Quaid Hum Sharminda Hain
قائد ہم شرمندہ ہیں

گیارہ اگست سن اُنیس سو سینتالیس کو قائداعظم نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے چھ نکات پر زور دیا۔ اول، حکومت کا اولین فریضہ قانون اور نظم و ضبط کی عملداری ہے تاکہ شہریوں کی جان، مال اور مذہبی عقائد کا پورا تحفظ ممکن ہو سکے۔ دوم، رشوت اور بددیانتی زہر ہے، پوری سختی کے ساتھ اسے ختم کرنا لازم ہے۔ سوم، چور بازاری یعنی غذا، اجناس اور زندگی کی اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا کرنا معاشرے میں سب سے بڑا اور سنگین جرم ہے۔ چہارم، اقربا پروری، جانبداری اور کنبہ پروری کی لعنت۔ پنجم، مذہبی آزادی، مندروں میں جانے کی آزادی، مساجد کا رُخ کرنے کی آزادی، اپنی عبادت گاہوں میں آزادانہ طور پر جانے کی آزادی۔ ششم، ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں۔
قائد اعظم کے یہ چھ نکات ایک نئی ریاست کے لیے اخلاقی بنیاد فراہم کرتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ آج اٹھہتر سال گزرنے کے باوجود بھی وہیں کی وہیں ہیں۔
قانون اور نظم و ضبط جسے ریاست کا اولین فریضہ قرار دیا گیا تھا، آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی کمزور کے لیے خوف اور طاقتور کے لیے سہولت بن کر رہ گیا ہے۔ شہریوں کی جان، مال اور عزت کا تحفظ آج بھی قسمت اور حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ قانون بھی موجود ہے، دفعات بھی موجود ہیں، ادارے بھی قائم ہیں مگر عملداری نشتہ۔ آج تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ریاست نے شہری کو تحفظ دینے کے بجائے حالات سے سمجھوتہ کرنا سکھا دیا ہو جیسے لتا نے گنگنایا تھا:
سمجھوتہ غموں سے کر لو
زندگی میں غم بھی ملتے ہیں
انصاف کی فراہمی کا حال دیکھیں تو دہائیوں سے عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے آ رہے ہیں، فیصلے نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو برسوں بعد کیے جاتے ہیں۔ کئی خاندان انصاف کے انتظار میں اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ کہیں کوئی بے گناہ طویل قید کے بعد بری ہو جاتا ہے، مگر ضائع ہو چکا وقت اور برباد ہو چکی زندگی کسی فیصلے کا حصہ نہیں بنتی۔ عدالتیں شاید تاخیر سے فیصلے کرنے کی جبلت رکھتی ہیں۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ عدلیہ حکومت پنجاب کے منظور کردہ پنجاب پراپرٹی اونرشپ آرڈیننس کو منسوخ کر دیتی جس کے تحت پراپرٹی معاملات نوے دن میں حل ہونے تھے۔ انصاف اگر اتنی تاخیر سے ملے کہ مظلوم خود خاموشی اختیار کر لے تو یہ انصاف کے نام پر دھبہ ہوتا ہے۔ گویا صورتحال یہ ہے کہ بقول قتیل شفائی:
عدل کا تم نہ دلاؤ ہمیں احساس قتیل
قتل ہو جاتے ہیں یہاں زنجیر ہلانے والے
رشوت اور بددیانتی کو قائداعظم نے زہر قرار دیا تھا مگر اٹھہتر سال گزرنے کے باوجود بھی یہی زہر نظام کی رگوں میں گردش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں فائلیں اسی وقت حرکت میں آتی ہیں جب ان کی زبان میں بات کی جائے یعنی پیٹ پوجا کی جائے۔ بھرتیوں، تبادلوں، ٹھیکوں اور مراعات میں قابلیت کم اور تعلقات زیادہ فیصلہ کن اور فوری کردار ادا کرتے ہیں۔ بددیانتی کو ذہانت اور ایمانداری کو سادگی سمجھا جاتا ہے۔
چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی کو معاشرے کا سب سے بڑا جرم کہا گیا تھا لیکن آج اٹھہتر سال بعد جرم ختم ہونے کی بجائے باقاعدہ ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں، دوائیں اور سوئی گیس سب کچھ کبھی نایاب اور کبھی ناقابلِ خرید ہو جاتا ہے۔ چینی کے گودام بھرے ہیں مگر بازار میں نہیں ملتی۔ قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں اور کارروائی کا نشانہ اکثر کمزور دکاندار بنتا ہے۔ بڑے ذخیرہ اندوز خبروں میں آتے ہیں اور پھر کہیں غائب ہو جاتے ہیں۔ آج ملک میں بھوک ایک مسئلہ نہیں بلکہ منافع کا ذریعہ بن چکی ہے۔
اقربا پروری، جانبداری اور کنبہ پروری کے خلاف جو تنبیہ کی گئی تھی وہ بھی وقت کے ساتھ بے اثر ہوگئی۔ اتنے طویل عرصے بعد بھی اہلیت کی بجائے نسبت، میرٹ کے بجائے شناخت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ادارے خاندانوں، گروہوں اور وفاداریوں میں تقسیم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باصلاحیت نوجوان مایوس ہوتے ہیں اور ٹیلنٹ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ کہ یہ مجبوری بھی پایہ تکمیل کو پہنچنے نہیں دی جاتی اور ہوائی جہاز میں بیٹھے ہووے نوجوانوں کو خودساختہ بہانوں سے آف لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
مذہبی آزادی کا وعدہ بھی اٹھہتر سال گزرنے کے باوجود پورا نہ ہو سکا۔ عبادت گاہیں آج بھی غیر محفوظ ہیں، اقلیتیں خوف اور بے یقینی میں زندگی گزار رہی ہیں۔ احمدی برادری کو اپنی عبادت پر وضاحتیں دینا پڑتی ہیں، قبروں تک کو نہیں بخشا جاتا۔ عیسائی آبادیوں پر حملوں کی خبریں آئے روز آتی ہیں، ہندو خاندان خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب اس ریاست میں ہو رہا ہے جس کی بنیاد ہی بظاہر مذہبی آزادی کے اصول پر رکھی گئی تھی یا مذہبی تفریق یعنی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا۔ آج یہاں آزادی ایک حق کے بجائے اجازت بن کر رہ گئی ہے۔ جو کہ دو قومی نظریہ کی نفی کرنے کو کافی ہے بیشک بنگلہ دیش کا قیام گول کر لیا جائے۔
برابر کی شہریت کا تصور بھی اتنے برس گزرنے کے باوجود ایک نعرے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ وی آئی پی کلچر مضبوط ہے، عام شہری قطار میں کھڑا ہے۔ کہیں ایک فون کال پر مسئلہ حل ہو جاتا ہے، کہیں برسوں کی درخواستیں بھی بے اثر رہتی ہیں۔ شہریت کو مذہب، حیثیت اور طاقت کے پیمانوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ برابر وہی ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے، باقی محض گنتی کا حصہ ہیں، کیڑے مکوڑے ہیں، مال ڈنگر ہیں۔
اگر آج قائداعظم کی روح سے مکالمہ کیا جائے تو روح یقینی طور پر سوال کرے گی کہ قانون کہاں ہے؟ انصاف کس دروازے پر کھڑا ہے؟ مذہبی آزادی کس اجازت نامے کی محتاج ہوگئی؟ رشوت کو زہر کہنے والا غلط تھا یا اس زہر کو پینے والی قوم نے ذائقہ بدل دیا؟ برابر کی شہریت کا وعدہ کس فائل میں دفن کر دیا گیا؟ اور چور بازاری کو جرم کہنے کے بعد اسے فن کس نے بنا دیا؟
ان سوالات کے جوابات اگر ملک کی کرتا دھرتا اشرافیہ و اسٹیبلشمنٹ کو دینے پڑیں تو الفاظ خاموش ہو جائیں، دل بوجھل ہو جائے اور صرف یہی کہہ سکیں گے کہ قائد، ہم شرمندہ ہیں! حالانکہ دیکھا جائے تو یہ جواب بھی غلط ہوگا کیونکہ شرمندہ وہ ہوتا ہے جس میں شرم و حیا کا مادہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا:
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں سرو کنار جو کا

