Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Moscow Se Makka (8)

Moscow Se Makka (8)

ماسکو سے مکہ (8)

جب میں تقریباََ سب کے بعد ساتویں منزل پر کمرہ نمبر 715 میں پہنچا تھا تو دل دھک کرکے رہ گیا تھا۔ ایک لمبوترے کمرے میں دیوراوں کے ساتھ چھ بیڈ رکھے ہوئے تھے سامان رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ کمرہ تھا کہ "بلیک ہول"۔ دو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں جن کو واقعی سیاہ رنگ کیا گیا تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور باہر سے ٹریفک کا شور اندر آ رہا تھا۔ کھڑکیوں کے ساتھ والا بستر اور دروازے کے ساتھ والا بستر خالی تھے۔ میں نے اپنے ساتھ آنے والے ہوٹل کے باریش سیاہ فام ملازم سے کہا تھا کہ کھڑکی کے ساتھ والے بستر پہ چادر بچھا دو۔ اس نے چادر بچھائی تھی، تکیے پہ غلاف چڑھایا تھا اور بس۔ میں نے کہا تھا کہ کمبل کے نیچے لگانے کی خاطر چادر؟ تو بولا، ما فی، یعنی ندارم۔ میں نیچے چلا گیا تھا اور احتجاج کیا تھا۔ بالآخر عارف نے، جو روسی بولنے والا عرب تھا، ایک چادر دلوا دی تھی۔ میں نے رشید کو بس اتنا ہی کہا تھا کہ بھائی میں حج تک صبر کرتا ہوں کیونکہ کرنا ہی ہوگا لیکن اس کے فورا" بعد پہلی پرواز میں مجھے بھجوانے کا بندوبست کر دینا۔ ظاہر ہے میں نے جھلا کر یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے اچھا کہہ کر نظریں جھکا لی تھیں۔ لگتا تھا کہ وہ بھی تھک چکے ہیں۔

کمروں کے بارے میں شکایات سن سن کر وہ بھی اس قدر جھنجھلا گئے تھے کہ انہوں نے کسی کو فون کرکے کہا تھا کہ علی شیر، حیدر بلکہ سب یہاں پہنچو۔ علی شیر وہی لمبا اور لحیم نوجوان تھا جس کے بارے میں مجھے ماسکو میں بتایا گیا تھا کہ وہ کمپنی "سلوٹس" کا ڈائریکٹرجنرل ہے۔ مجھے نماز جمعہ کے بعد تاریخی مسجد کے باہر اس سے ملوایا گیا تھا۔ میں نے پوچھا تھا کہ ہوٹل میں تولیہ تو ملے گا ناں؟ تو اس نے جواب دیا تھا کہ کیا پتہ، حج کا موقع ہے، تولیہ اپنے ساتھ لے ہی جانا۔

یہ فقرہ بھی رشید حضرت نے لوگوں کو خاموش کرائے جانے کی خاطر ہی کہا ہوگا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کل سے لوگ عبادات میں مصروف ہو جائیں گے اور بس۔ واپس کمرے میں آیا تو ماگومید بھی بھٹک بھٹکا کر پہنچ چکا تھا اور دروازے کے سامنے بستر پہ بیٹھا پھٹی پھٹی نگاہوں سے خلا میں گھور رہا تھا۔ چار افراد بستروں پہ لیٹے کسمسا رہے تھے۔ میں نے کھڑکیاں بند کرکے اے سی چلا دیا تھا۔ لیٹے ہوئے لوگوں نے فورا" کمبل یوں لپیٹ لیے تھے جیسے انہیں سرد جہنم میں پھینکا جانے کو ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹہ ہی لیٹے اور سوئے ہونگے کہ فجر کی نماز کے لیے اٹھنا پڑا تھا۔ نماز ہوٹل کی لابی کے ساتھ نماز کے لیے مخصوص ہال میں باجماعت پڑھی تھی۔ نماز کے بعد طے ہوگیا تھا کہ ہم لوگ عمرہ کرنے 9 بجے روانہ ہونگے۔ ہم میں سے اکثر نے "حج تمتع" کا انتخاب کیا تھا اور چند لوگوں نے "حج قران" کا۔ حج تمتع میں عمرہ کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے اور حج قران میں عمرہ اور حج کا احرام ایک ہی ہوتا ہے۔ نماز کے بعد پہلی منزل پہ ایک ہال میں ناشتہ دیا جانا شروع ہو چکا تھا۔ چھوٹے قدوں والے بچوں جیسے لڑکے ناشتہ بانٹ رہے تھے۔ میں نے پوچھا تھا کہ یہ بچے کیوں کام کر رہے ہیں اور مذاق میں کہہ دیا تھا کہ کیا میں پولیس کو بلا لوں تو ایک اردو بولنے والے نسبتا" بڑی عمر کے لڑکے نے کہا تھا کہ بلالیں وہ کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ یہ سب لڑکے برما کے مسلمانوں کے بچے تھے جو یہیں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے اپنا ملک دیکھا تک نہیں تھا۔ بس میں کھجوریں اور پانی بانٹنے والا بچہ اور اب یہ بچے۔ پتہ یہ چلا تھا کہ چھٹیاں ہیں اس لیے بچے کام کر سکتے ہیں۔ ایک خوش حال ملک میں بچوں کے اس طرح کام کرنے نے ایک بار پھر کوئی خوشگوار تاثر نہیں چھوڑا تھا۔

متمدّن مغربی ملکوں میں بھی سکول کے بچوں کو گرمیوں کی تعطیلات کے دوران کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن ان کے لیے کام مخصوص ہوتے ہیں، جو نہ تو سخت ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسے کام کرنے سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ مطعم میں کام کرنے والے انہیں بچوں میں ایک بڑی عمر کا لڑکا کوئی سولہ برس کا تھا جو اردو یا ہندی جو بھی کہہ لیں کچھ بہتر بول لیتا تھا۔ اس نے کہا تھا، "کیا کریں انکل! مجبوری ہے۔ میرے باپ کو گنٹھیا کا مرض ہے۔ بہنیں کام نہیں کر سکتیں، باقی بہن بھائی چھوٹے ہیں، تو مجھے ہی کمانا ہوگا"۔ لیجیے صاحب تیل سے بھرے اس ملک میں اور عین کعبۃاللہ سے دو ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر مجبوری اور محنت کی تصویر آویزاں تھی۔ لاحول ولا پڑھتا ہوا کمرے میں چلا گیا تھا۔

ماگومید سو رہا تھا اور باقی لوگ نہیں تھے۔ لیٹ گیا تھا، کوئی ایک آدھ گھنٹہ ہی سویا ہوں گا کہ دماغ میں لگے ہوئے الارم نے جگا دیا تھا۔ ماگومید شاید ناشتہ کرنے چلا گیا تھا۔ اٹھارہ آدمیوں کے لیے چھوٹے سے باتھ روم میں گیا تھا۔ کموڈ کی نشست گیلی تھی۔ میرے پاس کچھ ٹشو پیپر محفوظ تھے جن کی مدد سے اسے خشک کیا تھا۔ سعودی عرب میں بھی ٹوائلٹ پیپر کا اسی طرح کوئی تصور نہیں ہے، جس طرح گرم خطوں کے دیگر غیر ترقی یافتہ ملکوں میں۔ دلیل یہ ہوتی ہے کہ پانی جو موجود ہے حالانکہ ٹوائلٹ پیپر کا استعمال نظافت کا حصہ ہے۔ صابن میں مدینہ سے ہی خرید لایا تھا، جی ہاں اس ہوٹل میں بھی صابن تولیہ مفقود تھا۔ غسل کیا تھا اور احرام باندھ کر نو بجے سے پہلے لابی میں پہنچ گیا تھا۔

دوسرے ساتھی بھی احرام باندھے ہوئے موجود تھے۔ ہم سب نکلے تھے۔ ٹریفک سے بھری سڑک عبور کی تھی۔ رشیت حضرت ٹیکسی لینے میں مدد کر رہے تھے۔ عشرہ یعنی دس ریال فی نفر کے حساب سے لوگ مختلف ٹیکسیوں میں سوار ہو گئے تھے۔ جس ٹیکسی میں میں تھا اس میں میری ساتھ تین عورتوں کو بٹھایا گیا تھا۔ ویسے تو سعودی عرب میں زیادہ تر ٹیکسی ڈرائیور پاکستانی ہیں اور ان میں سے بیشتر میرے گرائیں یعنی سرائیکی ہیں لیکن یہ ڈرائیور عرب نژاد تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا تھا، "تحت الحرم؟" مجھے کیا پتہ تھا کہ حرم سے نیچے جانا ہے یا کہاں۔ میں نے لاعلمی کے اظہار کے لیے کندھے اچکا دیے تھے۔ اس نے ہمیں ایک سرنگ میں وہاں اتار دیا تھا جہاں دوسری گاڑیوں سے بھی لوگ اتر رہے تھے۔ ایک جانب اوپر جانے کے لیے خودکار زینہ کام کر رہا تھا جس کے ذریعے ہم چاروں اوپر پہنچ گئے تھے، سامنے ہی حرم کا دروازہ "باب الاجیاد" تھا۔ فون کرکے مولانا رشیت سے انکا محل وقوع دریافت کیا تھا۔ وہ اگلے ہی دروازے "باب العزیز" کے سامنے تھے۔

عمرہ کرنے کا طریقہ کچھ ہمیں معلوم تھا، کچھ مدینہ سے مکّہ آتے ہوئے رشیت حضرت نے بتا دیا تھا مگر میں اپنے ساتھ عمرہ سے متعلق پاکستان کی تیار کردہ یو ٹیوب پہ موجود اس فلم کو دیکھ کر جو حج سے متعلق تھی، لکھا گیا طریق اور دعاؤں والا کاغذ ہمراہ لے آیا تھا۔ ہم سب باب العزیز سے حرم میں داخل ہوئے تھے۔ پہلا ہال گزرنے کے بعد زینہ اتر کے کعبۃاللہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں نے عقیدہ وحدانیت کے اس پہلے ٹھکانے اور بالآخر وحدانیت کا مرکز قرار پانے والی اس سادہ مگر پر وقار عمارت پہ نظریں جما کر اور دعاؤں کے ساتھ خاص طور پر روزنامہ "آج کل" کے ادارتی صفحے کے انچارج عزیزی اسعد رحمٰن کے مرحوم والد کی مغفرت کے لیے بھی دعا کی تھی۔

چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لیے حجر اسود کے سامنے لگی سبز روشنی کے سامنے التزام کیا تھا۔ التزام دونوں ہاتھ حجر اسود کی جانب اٹھا کر ہتھیلیاں اس کی جانب کرکے "بسم اللہ اللہ اکبر" کہنے یعنی ایک چکر کی نیت کرنے کو کہا جاتا ہے۔ چونکہ میرے ایک ہاتھ میں کاغذ تھا اس لیے ایک ہتھیلی ہی مناسب طریقے سے کھلتی تھی۔ یہ دیکھ کر کہ لوگ ایک ہتھیلی سے ہی التزام کرکے اسے چوم لیتے ہیں اطمینان ہوگیا تھا۔ پھر دائیں کندھے سے احرام اتار کر، بغل کے نیچے سے پلو لے جا کر بائیں کندھے پہ ڈالتے ہوئے رمل کرنے لگے تھے۔ رمل طواف کے اس عمل کو کہا جاتا ہے جو پہلے تین چکروں میں کندھے ہلا ہلا کر تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتے یا بھاگتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

کعبے کو دیکھ کر جیسے کہ لوگ کہتے ہیں، مجھ پہ نہ تو کوئی ہیبت طاری ہوئی تھی اور نہ ہی کچھ اور ہوا تھا۔ میں بس پر سکون تھا کہ میں ایک ایسے مقام کے نزدیک موجود ہوں، جہاں حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کے بعد کہیں جا کر نبی آخر الزمان اور صحابہ والا تبار کے قدم بھی پڑے تھے۔ حضرت اسمٰعیل کے بعد آنے والے تمام پیغمبر اس علاقے سے دور دوسرے علاقوں میں مبعوث ہوئے تھے۔ گرچہ نہ تو اب وہ سطح زمین تھی بلکہ فرش ہی سنگ مرمر کا تھا اور نہ ہی کعبے کی وہ پہلے والی عمارت تھی جو تب ہوا کرتی تھی کیونکہ اسے بارشوں کے پانی کے سبب سیلاب آنے سے پہنچنے والے نقصان کے باعث کئی بار پھر سے تعمیر کیا جا چکا ہے، لیکن مقام اور مکان وہی ہے۔ رمل کیا تھا بس کھڑے کھڑے دوڑ کا بہانہ تھا کیونکہ بہت زیادہ ہجوم تھا۔ مولانا کے کندھے پہ ہاتھ رکھے ہوئے ایک نوجوان بھی رمل کر رہا تھا، جو ہمارا ساتھی تھا لیکن میں تب تک اس کے نام سے شناسا نہیں تھا۔ اس نوجوان کے پیچھے ایک نوجوان لڑکی تھی، جو غالبا" اس نوجوان کی اہلیہ تھی جس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں اس لڑکی کے ایک جانب تھا۔ دعائیں پڑھ رہا تھا لیکن سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی نے کیا کچھ زیادہ گناہ کیے ہیں جو رو رہی ہے؟ ارے نہیں عورت ہے ناں جو زیادہ جذباتی ہوتی ہے۔

ایک چکر تو ان کے ساتھ مل کر کاٹا تھا۔ دوسرے چکر میں کعبے کی عمارت کے نزدیک ہونے کی کوشش کی تھی اور تیسرے چکر میں کعبے کی عمارت کو چھو ہی لیا، اگرچہ ایسا کرنا عمرے کا حصہ نہیں ہوتا۔ مگر جلد ہی لوگوں کے ایک ریلے نے مجھے دور دھکیل دیا تھا۔ حجر اسود تک رسائی محال تھی کیونکہ لوگ کعبے کی دیوار کے ساتھ چپکے کھڑے تھے۔ حجر اسود کو چومنا عبادت ہے لیکن لوگوں کے لیے جگہ چھوڑ دینا واجب۔ مگر یہاں انسانی خود غرضی حاوی تھی۔ طواف کی تکمیل تو کر لی لیکن بھول گیا کہ چکر چھ رہے یا سات چنانچہ ایک اضافی بھی کرنا پڑا۔ طواف کے دوران گرمی اور پسینے سے برا حال ہوگیا تھا۔ کوئی تیسرے چکر میں مجھے ایسے لگا تھا جیسے سر پہ بارش کی بوندیں پڑی ہوں، آسمان کی جانب نگاہ کی تو ہلکے ہلکے بادل بھی تھے۔ میرے منہ سے نکلا تھا "واہ، سبحان اللہ" کیونکہ میں نے سمجھا کہ اللہ ہم پہ باران رحمت کر رہا ہے۔ میرے پیچھے تیسرے آدمی نے بلند آواز اور اردو زبان میں کہا تھا، "اوپر سے پانی کی پھوار پھینک رہے ہیں جی" اور میں اپنے گمان پہ شرمسار ہوگیا تھا۔

طواف کی تکمیل کے بعد مقام ابراہم کے نزدیک دو نفل پڑھنے ہوتے ہیں لیکن ایسا ہجوم میں ممکن نہیں ہوتا اس لیے مقام ابراہیم کے سامنے کہیں بھی پڑھ لینا درست ہوتا ہے۔ میں نے کسی جگہ کھڑے ہو کر سنگ مرمر پہ ماتھا ٹکا دیا تھا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد پیٹ بھر کے آب زم زم پینے کی نصیحت ہے۔ لکھا ہو ا تھا "سعی کی جانب" لیکن آب زم زم کا کولر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک خادم سے پوچھا تھا تو اس نے ایک جانب اشارہ کر دیا تھا۔ وہاں کئی ٹونٹیوں والا کولر تھا۔ ہر ٹونٹی کے ساتھ ریک میں ڈسپوزیبل گلاسوں کے مینار تھے اور لوگ آب زم زم سے سیر ہو رہے تھے۔ آب زمزم پیا تھا اور سعی کے لیے پہاڑی صفا کے پاس پہنچ گیا تھا۔ مکہ میں تمام پہاڑیاں کاٹ کر ہی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں چنانچہ صفا اور مروہ کو بھی ختم کرنا پڑا البتہ ان دونوں پہاڑیوں کے چھوٹے چھوٹے حصے باقی رہنے دیے گئے ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان ایر کنڈیشند دو طرفہ برآمدے ہیں۔ میں نے صفا کے نزدیک جا کر ہاتھ میں پکڑے کاغذ سے دعا پڑھ کر سعی کا آغاز کیا تھا۔ دھوتی کی مانند باندھے احرام کے حصے پہ نظر پڑی تو اس میں اڑسا ہوا دھوپ کا چشمہ غائب تھا۔ میں نے طواف کے دوران الجھن سے بچنے کی خاطر اسے آنکھوں سے اتار کر احرام میں اڑس لیا تھا لیکن اسے تو معتمرین کے پاؤں تلے روندے جانا تھا۔ اس کی یہی تقدیر تھی۔ جہ ہاں تقدیر انسان یا زندہ چیز کی ہی نہیں بلکہ ہر چیز کی ہوتی ہے جیسے صفا و مروہ نام کی پہاڑیوں کی کہ وہ کٹ کر بھی ایک عبادتی عمل کے نشان بنی ہوئی ہیں۔ وہ مقام جو آدمیوں کو بھاگ کر طے کرنا ہوتا ہے اور عورتوں کو چل کر صفا کے نزدیک ہے لیکن مروہ سے دور۔

مرض وجہ المفاصل کی وجہ سے میرے دائیں پاؤں کے پنجے والے حصے میں چلتے ہوئے بدن کے بوجھ کی وجہ سے بیشتر اوقات درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ تیسرے چکر پہ میں نے سوچا کہ صفا و مروہ کے درمیان اپنے بچے کے لیے پانی کی تلاش میں تو بی بی حاجرہ علیہ الرحمہ دوڑی تھیں، سعی میں ہم مردوں کو دوڑنے کی ہدایت کیوں ہے؟ کہیں اس لیے تو نہیں کہ حضرت ابراہیم مرد تھے اور وہ انہیں اس ویرانے میں چھوڑ گئے تھے۔ اللہ کی اللہ ہی جانے، بہر حال سعی مکمل کی تھی۔ سعی کے دوران میں دوسری جانب دیکھتا رہا تھا کہ شاید کوئی ساتھی دکھائی دے جائے۔ ممکن تو یہ بھی تھا کہ وہ میری ہی جانب کے حصے میں آگے یا پیچھے ہوں۔ پانچویں چکر میں دوسری جانب مجھے اپنے گروپ کا ایک نوجوان دکھائی دیا تھا، میں نے بھاگ کر اسے روکا تھا اور پوچھا تھا کہ رشیت حضرت اور باقی کہاں ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ اسے معلوم نہیں لیکن وہ مروہ کے پاس میری سعی ختم ہونے کا انتظار کرے گا۔ سعی ختم کی تو دیکھا کہ وہ زمین پر پھسکڑا مارے بیٹھا میرا انتظار کر رہا ہے۔ سعی کے بعد حلق یعنی بال منڈوانے ہوتے ہیں یا کسر یعنی چھوٹے کروانے ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ چلو نائی ڈھونڈتے ہیں۔ اس نے کہا تھا یہ ہیں ناں۔ دیکھا تو دو بارہ تیرہ سل کے بچے ہاتھوں میں چھوٹی قینچیاں پکڑے کھڑے ہیں اور سرکے تین اطراف سے دو تین بال کاٹ دیتے ہیں اور پانچ ریال لے لیتے ہیں۔ یہ طریقہ میرے نزدیک درست نہیں تھا۔ میں کسر کروانا چاہتا تھا یعنی باقاعدہ حجامت۔ ایک لڑکے نے عربی میں کچھ کہا غالبا" مکمل۔ ایک ڈرم جتنے کوڑے کے برتن کے پاس ایک جوان عرب شخص کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بال تراشنے کی مشین تھی۔ میں نے اشارے سے اسے کہا تھا کہ بال کاٹے۔ اس نے میری گدی پہ ہاتھ جما کر میری گردن ڈسٹ بن پہ کی تھی اور میرے نو نو کہتے ہوئے سر پہ مشین چلا دی تھی۔ اب تو چل گئی۔ اوکھلی میں سر دے کر اب موسلوں سے کیا ڈرنا۔ اس نے پندرہ ریال کھرے کر لیے تھے اور میرا سر مونڈ دیا تھا۔ عمرہ مکمل ہوگیا تھا۔

Check Also

Tesla, Mustaqbil Ki Technology Aur Tawanai Ki Dunya Mein Aik Inqilab

By Muhammad Shaheer Masood