Quaid e Azam Aur Jadeed Qaumi Shaoor
قائدِ اعظم اور جدید قومی شعور

قومیں محض جغرافیائی حدود، مشترک زبان یا نسل کے سہارے وجود میں نہیں آتیں بلکہ ان کی اصل بنیاد ایک ایسا فکری و اخلاقی شعور ہوتا ہے جو افراد کو ایک مشترک نصب العین سے جوڑ دے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں یہ شعور ایک طویل فکری جدوجہد کے بعد ابھرا اور اس جدوجہد کی سب سے روشن اور فیصلہ کن علامت قائدِ اعظم محمد علی جناح کی شخصیت ہے۔ قائدِ اعظم نے نہ صرف ایک الگ ریاست کے قیام کی قیادت کی بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو جدید قومی شعور سے بھی آشنا کیا، جو محض جذباتی وابستگی نہیں بلکہ آئینی، سیاسی اور اخلاقی اصولوں پر مبنی تھا۔
انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کے مسلمان ایک پیچیدہ فکری بحران سے دوچار تھے۔ ایک طرف نوآبادیاتی نظام کی سیاسی و معاشی غلامی تھی اور دوسری طرف اکثریتی قوم کے غلبے کا خدشہ۔ اس صورتِ حال میں قومیت کا سوال نہایت اہم ہوگیا۔ قائدِ اعظم نے قومیت کو محض مذہبی جذبات یا تاریخی تفاخر کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ اسے ایک جدید سیاسی شعور کے قالب میں ڈھالا۔ ان کے نزدیک قوم وہ تھی جو اپنے سیاسی حقوق، آئینی تشخص اور اجتماعی مفاد سے آگاہ ہو۔
قائدِ اعظم کی سیاسی تربیت مغربی جمہوری روایات میں ہوئی تھی، مگر انہوں نے ان اصولوں کو مقامی حالات اور مسلم معاشرت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ ان کی سوچ میں قومیت کی بنیاد قانون کی بالادستی، شہری مساوات اور آئینی ضمانتوں پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ مسلمان محض ایک مذہبی گروہ نہیں بلکہ ایک جداگانہ قوم ہیں، جن کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی مفادات جدا ہیں۔ یہ تصور جدید قومی شعور کی ایک واضح مثال ہے، جہاں قومیت جذبات سے نکل کر سیاسی حقیقت بن جاتی ہے۔
قائدِ اعظم کی قیادت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو احتجاجی سیاست سے نکال کر تعمیری اور آئینی سیاست کی طرف راغب کیا۔ ان کا یقین تھا کہ جذباتی نعروں کے بجائے دلیل، مکالمہ اور قانون کے ذریعے ہی قومیں اپنے حقوق حاصل کرتی ہیں۔ یہی سوچ جدید قومی شعور کی اساس ہے، جس میں فرد ریاستی نظام کا ذمہ دار شہری بنتا ہے، نہ کہ محض ہجوم کا حصہ۔ انہوں نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ ان کی سیاسی بقا کا دار و مدار منظم جدوجہد، آئینی شعور اور متحد قیادت پر ہے۔
جدید قومی شعور کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ قائدِ اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر اس حوالے سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے واضح کیا کہ ریاستِ پاکستان میں مذہب کا تعلق فرد کے ذاتی عقیدے سے ہوگا اور ریاست تمام شہریوں کو بلا امتیاز برابر کے حقوق دے گی۔ یہ تصور اس بات کا ثبوت ہے کہ قائدِ اعظم کا قومی شعور تنگ نظری یا مذہبی شدت پسندی پر مبنی نہیں تھا بلکہ ایک جدید، کثرت پسند اور جمہوری سوچ کا عکاس تھا۔
قائدِ اعظم کے نزدیک قومی شعور کا ایک لازمی جزو کردار کی پختگی تھی۔ وہ بارہا دیانت، نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری پر زور دیتے تھے۔ ان کے نزدیک قومیں صرف نعروں سے نہیں بنتیں بلکہ اخلاقی اقدار سے تشکیل پاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں دونوں کو بدعنوانی، اقربا پروری اور ناانصافی سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہ اخلاقی شعور دراصل جدید قومیت کی روح ہے، جہاں ریاست اور فرد کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔
تعلیم قائدِ اعظم کے تصورِ قومی شعور میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ تعلیم کو محض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ فکری آزادی اور سیاسی آگہی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک تعلیم یافتہ قوم ہی اپنے حقوق اور فرائض کو صحیح معنوں میں سمجھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مستقبل ان کے کردار، علم اور نظم و ضبط سے وابستہ ہے۔ یہ سوچ جدید قومی شعور کی علامت ہے، جہاں نوجوان محض پیروکار نہیں بلکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔
قائدِ اعظم نے خواتین کے کردار کو بھی قومی شعور کا حصہ بنایا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی خواتین سماجی اور تعلیمی میدان میں فعال کردار ادا نہ کریں۔ یہ نقطۂ نظر اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا تصورِ قومیت روایت پرستی تک محدود نہیں تھا بلکہ جدید سماجی تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔
آج کے تناظر میں قائدِ اعظم کا تصورِ قومی شعور ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ موجودہ دور میں جب قومیں داخلی انتشار، فکری انتشار اور اخلاقی زوال کا شکار ہیں، قائدِ اعظم کی فکر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومی وحدت صرف نعروں سے نہیں بلکہ قانون، انصاف، برداشت اور اجتماعی ذمہ داری سے قائم ہوتی ہے۔ ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے کہ ایک مضبوط قوم وہی ہوتی ہے جو اپنے اختلافات کے باوجود آئینی اصولوں پر متحد رہے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح محض پاکستان کے بانی نہیں تھے بلکہ جدید قومی شعور کے معمار بھی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ایسی فکری سمت دی جس میں قومیت جذبات سے آگے بڑھ کر سیاسی بصیرت، اخلاقی اقدار اور جمہوری اصولوں سے جڑ گئی۔ اگر ہم آج بھی ان کے تصورِ قومی شعور کو سمجھ کر اپنی اجتماعی زندگی میں نافذ کریں تو نہ صرف قومی وحدت مضبوط ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک جدید، منصفانہ اور باوقار ریاست بن سکتا ہے۔

