Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khursheed Begum
  4. 25 December 1876 Aik Eham Din

25 December 1876 Aik Eham Din

25 دسمبر 1876ء ایک اہم دن

احساس اخوت کی بنا قائداعظم
الفت کی محبت کی صدا قائداعظم

دو قومی نظریے کو دیا ملک کا پیکر
خوشیوں کا پیمبر بنا آلام میں رہ کر

کون جانتا تھا کہ 25 دسمبر 1876 کو کھارادر کراچی میں پونجا جناح کے گھر پیدا ہونے والا بچہ ایک روز قائداعظم بنے گا۔ محمد علی جناح ایک تاریخ ساز شخصیت جس نے اسلامیان ہند کی تقدیر بدل دی۔ آج اس تاریخی شخصیت کے کردار کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم کی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات پر مبنی ضیا شاہد صاحب کی کتاب میرے ہاتھ لگی، جو محمد علی جناح کی ذاتی خوبیوں اور قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتی محسوس ہوتی ہے۔ آئیے اس کتاب سے اپنے محبوب قائد کے نمایاں اوصاف کو جانیں اور اپنی زندگیوں کو ان سے مزین کرنے کی کوشش کریں۔

قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب حسن سید لکھتے ہیں "قائداعظم کی دیانتداری اور اصول پسندی کی سب تعریف کرتے ہیں یہاں تک کہ انکے دشمن بھی۔ ایک مرتبہ مسٹر ٹیئنس نے جو مرہٹی زبان کے اخبار "کیسری" کے ایڈیٹر تھے، کہا کہ مجھے اس بات پر غصہ آتا ہے کہ تعجب ہے کہ مسلمانوں میں سے محمد علی جناح نام کے اس شخص کی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ بک نہیں سکتا۔ مطلوب حسن کہتے ہیں میں نے کہا یہ تو فخر کی بات ہے کہ ہندوستان میں نہ بکنے والے لوگ موجود ہیں تو وہ بولے "ہمارے درمیان ایسے لوگ کہاں ہیں؟ پورے ہندوستان میں جناح تو صرف ایک ہے"۔ پھر سرد آہ بھر کر کہا "میں ناز ہی نہیں کرتا، میں تو محمد علی جناح کی پرستش کرتا ہوں۔ کاش ہم ہندوؤں میں کوئی آدھا جناح بھی پیدا ہو جائے تو ہمارے بہت سے مسئلے حل ہوجائیں"۔

ہیکٹر بولائتھو اپنی کتاب "جناح" میں ایک ایسے وکیل کی گفتگو نقل کرتے ہیں جو قائداعظم کو اس زمانے سے جانتا تھا جب ان کے مالی حالات اچھے نہ تھے، لیکن اسکا کہنا تھا کہ اس وقت بھی جناح کا عمدہ سلا ہوا لباس ان کا طرہ امتیاز ہوتا تھا اور اس مشکل وقت میں بھی انتہائی خود اعتمادی اور بے باکی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ ان کی دیانت بھی انتہا درجے کی تھی، میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ انھوں نے ناانصافی یا ہیر پھیر کیا ہو۔ تیسرے درجے کی گھٹیا باتیں انکی فطرت کے خلاف تھیں۔

وکالت میں کامیابی کے آغاز میں قائد کی ملاقات معروف مصنفہ اور بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈو سے ہوئی۔ یہ پہلی ذہین خاتون تھیں جنھوں نے قائد کی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ کیا۔ وہ قائد کے متعلق اپنی کتاب میں لکھتی ہیں "میں نے کسی شخص کی ظاہری خصوصیات اور اس کے اصلی کردار میں اتنا فرق نہیں دیکھا۔ مسٹر جناح بلند قامت، دبلے اور دیکھنے میں کمزور معلوم ہوتے ہیں لیکن انکی عادتیں رئیسانہ ہیں۔ ان کی جسمانی ناتوانی ایک نظر فریب پردہ ہے جس کے پیچھے ان کے کردار کی غیر معمولی خوبیاں، قوتیں پوشیدہ ہیں۔ وہ روکھے اور تنک مزاج سمجھے جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان کو اچھی طرح جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ مسٹر جناح کی تمکنت اور رعونت کے خول میں ایک بڑی دلکش شخصیت ہے۔

ان کی انسانیت میں بڑا بھولاپن ہے، ان کا مشاہدہ ایک عورت کے مشاہدے کی طرح تیز اور نازک ہے۔ ان کے مزاج میں بچوں کے مزاج کی سی شوخی اور دلکشی ہے۔ مسٹر جناح بنیادی طور پر ایک عملی آدمی ہیں، ان کے جذبات پوری طرح ان کے ذہن کے تابع ہیں۔ زندگی کے متعلق ان کے جذبات بالکل غیر جذباتی ہیں۔ لیکن ان کی دنیاداری کے پردے میں اصول پرستی اور بے غرضی کے بڑے جوہر پوشیدہ ہیں اور یہی مسٹر جناح کے کردار کی بنیادی خصوصیت ہے جو انھیں لاکھوں میں ممتاز کرتی ہے"۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جنھوں نے قائد کو ایک سچا اور کھرا وکیل بنایا اور قائد نے اپنے انداز میں پاکستان کا مقدمہ بھی بڑی محنت اور سچائی سے لڑا اور کامیاب رہے۔

کیسی مثالی شخصیت تھی ہمارے قائد کی کہ غیر مسلموں کے دل میں بھی گھر کر گئی۔ اس منفرد شخصیت کی ایک خوبی عباس احمد عباس کی زبانی سنئے، "لاہور میں ملک برکت علی ایڈووکیٹ کی طرف سے ایک ٹی پارٹی دی گئی۔ جس میں قائداعظم کے سامنے وہ کیک رکھا گیا جو ہندوستان کے نقشے کے مطابق بنایا گیا تھا اور اس میں پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں کا رنگ سبز تھا۔ جب بابائے قوم نے کیک کاٹا تو بڑی احتیاط سے سبز حصہ الگ کردیا۔ کسی نے کہا جناب ذرا سا اور کاٹ لیجئے۔ جواب ملا میں تجاوز پسند نہیں کرتا۔ نہ کسی کا حق غصب کرو اور نہ اپنا چھوڑو"۔

قائداعظم کے اے ڈی سی جنرل حسن گل کہتے ہیں "ایک بار ان کے بھائی ان سے ملنے آئے۔ انھوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا۔ قائد نے پوچھا "کون ہیں؟" میں نے کہا "آپ کے بھائی ہیں"۔ وہ بولے "انھوں نے پہلے سے وقت لیا تھا؟" میں نے کہا "جی نہیں"۔ فرمایا "انھیں کہو تشریف لے جائیں"۔ پھر میرے ہاتھ سے لے کر سرخ پنسل سے اس پر سے قائداعظم کا لفظ کاٹا پھر گورنر جنرل آف پاکستان کا لفظ کاٹا اور کارڈ مجھے تھماتے ہوئے کہا "ان سے کہو کہ کہ کارڈ پر صرف اپنا نام لکھیں، میرے یا گورنر جنرل کے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں"۔ یہ تھے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے بانی اور پہلے سربراہ۔

اب قائداعظم کے کچھ ارشادات اہل پاکستان خصوصا ان لوگوں کے نام جو انھیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں چاہتے تھے۔

18 اگست 1947ء بروز عید قوم کے نام پیغام دیا "یہ آزاد اور خودمختار پاکستان کی پہلی عید ہے جو ان شاء اللہ خوشحالی کا ایک نیا باب کھولے گی اور جو اسلامی ثقافت و نظریات کی نشاةِ ثانیہ کی تحریک کا اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو ہماری گزشتہ اور قابل احترام تاریخ کے شایان شان بنائے اور ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اپنے پیارے پاکستان کو دنیا کی عظیم قوم بنا سکیں"۔

سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر فرمایا "ہمارا اقتصادی نصب العین یہ ہے کہ ہمارے عوام ہر طرح مطمئن اور خوش و خرم ہوں۔ مغرب کے اقتصادی نظریے اور اس کا معاشی نظام ہمارے درد کا درماں نہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے مخصوص تصورات و مقاصد کے مطابق اپنے اقتصادی نظام کی تشکیل کریں اور دنیا کے سامنے ایک ایسا نمونہ پیش کریں جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے اسلامی تصورات کا آئینہ دار ہو۔ اس طرح وہ مشن بھی پورا ہو جائے گا جس کے لئے بحیثیت مسلمان ہم نے اپنے آپ کو وقف کردیا ہے اور ہم دنیا کو امن و آشتی کا راستہ بھی دکھا سکیں گے۔ اسی راستے میں انسانیت کی نجات ہے اور اسی کے ذریعے بنی نوع انسان کو خوشحالی اور مسرت نصیب ہو سکتی ہے"۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنی اختتامی تقریر میں قائداعظم نے فرمایا "ہماری عظیم الشان کتاب قرآن مجید ہے جو مسلم انڈیا کے سفینے کا لنگر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ویسے ویسے یہ وحدت اور زیادہ بڑھتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول، ایک قبلہ اور ایک ملت۔ اگر ہم نے ان ستونوں پر آزاد ریاست کی بنیاد رکھی تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکے گا اور ہم آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے"

14 فروری 1948ء کو سبی دربار میں خطاب کے دوران قائد نے فرمایا "یہ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات ان سنہری اصولوں پر عمل درآمد میں ہے جو عظیم المرتبت مقنن اعظم پیغمبر اسلام نے ہمیں عطا فرمائے ہیں۔ آئیے! ہم لوگ اپنی جمہوریت کی بنیاد اسلام کے سچے تصورات پر استوار کریں۔ خداوند مطلق نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ امارت و حکومت کے بارے میں اپنے معاملات باہمی مشاورت سے طے کیا کرو"۔

میرے عزیز ہم وطنو! اپنے محبوب قائد کے لئے عقیدت و محبت کے اظہار کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ ہم اس نصب العین کو ایک لمحہ کے لئے بھی نظرانداز نہ کریں، جو قائداعظم نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور پاکستان کو ایسی شاندار مملکت بنا دیں جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔

اے روح قائد عرض ہے

بدلی اس ملک کی یوں آب و ہوا تیرے بعد
تجھ سا اس قوم کو رہبر نہ ملا تیرے بعد

غیرت دین پہ جو قربان کرے تن من اپنا
اہل دانش سے کوئی پھر نہ اٹھا تیرے بعد

Check Also

Moscow Se Makka (8)

By Mojahid Mirza