Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Centram Centram

Centram Centram

سنترم سنترم

ملک یوسف نے زور دیکر میری کلین شیو کروا دی، اس کے بقول "نواجوانی کا بابر علی لگتے ہو"۔ جو بھی دیکھے یہی کہے "بہت معصوم شکل ہے"۔ جب سے ہم آئے تھے غسل کا موقع نہیں ملا تھا، لینن ہوسٹل کے پہلے فلور پر مشترکہ غسل خانے بغیر دروازے تھے یعنی جو بھی نہائے سب اس کی فلم دیکھیں، ایک قریبی مساج سنٹر میں غسل کی سہولت کا معلوم ہوا، ہوسٹل والے چوراہے سے دائیں مُڑے اور تیزی سے آتی دو لڑکیوں سے ٹکراتے بچے، یہ جان بوجھ کر سر جھکائے چلنے اور ٹکرانے والا معاملہ ہر گز نہ تھا۔

ایک لڑکی زمین پر جا گری، میں نے جھک کر اسے اٹھایا، "از وی نمسیا، از وی نمسیا" یعنی معذرت خواہ کی گردان شروع کر دی، وہ ہنس ہنس دوہری، رشین میں جانے کیا بولی، بس اتنی سمجھ آئی "ایتا مایا اوشبکا"۔ یعنی یہ میری غلطی ہے، پھر غور سے میری شکل دیکھ کر بولی "کک اُو تبیا زووُت؟" اتنی سمجھ آ گئی کہ میرا نام پوچھ رہی ہے، میں خاموش کہ یہ کیا ماجرا ہے، لڑکیوں سے چھیڑ خانی پر پٹائی کا ڈر بھی تھا، وہ ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی "یا زابیلا"۔ یعنی میں بھول گئی، تب ازابیلا کا مطلب معلوم نہ تھا اور میں لڑکی کا نام ازابیلا سمجھا تھا، لڑکیوں نے ہمارے ہاتھوں میں تولیے دیکھ کر پوچھا "کہاں جا رہے ہو؟" اشارے سے مساج سنٹر کی طرف اشارہ کیا تو چہک کر بولی "دوائے پائیدوم ومستے"۔ یعنی "آؤ اکٹھے چلتے ہیں"۔

میرے پیچھے کھڑے ملک یوسف نے اسے اشارہ کیا کہ پکڑ لو، وہ میرے بائیں بازو میں اپنا دایاں بازو ڈال کر ساتھ چلنے کی ایکٹنگ کرنے لگی، اس کی ساتھی لڑکی میری حالت سے محظوظ ہو رہی تھی، اس نے پہلی لڑکی کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا، پھر دونوں "پکا پکا" یعنی بائے بائے بولتیں ہاتھ ہلا کر چلی گئیں، ملک یوسف مسکرائے اور میں شرمندگی والی ہنسی، ملک بولا "اس شہر میں تیرا مستقبل روشن لگتا ہے، لڑکیاں تیری معصوم شکل پسند کرتی ہیں"۔

مساج سنٹر پر جو ڈرامہ ہوا وہ ایک الگ داستان ہے، واپسی پر ملک یوسف نے میرا خوب مذاق اڑایا، ناشتے کے بعد ہم دونوں تیار ہوئے، میدم لیڈیا سے ملنے دریا پار سیمی سٹیٹ یونیورسٹی کے ایڈمن آفس جانا تھا، بس پر سوار ہو کر روانہ ہوئے، بس دریا ارتش کے پُل پر سے گزری، دریا کا پاٹ توقع سے زیادہ چوڑا تھا، بس سٹاپ کے ساتھ ہی ایک سینما واقع تھا، سٹاپ پر یونیورسٹی سٹاف نے استقبال کیا اور ایک کمرے میں لے جایا گیا، دو بڑی ٹیبلوں کے گرد پانچ چھ افراد موجود، رسمی علیک سلیک کے بعد چائے اور بسکٹ کا دور چلا، مترجم کی مدد سے گفتگو کا آغاز ہوا، ملک یوسف نے ان کو اپنے مختلف بزنس بارے بتایا، اپنے پاسپورٹ پر لگے سائپرس، فرانس اور برطانیہ کے ویزے دکھا کر ان کو یقین دلایا کہ وہ بزنس کیلئے بیرون ممالک سفر کرتا رہتا تھا، اس سفید جھوٹ پر میری آنکھیں پھیلنا شروع ہوئیں تو اس نے میرے پاؤں کو ٹہوکا دیا کہ بس سنتے رہو، گفتگو کا ایجنڈا پاکستان سے میڈیکل سٹوڈنٹس مہیا کرنا تھا، قصہ مختصر ملک صاحب نے تمام افراد کو جن کی طرح بوتل میں بند کیا کہ یونیورسٹی ڈین اپنی گاڑی میں ہم کو اُولتسا گلنکی سٹریٹ والے مین کیمپس لے گئی۔

یہ کیمپس بہت بڑا تھا، وہاں موجود سٹاف سے ہمارا تعارف کروایا، چند ایک کلاس رومز کا وزٹ کیا، ملک یوسف نے سٹوڈنٹس سے انگریزی میں خطاب کیا جو مترجم نے آگے بیان کیا، تعلیم کی اہمیت بیان کی وغیرہ وغیرہ، اس کے بعد ہوسٹل کا دورہ کیا، سہولیات کے لحاظ سے یہ لینن ہوسٹل نمبر 3 سے بہت بہتر تھا، دورہ ختم ہوا تو یونیورسٹی ڈین زبردستی ہم کو کھانے پر لے گئی، ملک یوسف نے اسے پاکستانی چاول اور لیدر کی بنی مصنوعات سستے دام فراہم کرنے کا وعدہ کیا کیونکہ ملک صاحب کے بقول اس کی ایک عدد لیدر مصنوعات والی فیکٹری میں فقط ایکسپورٹ کوالٹی مال بنتا تھا، دورہ ختم کرکے ڈین نے ہمیں واپس ڈراپ کرنا چاہا تو ہم ایل ڈے راڈو پر کچھ خریداری کے بہانے اتر گئے۔

میں ہنس ہنس کر دوہرا ہو رہا تھا، ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہ لیتی اور ملک میسنی ہنسی ہنس رہا تھا، میں شرمندہ تھا کہ جتنی بڑی بڑی باتیں سنا کر آئے، یہ سب ہمارا امیج خراب کرنے کیلئے کافی تھیں، دریا کے پار والا علاقہ بھی خوب صورت تھا، طے پایا کہ وہاں کا وزٹ کریں، بس پر سوار ہو کر آخری سٹاپ اُولتسا یُونوتسا ایریا جا پہپنچے، شہر کے مضافات میں واقع ایک طرح کا گاؤں، ڈاچے یعنی زمینی گھر زیادہ، کچے راستے اور تاحد نگاہ کھیت، کچھ دس بارہ منزلہ رہائشی عمارتیں، بچوں کے کھیلنے کا پارک، مقامی بلدیہ کا ٹاؤن پلاننگ ڈویژن اس کے بغیر کسی رہائشی سکیم کی منظوری ہی نہیں دیتا تھا۔

واپسی پر بس میں رش تھا، ایک سٹاپ پر ایک بوڑھی عورت اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے سوار ہوئی، ہم نے اپنی سیٹیں انہیں دیدیں اور خود کھڑے ہوگئے، زور کی بریک لگی تو میں لڑکی کے اوپر جا گرا اور ملک یوسف میرے اوپر، لڑکی کی چیخ بلند ہوئی، میں پیچھے کو زور لگانا چاہا لیکن پھر سے بریک لگی اور ہم مکمل لڑکی کے اوپر، "از وی نمسیا، از وی نمسیا"۔ کی رٹ لگائی، لڑکی سمجھ گئی کہ یہ ہماری غلطی نہیں بلکہ سہوا تھا۔

ہم کو سنترم سٹاپ واقع ایل ڈے راڈو کے عین مقابل اترنا تھا لیکن باتوں باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ کب سنترم آیا اور گزر گیا، حیرت کا جھٹکا تب لگا جب لیڈی کنڈکٹر نے آواز دی، ہم نے باہر جھانکا، یہ بس ڈپو تھا، کچھ ورکشاپس، یہ شہر کے دوسری طرف آخری سٹاپ تھا، حیرت سے کنڈکٹر کو دیکھا اور بولے "سنترم سنترم" کنڈکٹر بھانپ چکی تھی کہ ہم راستہ بھول بیٹھے ہیں، اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ بیٹھے رہو، بس دوبارہ روانہ ہوئی تو اس نے ہم سے کرایہ نہیں لیا، سنترم سٹاپ آنے پر اس نے خود ہم کو مطلع کیا، نیچے اتر کر ہم بہت ہنسے۔

سنترم سنترم والا ٹوٹکا اتفاق سے کارآمد ثابت ہوا تھا، اس کے بعد جب کبھی آوارہ گردی کا موڈ بنتا ہم اسی فارمولے پر عمل کرتے تھے، کسی بھی سمت سے آنے والی بس میں چڑھ جاتے، جہاں بس کا آخری سٹاپ ہوتا وہاں حیرت سے باہر جھانکنے کی داکاری کرتے "سنترم سنترم" کے نعرے لگاتے اور بغیر کرایہ ادا کئے جہاں سے بس میں سوار ہوتے تھے واپس اسی جگہ پر اتر جاتے۔

بسوں میں سفر کرتے میں نے نوٹ کیا کہ فقط رنگ گورا ہونا خوب صورتی نہیں ہوتا بلکہ نین و نقوش بھی اہمیت رکھتے ہیں، صاف رنگت اور تیکھے نین نقوش، خوب صورتی کے لحاظ سے رشین کو ٹاپ پر فائز کرتے ہیں، تقریباََ ہر رشین صنف نازک، نوجوان، جوان، ادھیڑ عمر یا بوڑھی اپنا بہت خیال رکھتی ہے، اس کا لباس صاف ستھرا ہوتا، کام پر چاق و چوبند نظر آتی، رشین لوگ کام کو عبادت سمجھ کر کرتے، شاذ و نادر کے جسم پر چربی دکھائی دیتی، مرد کے چہرے پر موٹاپے کے باعث ڈبل ٹھوڑی بُری ضرور لگتی ہے تو اس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے لیکن عورت کے چہرے پر ڈبل ٹھوڑی کا بننا بہت ہی بھیانک منظر دکھائی دیتا ہے، ہر رشین صنف نازک اس معاملے میں بہت حساس نظر آتی ہے، ان کا لباس، چال ڈھال، انداز گفتگو، خود اعتمادی انسان کا دل موہ لیتی ہے، کسی نہ کسی رنگ میں وہ مدمقابل کو متاثر کر دیتی ہے۔

ان کے مقابلے میں مقامی قازاق صنف نازک کو ہم بھاؤ نہ دیتے تھے، ان کی چال ڈھال ہرنی جیسی، ایک ایک قدم پر نزاکت کے جلوے بکھیرتیں لیکن جب چہرہ سامنے آتا تو چینی پھینی شکلیں دیکھ کر الٹے پاؤں دوڑ لگا دیتے تھے، ہر چیز میں یہ رشین لڑکیوں کو کاپی کرتی تھیں، البتہ تاتاری النسل قبول صورت تھی، رشین لڑکیوں کی ایک مزید چیز نوٹ کی کہ وہ شادی کے بعد بھی خاوند کی محبوبہ بن کر رہتی ہے، ان کے مطابق اس طرح محبت تاعمر جوان رہتی ہے، اس نقطہ کی مجھے بہت دیر بعد سمجھ آئی تھی، بلاشبہ قدرت نے تمام نسوانی حسن پہلے رشین کو عطا کیا ہے، اس کے بعد کوئی دوسرا، تیسرا یا چوتھا نمبر ہوگا۔

Check Also

Wazir e Azam Bhainsen Bhi Rakh Lein

By Javed Chaudhry