیا افغان طالبان کی سرکردہ اور اہم شخصیات جو امریکہ کو مطلوب تھیں، ہم نے امریکہ کے سپرد نہیں کیں؟ کیا افغان مہاجرین کے نام پر پاکستانی حکومت کو فنڈز نہیں ملتے تھے؟ کیا افغانستان کی سرزمین پر پاک فضائیہ حملے نہیں کرتی رہی ہے؟ اور جب یہی عمل ہمارے ساتھ بھارت کرتا ہے اور وہ بھی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان سے دہشت گرد داخل ہو رہے ہیں، اس لیے ہم نے پاکستان کے اندر دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، تو اس سلسلے میں ہم بنیانٌ مرصوص بن جاتے ہیں کہ ہماری حدود میں داخل ہوئے اس لیے کرارا جواب دیں گے۔ لیکن کیا افغانستان کو یہ حق حاصل نہیں؟

دہائیوں سے افغانستان کے ساتھ روا رکھے جانے والے پاکستان کے ناروا سلوک کا وہاں کے لوگوں کو اچھی طرح ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان نے ان کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ انہیں آج بھی وہ مناظر دکھائی دے رہے ہیں جو پاک فضائیہ کی بمباری کے بعد وہاں کی مقامی آبادیوں کا ہوتا تھا۔ اب چاہے اسے "کولیٹرل ڈیمیج" (Collateral Damage) کا نام دیا جائے یا انتقام کا، لیکن کہیں نہ کہیں بے قصور لوگ بھی وہاں مارے گئے جن کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ افغانستان کی آج کی نوجوان نسل پاکستان اور اسرائیل میں فرق نہیں کرنا چاہتی اور یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ اگر اس میں کسی کو شبہ ہے تو وہاں جا کر دیکھ لے۔

بہرکیف، اس تمام تمہید کا مقصد یہ تھا کہ وقت آ چکا ہے کہ ہم افغانستان کے معاملے میں اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں۔ آپ افغانیوں پر بمباری اور دھمکیوں سے دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ اس سرزمین کے لوگوں کا خمیر لاوے کی طرح ہے، انہیں آپ جتنا دبانے کی کوشش کریں گے، یہ اتنی ہی زیادہ طاقت سے ابھریں گے اور اس کا ثبوت اس خطے کی تاریخ میں موجود ہے۔ ان کے ساتھ اب "لاٹھی کی پالیسی" ختم ہونی چاہیے۔

لاٹھی والی پالیسی ان کی نفرتوں میں مزید اضافہ کرے گی اور وہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی پر اتر آئیں گے۔ انہیں آزاد جینے کا حق دیا جائے، ان کے معاملات میں مداخلت ختم کی جائے اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا جائے۔ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کریں، ان کے طالب علموں کو وظائف (سکالرشپس) دیں اور افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ انہیں آزادانہ راستہ فراہم کریں تاکہ وہ آپ کے راستے سے تجارت کر سکیں۔ انہیں سی پیک (CPEC) میں شامل کیا جائے۔ تب دیکھیے گا کہ یہ بھارت کے خلاف آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف آپ کا ساتھ دیں گے اور ویسے بھی ان کے ساتھ ہمارا اسلام کا رشتہ ہے۔ ان کے ساتھ کھلی جنگ بھی نہیں کی جا سکتی۔

البتہ اگر آپ امریکہ کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تو پھر یہ بھی سوچیے کہ کبھی تو افغانیوں کا سورج بھی طلوع ہوگا، تب وہ آپ سے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیں گے۔ جیسا کہ مقولہ ہے: "ہر فرعونے را موسیٰ"، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں جب بھی کوئی شخص ظلم، تکبر یا سرکشی میں حد سے گزر جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے غرور کو توڑنے کے لیے کسی نہ کسی کو کھڑا کر دیتا ہے۔

Check Also

Centram Centram

By Ashfaq Inayat Kahlon